امریکی صدارتی انتخابات میں اب بس چار ہفتے باقی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان آخری ہفتوں میں جن ووٹروں نے اب تک حتمی رائے نہیں بنائی وہ صدارتی امیدواروں کے مابین دو بدو مباحثے کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون دنیا کے اس طاقت ور ترین عہدے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔
ریپبلیکن امیدوار صدر ٹرمپ اور ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کے مابین اب سے چار دن پہلے ہونے والے پہلے مباحثے کا احوال تو آپ نے دیکھ اور پڑھ لیا ہوگا۔ جس طرح دونوں امیدواروں نے مباحثے کے طے شدہ اصولوں کی دھجیاں اڑائیں، ایک دوسرے کے لیے جو پست زبان استعمال کی اور ٹرمپ نے جس طرح بائیڈن کے جوابات میں بار بار مداخلت کر کے انھیں اور کروڑوں ناظرین کو بدمزہ کیا اس کے بعد کس نے یہ مباحثہ جیتا اور کون ہارا۔ یہ موازنہ بے معنی ہے۔
انتخابی پنڈتوں کی اکثریتی رائے یہ ہے کہ اس سے زیادہ گھٹیا مباحثہ امریکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ گزشتہ برسوں میں امریکی سیاست کس طرح اوپر سے نیچے تک منفیت میں منقسم ہو چکی ہے۔ معیار اب دلیل کے بجائے یہ ٹھہرا کہ کون بلند آہنگ میں زیادہ سے زیادہ بدتمیزی کر سکتا ہے۔
اب تک امریکی طعنے دیتے تھے کہ تیسری دنیا میں جمہوریت کی کمزوری کا بنیادی سبب برداشت اور دلائل کی کمی ہے۔ مگر امریکی جمہوریت اگر سوا دو سو برس کے سفر کے بعد یہاں تک پہنچی ہے کہ دنیا کے سب سے طاقتور عہدے کے متمنی دلیل بمقابلہ دلیل کا راستہ چھوڑ کر ذاتیات کے تیسرے درجے پر آ سکتے ہیں تو اس کے مقابلے میں پھر ہماری کچی پکی بدتمیز جمہوریت ہی بھلی۔
دونوں امیدواروں کے مابین اگلا مباحثہ پندرہ اکتوبر اور تیسرا اور آخری مباحثہ بائیس اکتوبر کو ہوگا۔ اگلے دو مباحثوں کے لیے منتظمین نے شرائط و ضوابط میں بادلِ نخواستہ چند تبدیلیوں کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دونوں امیدوار ریسلنگ کے اکھاڑے میں اترنے کے بجائے اپنے انتخابی پروگرام اور خود کو زیادہ بہتر امیدوار ثابت کرنے کے دلائل کی جانب توجہ دینے پر مجبور ہو سکیں۔ کیا ایسا ہو بھی پائے گا یا پھر اگلے دو مباحثے بھی دنگل بنیں گے؟ اب کروڑوں ناظرین کی ساری دلچسپی اسی بات کے گرد ہے۔
امریکا میں صدارتی مباحثوں کی تاریخ بہت زیادہ پرانی نہیں۔ مگر اس کے ڈانڈے انیسویں صدی سے جا ملتے ہیں جب اٹھارہ سو اٹھاون میں ریاست الی نوائے سے دو امیدوارا سٹیفن ڈگلس اور ابراہام لنکن سینیٹ کے امیدوار تھے۔
