آج (تین جون) عالمی یومِ بائسکل ہے۔ اس دن کا مقصد اس واحد سواری کی اہمیت اجاگر کرنا ہے جو انسان کی جسمانی قوت سے رواں رہتی ہے، یہ ماحولیات دوست سواری نہ پٹرول پیتی ہے، نہ دھواں چھوڑتی ہے۔
ایجاد کردہ سواریوں میں سب سے سستی ہے جس کی رفتار پیدل رفتار سے چار تا پانچ گنا زائد ہے، اسے با آسانی کہیں بھی رکھا یا لے جایا جا سکتا ہے، دیکھ بھال بھی بہت آسان ہے، فاضل پرزے سستے دستیاب ہیں۔ یہ اولمپکس سمیت کئی بین الاقوامی و علاقائی و مقامی چیمپیئن شپس کا حصہ ہے۔
دیگر سواریوں کے برعکس بائسکل کے استعمال سے عضلات بالخصوص پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور سانس کی آمدورفت باقاعدہ رہتی ہے۔ ورزشی توانائی کے نتیجے میں ذیابطیس کو کنٹرول رکھتی ہے۔
ٹریفک اژدھام کے درمیان سے نکل سکتی ہے اور اس کے وسیع استعمال سے نہ صرف ٹریفک حادثات کی شرح خاصی کم ہو سکتی ہے بلکہ زیادہ استعمال کے طفیل دیگر سواریوں کے استعمال میں کمی سے ایندھن اور ماحولیاتی ابتری اور اس کے سبب جنم لینے والے طبی مسائل کے اخراجات میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔
سائیکلنگ کے لیے ایک عالمی دن معنون کرنے کے پیچھے پولش نژاد امریکی استاد لیزک سبلسکی کی کوششوں کا بھی بنیادی ہاتھ ہے۔ سماجیات کے اس پروفیسر نے سائیکل اور سماجیات سے متعلق اپنے ایک تعلیمی پروجیکٹ کو سب کے لیے پائیدار نقل و حرکت یقینی بنانے کے لیے بائسکل کی اہمیت سے جوڑ دیا۔
پروفسیر سبلسکی اور ان کے شاگردوں نے اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کے سفارت کاروں سے فرداً فرداً رابطہ کیا اور بالاخر ستاون ممالک کے مندوبوں کو اپریل دو ہزار اٹھارہ میں ایک قرار داد پیش کرنے پر آمادہ کر لیا۔ جنرل اسمبلی سے اس قرار داد کی منظوری کے نتیجے میں آج دنیا کے کم ازکم ایک سو تین ممالک میں تین جون کو سماجی رابطہ کاری اور ماحولیاتی بہتری میں سائیکلنگ کی اہمیت اجاگر کی جاتی ہے۔
سائیکل نے انیسویں صدی میں گھوڑا گاڑی کی عمومی سواری کی جگہ لینا شروع کی۔ یہ پہلی سواری تھی جس میں واشرز، بال بیرنگز، اسٹیل فریم اور ٹائر استعمال ہوئے۔ اور پھر اسی اصول پر چار پہیوں والی گاڑیوں میں واشرز، بال بیرنگز اور مضبوط فریم والے پہیے اور ٹائر استعمال کرنے کا تصور اور آگے بڑھا اور پھر یہی کل پرزے طیاروں میں بھی استعمال ہونے کی راہ کھلی۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جن دوبھائیوں اورویل رائٹ اور ولبر رائٹ نے بیسویں صدی کی ابتدا میں جدید ہوابازی کے ابتدائی تجربات کیے۔ وہ سائیکلیں فروخت کرتے تھے اور ان کی مرمت بھی کرتے تھے۔
میرے لڑکپن تک پولیس، فوجی، ڈاکیے، خوانچہ فروش، نیم طبی عملے کے اہلکار، طلبا، اساتذہ، دیگر نوکری و تجارت پیشہ جوان و بزرگ، وکلا، صحافی، سیاسی و سماجی کارکن، دودھ فروش، سیلزمین، چوکیدار، دکاندار اور میرے فوٹو گرافر والد آمدورفت کے بنیادی ذریعے کے طور پر سائیکل ہی استعمال کرتے تھے۔
نصف صدی قبل موٹرسائیکلیں خال خال تھیں اور سواری کی ضرورت سے زیادہ متمول نوجوانوں کی شوقین مزاجی کی عکاس تھیں۔ جب کہ موٹر کار روسا کی سواری تھی۔
اس دور میں بیکو اور سہراب سائیکل مقبول مقامی برانڈز تھے اور ان کے اشتہارات اخبارات میں رسائل میں شایع ہوتے، ان کے جنگل ریڈیو پر نشر ہوتے اور ٹی وی پر بھی دکھائی دیتے۔ " بیکو سائیکل کو چلا کر دیکھ لو، ہر طرح سے آزما کر دیکھ لو " یا پھر " ہر پاکستانی کی آن بان سہراب کا نشان۔ "
میرے والد کے پاس ساختہ انگلستان ریلے کمپنی کی بائسکل تھی۔ (ریلے اٹھارہ سو اٹھاسی سے سائیکلیں بنا رہی ہے۔
