مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں لگ بھگ دو سو حکومتیں عالمی درجہِ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کمی لانے کے لیے ایک بار پھر سر جوڑے تقریریں کر رہی ہیں تقریریں سن رہی ہیں۔
انیس سو بانوے میں اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے طے پانے والے ایک جامع ماحولیاتی سمجھوتے پر تنظیم کے تمام رکن ممالک کے دستخط کے بعد سے اب تک ہونے والی یہ ستائیسویں عالمی کانفرنس ہے۔
اس سلسلے کا سب سے اہم اجتماع دو ہزار پندرہ میں پیرس میں ہوا تھا۔ جب شرکا نے عہد کیاکہ اگلے پندرہ برس میں (دو ہزار تیس تک) عالمی درجہِ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کمی کے لیے اجتماعی اقدامات کیے جائیں گے تاکہ دو ہزار پچاس تک درجہِ حرارت میں ایک اعشاریہ آٹھ فیصد اضافے کے نتیجے میں کرہِ ارض کی نصف آبادی کو جو بقائی خطرہ لاحق ہونے والا ہے اسے ٹالا جا سکے۔
پندرہ برس کی طے کردہ سرخ لکیر کو سبز کرنے کا نصف وقت گذر چکا ہے۔ اس عرصے میں درجہِ حرارت میں کمی تو خیر کیا ہوتی۔ آلودگی پھیلانے والے دس بڑے صنعتی ممالک کی ہٹ دھرمی کے سبب درجہ حرارت میں ایک اعشاریہ ایک فیصد مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ یوں پاکستان سمیت دنیا کے دس غریب ممالک کے بنیادی وجود کو بقائی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔
فوری ثبوت یہ ہے کہ صرف رواں برس کے دوران نائجیریا میں سیلابوں سے آٹھ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ صومالیہ میں مسلسل دو برس سے جاری خشک سالی کے سبب ایک ملین سے زائد انسان موت کے منہ میں بتدریج جانے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان کے ایک تہائی زیرِ آب رقبے نے لگ بھگ ساڑھے تین کروڑ نفوس کو بے گھر کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نیپاکستانکو ماحولیاتی اژدھے سے بچانے کے لیے فراخدلانہ عالمی ہنگامی امدادکی اپیل کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلابوں نے پاکستانی معیشت کو لگ بھگ چالیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ جب کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے نزدیک پاکستانی معیشت کو تیس سے بتیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔
شہباز شریف نے شرم الشیخ میں پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے آلودگی کے ذمے دار امیر صنعتی ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی شرائط میں رد و بدل اورغریب ممالک پر منڈلاتی ماحولیاتی قیامت ٹالنے کے لیے بھاری امداد کا مطالبہ کیا۔ مگر امیر صنعتی ممالک نہ صرف اقبالِ جرم سے منکر ہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک کی ماحولیاتی تباہی کازمہ دار بھی ان ہی ممالک کی اندرونی بدنظمی اور کوڑھ مغزی کو قرار دیتے ہیں۔
حالانکہ جن دس ممالک کو مرحلہ وار تباہی کا سامنا ہے ان کا عالمی آلودگی بڑھانے میں حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے۔ جب کہ صرف دو ممالک امریکا اور چین اس آلودہ بحران کے فروغ میں کم ازکم تیس فیصد کے حصے دار ہیں۔ ان کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک، انڈیا، روس، برازیل، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا اور سعودی عرب جیسے ممالک ہیں۔
عالمی بینک نے شرم الشیخ کانفرنس میں ماحولیاتی تباہی سے متعلق جو تحقیقی رپورٹ پیش کی۔ اس کے مطابق پاکستان کو اگلے سات برس میں ماحولیاتی تباہی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے تین سو اڑتالیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ یعنی پاکستان کو اگلے سات برس تک سالانہ قومی پیداوار کے پونے گیارہ فیصد کے مساوی عالمی امداد چاہیے۔ اگر بروقت امداد نہ ملی تو دو ہزار پچاس تک پاکستان کی کل قومی آمدنی میں سالانہ اٹھارہ سے بیس فیصد تک کمی آتی چلی جائے گی اور یہ ملک اپنے ہی قدموں پر ڈھ جائے گا۔