ڈگلس جہاں جلسہ کرتے وہیں لنکن بھی پہنچ جاتے۔ چنانچہ ڈگلس نے تنگ آ کر تجویز دی کہ کیوں نہ دونوں امیدوار ایک ہی اسٹیج سے امریکی سماج میں غلامی کو برقرار رکھنے یا ختم کرنے کے فوائد و نقصانات پر تین تین گھنٹے دورانیے کے سات مباحثے کر لیں۔ لنکن نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ بھرپور دو بدو مباحثے ہوئے اور ڈگلس لنکن کو ہرا کے سینیٹر بن گئے۔ دو برس بعد جب ابراہام لنکن نے صدارتی امیدواری کا اعلان کیا تو انھوں نے پچھلی ہار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دو بدو مباحثوں میں الجھنے سے گریز کیا اور صدارتی انتخاب جیت گئے۔
اس کے بعد اگلے نوے برس تک ہمیں کسی بھی طرح کے انتخابی مباحثوں کے شواہد نہیں ملتے۔ البتہ انیس سو اڑتالیس میں ریپبلیکن پارٹی کے پرائمری مقابلوں میں شامل دو صدارتی امیدواروں تھامس ڈیوی اور ہیرلڈ اسٹیسن کے مابین امریکی کیمونسٹ تحریک کو کالعدم قرار دینے کے موضوع پر ایک ریڈیو مباحثہ ہوا۔ اسے لگ بھگ چار کروڑ لوگوں نے سنا۔ چنانچہ بہت سے براڈ کاسٹرز نے سوچنا شروع کیا کہ یہ ایک دلچسپ اور مقبول جمہوری تجربہ ثابت ہو سکتا ہے۔
چنانچہ انیس سو باون میں لیگ آف ویمن ووٹرز نے تمام صدارتی امیدواروں کی ڈبیٹ کروائی جو پہلی بار ٹی وی پر نشر ہوئی۔ اس کے بعد انیس سو چوراسی تک لیگ ہی صدارتی مباحثوں کا انتظام کرتی رہی۔ البتہ پہلا دو بدو مباحثہ انیس سو ساٹھ میں دو بڑے صدارتی امیدواروں ریپبلیکن نائب صدر رچرڈ نکسن اور سینیٹر جان ایف کینیڈی کے مابین ہوا۔ جس میں ماہرین کے پینل نے براہِ راست سوالات کیے۔
یہ مباحثہ ٹی وی پر پینسٹھ ملین امریکیوں نے دیکھا۔ پہلے مباحثے میں جواں سال کینیڈی نے اپنے نفیس لباس اور رنگوں کے انتخاب سے بیماری سے تازہ تازہ اٹھنے والے تھکاوٹ کے شکار ڈھیلے ڈھالے سوٹ میں ملبوس نکسن کو چت کر دیا۔ مگر جنھوں نے ریڈیو پر مباحثہ سنا ان کا خیال تھا کہ نکسن نے حالاتِ حاضرہ پر بہتر دسترس کے سبب یہ مباحثہ جیت لیا۔ باقی تین مباحثوں میں نکسن کی کارکردگی اور ملبوساتی رنگوں کا انتخاب خاصا بہتر ہو گیا مگر پہلے مباحثے میں پیچھے رہ جانے کے تاثر نے ان کی جان نہیں چھوڑی۔ کینیڈی نکسن کو چند لاکھ ووٹوں سے ہرا کر صدر بننے میں کامیاب ہوگئے۔
انیس سو چونسٹھ میں ڈیموکریٹ امیدوار لنڈن بی جانسن نے اور انیس سو اڑسٹھ کے صدارتی انتخاب میں رچرڈ نکسن نے کسی بھی انتخابی مباحثے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ پھر واٹر گیٹ اسکینڈل میں نکسن کے استعفیٰ کے بعد صدر بننے والے نائب صدر جیرالڈ فورڈ اور ڈیموکریٹ جمی کارٹرکے درمیان انیس سو چھہتر میں مباحثوں کی سیریز ہوئی۔ کارٹر فورڈ کو صدارتی انتخاب ہرانے میں کامیاب ہو گئے۔ البتہ جب انیس سو اسی میں جمی کارٹر کے مدِ مقابل رونالڈ ریگن آئے تو کارٹر نے صدارتی مباحثے میں شرکت سے انکار کر دیا۔ ریگن صدارتی انتخاب بھاری اکثریت سے جیت گئے۔