یہ سالانہ بیس لاکھ بائسکل تیار کرتی ہے اور اس اعتبار سے سب سے پرانی کمپنی ہے)۔ اور میرے بچے بی ایم ایکس (بائسکل موٹر کراس) اور ماؤنٹین بائیک کو ہی سائیکل سمجھتے ہیں اور سادہ سائیکل کا مطلب غلام تاباں چوکیدار کی سواری ہے جسے وہ رات کو ڈنڈے سے بجاتا ہوا محلے کی گلیوں کے پھیرے لگاتا ہے۔
چھوٹے چھوٹے قصبات میں بائسکل چپمپئینزبھی آتے تھے جو مسلسل تین تین دن رات ایک دائرے میں سائیکل چلا کے داد و انعام وصول کرتے تھے۔
جب تک بھانت بھانت کی سستی موٹر سائیکلوں کا طوفان نہیں آیا تھا۔ تب تک ہر چھوٹے بڑے قصبے میں سائیکلیں چار آنے فی گھنٹہ کرائے پر ملتی تھیں۔
عموماً یہ کاروبار سائیکلوں کی مرمت کرنے والے مستری کرتے تھے۔ ان سائیکلوں پر گدی کے پیچھے کیریئر کے بجائے آہنی دندانے لگا دیے جاتے تاکہ دوسرا بچہ نہ بیٹھ سکے۔
تقسیم کے بعد کے کئی برسوں تک جب قانون کو قانون سمجھا جاتا تھا۔ سائیکلوں پر ڈائنمو کے ذریعے چلنے والی ہیڈ لائٹ اور سائیکل کے پیچھے اندھیرے میں چمکنے والی پٹیاں لگانا لازم تھا۔ خلاف ورزی پر چالان بھی ہو جاتا تھا۔
جوں جوں آبادی و بے ہنگم ٹریفک اور قصبات کے حجم بڑھتے گئے۔ سائیکل کا چلن ہم جیسے ممالک میں گھٹتا گیا۔ تن آسانی، زندگی کی بھگدڑ اور ناقص سرکاری ٹرانسپورٹ سسٹم کے خلا کو موٹرسائیکلوں نے تیزی سے پر کیا۔ موٹرسائیکلوں کے فروغ سے کورئیر اور ڈلیوری سروسز بھی پھیلیں اور دو پہیوں کی یہ مشین لاکھوں نوجوانوں کے روزگار کا وسیلہ بنتی چلی گئی۔
البتہ روزگار کے پھیلاؤ میں خود سائیکل کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق غریب ممالک میں ایک خاندان کے پاس ایک بائسکل ہونے کا مطلب ماہانہ آمدنی میں پینتیس فیصد تک اضافہ ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ سائیکل کے ماڈلز بہتر ہوتے چلے گئے۔ مضبوطی اور رفتار بڑھانے کے لیے دھاتی الوئے کے استعمال سے وزن بھی ہلکا ہوتا گیا اور بریکیں بھی پہلے سے کہیں بہتر ہوگئیں۔
سائیکل کو ماحول دوست سستی ٹکاؤ سواری اور نقل و حمل کا مفید ذریعہ ہونے کے سبب منطقی اعتبار سے تیسری دنیا کے غربا کی مقبول سواری ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے فوائد غریبوں سے زیادہ امیروں کو سمجھ میں آ رہے ہیں۔
مثلاً ہالینڈ میں ننانوے فیصد، ڈنمارک میں اسی فیصد، جرمنی میں چھہتر فیصد اور جاپان میں چوہتر فیصد آبادی بائسکل استعمال کرتی ہے جب کہ امریکا سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی انیس بیس کے فرق سے اسی صف میں ہیں۔
ان ممالک میں سائیکل سواروں کے لیے مرکزی شاہراہوں کا ایک حصہ مختص کیا جاتا ہے اور انھیں پارکنگ چارجز وغیرہ میں بھی رعایت دی جاتی ہے۔ نیز متعدد شہروں میں ایک مقام سے سائیکل اٹھا کے استعمال کے بعد اسے کسی دوسری جگہ چھوڑ دینے کی بھی سہولت فراہم ہوتی ہے۔ ان شہروں میں سائیکلوں کی تعداد اتنی زیادہ اور سواری اتنی عام ہے کہ ان کی چوری بھی وارا نہیں کھاتی۔
دنیا میں ایک ارب سے زائد بائسکلز ہیں۔ عالمی بائسکل مارکیٹ کا حجم ساٹھ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ روزانہ پونے چار لاکھ سائیکلیں تیار ہوتی ہیں۔ سالانہ ڈیڑھ کروڑ سائیکلیں اسکریپ ہوتی ہیں۔ جن تین ممالک میں سب سے زیادہ بائیسکل بطور سواری استعمال ہوتی ہے۔ ان میں چین اول نمبر پر ہے جہاں ساڑھے چار سو ملین، امریکا میں سو ملین اور جاپان میں بہتر ملین سائیکلیں متحرک ہیں۔
ایشیا میں سالانہ بیالیس ملین، یورپ میں بائیس ملین اور امریکا میں بیس ملین سائیکلیں فروخت ہوتی ہیں۔ چین اور بھارت میں سب سے زیادہ سائیکلیں بنتی ہیں۔ دنیا کی بیس بڑی سائیکل ساز کمپنیوں میں چین اور بھارت کی چار چار، امریکا کی تین، جرمنی، ہالینڈ اور برطانیہ کی دو دو اور تائیوان، کینیڈا اور سوئٹزرز لینڈ کی ایک ایک کمپنی شامل ہے۔