اس وقت پاکستان توانائی کی تینتالیس فیصد ضروریات درآمدی تیل اور گیس سے پوری کر رہا ہے۔ اس درآمد پر سالانہ پندرہ ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ابتری کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ دستیاب قومی وسائل مسلسل بڑھتی آبادی کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان آج سے ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تب بھی دو ہزار پچاس تک پاکستانی شہریوں کی تعداد بڑھ کے تیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اگر ریاستی ڈھانچہ یہ دباؤ برداشت نہ کر پایا تو پھر طوائف الملوکی کا راج ہو گا۔
اب جب کہ بندر کی بلا طویلے کے سر آ گئی ہے تو ماحولیاتی بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ مگر گھنٹی باندھنے کی مہلتکہاں ہے؟
ولادی میر پوتن کی جنگ باز پالیسیوں کے سبب تیل، گیس اور غلے کی عالمی کمیابی نے بقائی و ماحولیاتی بحران اور گہرا کر دیا ہے۔ اس بگاڑ سے اگر کوئی خوش ہے تو وہ تیل اور گیس کی عالمی تجارت اور پیداوار کو کنٹرول کرنے والی سات سے دس بڑی کمپنیاں ہیں۔ ان میں سے آدھی کمپنیاں امریکی ہیں۔
جرمنی اور فرانس سمیت جن صنعتی ممالک نے تیل، گیس اور کوئلے سے توانائی پیدا کرنے والے منصوبوں کو دو ہزار پینتیس تک بتدریج ختم کر کے گرین طریقے اپنانے کا پیرس میں بڑے جوش و خروش سے وعدہ کیا تھا۔ اب یوکرین کے بحران کے سبب بدلے حالات میں اپنے وعدوں سے یہ ممالک دھیرے دھیرے پھر رہے ہیں۔
مغربی ممالک کو اپنے کروڑوں شہریوں کو روسی تیل اور گیس کے بائیکاٹ کے اقتصادی اثرات سے بچانے اور ممکنہ سماجی اتھل پتھل روکنے کے لیے نئے ذخائر اور نئی رسد کی تلاش ہے۔ چنانچہ اوپیک ممالک نے ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تیل اور گیس کے نرخ بڑھا دیے ہیں۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے تیل اور گیس کی عالمی کمپنیوں نے افریقہ کا رخ کر لیا ہے۔
حال ہی میں کانگو کی حکومت نے اپنے ملک میں برطانیہ کے رقبے کے برابر علاقے کو تیل اور گیس کی تلاش کے لیے لیز پر دے دیا ہے۔ اس خطے میں آباد قبائل کو اس بابت اعتماد میں لیے بغیر ان کے مستقبل کا سودا طے پا گیا۔ یہ خطہ گھنے استوائی جنگلات پر مشتمل ہے جس میں معدوم ہوتے گوریلوں سمیت کم و بیش تین ہزار اقسام کے چرند و پرند و درند رہتے ہیں۔
افریقہ میں نائجیریا سمیت متعدد ممالک میں اب تک تیل کے جتنے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ان میں کاربن کی مقدار دنیا کے دیگر خطوں میں پائے جانے والے ذخائر کی نسبت چالیس فیصد زائد ہے۔ کانگو کے ممکنہ ذخائر کے بارے میں ماہرینِ ماحولیات کا اندازہ ہے کہ ان میں مجموعی طور پر اتنا کاربن دفن ہے جو دنیا میں کاربن کی تین برس کے مجموعی اخراج سے بھی زیادہ ہے۔
اگر قدرتی ایندھن کی تلاش اور پیداوار کے دوران کاربن کی یہ مقدار بھی کرہِ ارض کی فضا میں شامل ہو گئی تو اگلے پچاس برس میں دنیا کی کم ازکم نصف آبادی کو زندہ رہنے کے لیے زمین جیسا کوئی اور سیارہ تلاش کرنا پڑے گا۔
اس نئے کارپوریٹ لالچی حملے کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قدرتی ایندھن کی تلاش کی حوصلہ شکنی کے لیے عالمی انشورنس کمپنیاں نئے منصوبوں کی انشورنس نہ کریں۔ کچھ عالمی کمپنیوں نے اس بابت حوصلہ شکنی کے لیے پریمیم کی شرح میں اضافے کا عندیہ بھی دیا ہے مگر نئی انشورنس کمپنیاں اپنے پاؤں جمانے کے لیے پرانی انشورنس کمپنیوں کی جگہ لینے کے لیے تیار ہیں۔
اس تناظر میں شرم الشیخ کی ماحولیاتی کانفرنس میں کیے گئے وعدے عملی جامہ پہننے سے پہلے ہی فضا میں اڑا دیے جائیں گے۔ اس وقت سوائے چین کے کسی صنعتی طاقت نے پیش کش نہیں کی کہ وہ غریب ممالک کو ماحولیاتی تباہی میں اضافے سے روکنے کے لیے مالی ترغیبات دینے کو تیار ہے بشرطیکہ امریکا سمیت دیگر قصور وار صنعتی ممالک بھی ایسے کسی امدادی فارمولے پر رضامند ہو جائیں۔ یہ وہ شرط ہے جو " نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی "کی جدید شکل ہے۔
جو اندھی اور بہری قیامت سر تک آن پہنچی۔ کاش وہ بھی ایسی حیلہ سازیوں اور بہانے بازیوں سے ٹالی جا سکتی۔
تب تلک ایک دعاِ مغفرت انسان کی نام نہاد عقلِ سلیم کے لیے بھی۔