انیس سو چوراسی میں صدارتی مباحثوں کی روایت کو اس وقت دھچکا لگا جب ریپبلیکن امیدوار ریگن اور ڈیموکریٹ امیدوار والٹر مونڈیل کے انتخابی منتظمین نے صدارتی ڈبیٹ میں شمولیت کے لیے ایسی شرائط رکھیں جن کا مقصد اس ڈبیٹ کے طریقِ کار پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ دونوں پارٹیوں نے اس ڈبیٹ کے لیے تجویز کردہ سو سے زائد میزبانوں کو مسترد کیا۔ چنانچہ لیگ آف وومن ووٹرز نے ایک کھلے خط میں اعلان کیا کہ چونکہ دونوں پارٹیوں نے ڈبیٹ کے نام پر امریکی ووٹروں سے فراڈ کے لیے گٹھ جوڑ کر لیا ہے لہٰذا وہ آیندہ صدارتی مباحثے کی میزبان نہیں بنے گی۔
انیس سو چوراسی کی صدارتی ڈبیٹ کا سب سے یادگار مرحلہ وہ تھا جب ڈیموکریٹ امیدوار والٹر مونڈیل نے ریگن کے بڑھاپے کو موضوع بنانے کی کوشش کی۔ ریگن نے یہ کہہ کر مباحثہ لوٹ لیا کہ میں خود کسی کی عمر کو سیاسی موضوع بنانے کے خلاف ہوں ورنہ معزز حریف کی کم عمری اور اس سے بھی کہیں زیادہ ناتجربہ کاری اور بچپنا سب پر عیاں ہے۔ مگر میں اس بارے میں چپ رہوں گا۔
انیس سو اٹھاسی سے صدارتی مباحثے کے انعقاد کی ذمے داری دونوں بڑی پارٹیوں کے اتفاق سے بننے والے صدارتی مباحثوں کے کمیشن سی پی ڈی نے سنبھال لی۔ تب سے اب تک صدارتی مباحثوں کی روایت مسلسل ہے۔
مگر کیا صدارتی مباحثے واقعی کسی امیدوار کی ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں؟ اس بارے میں کوئی واضح بات نہیں کہی جا سکتی۔ انیس سو چھپن کے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب ساٹھ اعشاریہ چار فیصد تھا۔ انیس سو ساٹھ کی پہلی صدارتی ڈبیٹ کے بعد محض پانچ فیصد زائد ووٹ پڑے۔ اور پھر اگلے دو صدارتی انتخابات سے صدارتی ڈبیٹ ہوئے بغیر پہلے سے زیادہ ووٹ پڑے۔
دو ہزار چار کے صدارتی انتخابات سے پہلے میڈیا نے متفقہ فیصلہ دیا کہ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جان کیری نے جارج بش جونئیر کو تینوں مباحثوں میں پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے باوجود کیری انتخاب ہار گئے۔ دو ہزار سولہ میں ڈیموکریٹ امیدوار ہلری کلنٹن نے ڈونالڈ ٹرمپ کو تینوں صدارتی مباحثوں میں بظاہر دوڑا دوڑا کر مارا مگر صدارتی انتخاب پھر بھی ٹرمپ جیت گئے۔
اگرچہ صدارتی ڈبیٹ کا انعقاد ایک صحت مند جمہوری روایت ہے مگر جس طرح ماضی میں صرف ریڈیو اور ٹی وی کے سبب ایسے مباحثوں کو ذوق و شوق سے سنا اور دیکھا جاتا تھا۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پھیلاؤ کے سبب اب نئی نسل کو ایسے مباحثوں سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ آخری وقت تک فیصلہ نہ کرنے والے ووٹروں کی تعداد بھی پہلے کے مقابلے میں کہیں کم ہوتی جا رہی ہے۔
دو ہزار سولہ میں یو ٹیوب نے صدارتی مباحثوں کی مقبولیت کی بابت جو سروے کروایا اس کے مطابق سیاست میں دلچسپی لینے والے امریکی ووٹروں نے نوے نوے منٹ پر مشتمل تینوں صدارتی مباحثوں کو مجموعی طور پر اوسطاً بائیس منٹ دیکھا اور پھر ریموٹ کا بٹن دبا کر کسی اور چینل پر چلے گئے۔