اسرائیل کو سب سے زیادہ فخر اس پر ہے کہ مشرقِ وسطی کے آمرانہ طول و عرض میں وہ ایسی مثالی جمہوریت ہے جہاں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں اور عام آدمی سے صدر اور وزیرِ اعظم تک کوئی بھی احتساب سے مبرا نہیں۔
ایک وزیرِ اعظم (یہود اولمرٹ) کو بدعنوانی کے جرم میں جیل بھی ہو چکی ہے اور دوسرے وزیرِ اعظم (نیتن یاہو) اسی الزام کی چھان بین کے دوران قید اور آزادی کے درمیان جھول رہے ہیں۔ ایک صدر (موشے کستاف) کو ریپ اور قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کے جرم میں اپنے عہدے سے ہاتھ دھو کر سات برس کے لیے جیل جانا پڑا۔ کیا ایسا کسی عرب ملک میں ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔
مگر اسرائیل کے اس جمہوری اور احتسابی غازے کے پیچھے موجود چند انتہائی گہری جھریاں نہایت کوشش کے باوجود چھپائے نہیں چھپتیں اور ہر کچھ عرصے بعد انسانی حقوق کی کوئی نہ کوئی مقامی یا بدتمیز بین الاقوامی تنظیم یا ادارہ اس غازے پر چلو بھر پانی پھینک کر بھید کھول دیتا ہے اور اسرائیل کو دوبارہ لیپا پوتی کے لیے بیوٹی پارلر کی جانب دوڑنا پڑتا ہے۔
تازہ ترین چلو بھر پانی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پوری بالٹی سرکردہ بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کے سر پے دے ماری ہے۔ جب تک ایمنسٹی عرب دنیا میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو جلی حروف میں لکھتی رہی تب تک اسرائیل بغلیں بجانے والوں میں آگے آگے رہا۔
لیکن پچھلے سوموار کو جب ایمنسٹی نے اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسیوں کا بیچ بازار میں تہبند کھول دیا تو اسرائیلی وزیرِ خارجہ یائر لیپڈ کو بذاتِ خود سامنے آ کر کہنا پڑا کہ ایمنسٹی جیسی ذمے دار اور موقر تنظیم بھی دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر یہود دشمنی (اینٹی سیمٹ ازم) پر اتر آئی ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف حقائق کے برعکس بلکہ انتہائی یکطرفہ اور متعصبانہ ہے۔ بقول وزیرِ خارجہ لیپڈ اسرائیل اگرچہ پوری طرح مثالی ملک ہونے کا دعویدار نہیں مگر بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور جواب دہی کی روایت پر پوری طرح کاربند رہنے کے لیے ضرور کوشاں ہے۔
خیر اسرائیلی وزیرِ خارجہ نے کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پوری طرح سے کوئی مثالی ملک نہیں مگر ایمنٹسی نے اسرائیل کو بہرحال ایک "تابندہ مثال " قرار دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنس کیلا مارڈ نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں کسی بھی "چونکہ چنانچہ اگر مگر " کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اس رپورٹ میں کھلم کھلا کہا گیا ہے کہ اسرائیل نسلی تفریق (اپارتھائیڈ) کے نظریے پر کاربند ایسی ریاست ہے جو فلسطینیوں کو بحیثیت انسان پست اور نسلی طور پر کمتر درجے کا گروہ سمجھتی ہے۔ ایسے قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا ہے جن سے نسلی تفریق کا نظام ختم ہونے کے بجائے اور مضبوط ہو۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے زیرِ انتظام مقبوضہ غربِ اردن، مشرقی یروشلم اور غزہ میں جس طرح امتیازی قوانین کے پردے میں فلسطینیوں کو ان کی املاک اور زرعی اراضی سے محروم کیا جا رہا ہے، ان کے نسل در نسل گھروں کو خصوصی عدالتوں کے ذریعے ناجائز و غیرقانونی قرار دے کر مسمار کیا جا رہا ہے، جدی پشتی زمینوں سے جس طرح بے دخل کر کے یہودی آباد کار بستیاں کھڑی کی جا رہی ہیں، جس انداز سے اور جن الزامات کے تحت عمر کا لحاظ کیے بغیر قید میں رکھا جاتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے حتی کہ بالائے قانون ہلاک کیا جاتا ہے۔
ان کی نقل و حرکت کو جس طرح محدود رکھنے اور روزگار کے مواقعے تنگ تر کرنے کی پالیسیاں نافذ ہیں اور انھیں طرح طرح کے جواز ایجاد کر کے نہ صرف شہریت سے محروم کیا جاتا ہے بلکہ ایک مخصوص علاقے تک محدود رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، لاکھوں جلاوطن فلسطینی مہاجروں کو واپسی کا حق دینے سے جس طرح کھلم کھلا انکار کیا جاتا ہے۔ یہ سارا شخشخا نسلی تفریق (اپارتھائیڈ) کی بین الاقوامی قانونی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
ایمنسٹی پہلی تنظیم نہیں جس نے اسرائیل کو نسلی تفریق سے آلودہ سابق گورے جنوبی افریقہ کے مانند اپارتھائیڈ کے نظریے پر کھڑی ریاست قرار دیا ہو۔ گزشتہ برس خود اسرائیل کے اندر متحرک انسانی حقوق کی تنظیم بیت السلیم کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ دریاِ اردن سے روم کے ساحل تک پھیلی اسرائیلی ریاست میں انتظامی پالیسیاں یہودی بالادستی کو یقینی بنانے کے خیال سے نافذ کی گئی ہیں۔ آئینی طور پر بھی اسرائیل ایک یہودی ریاست (جیوش ہوم لینڈ) ہے۔ یہ اپارتھائیڈ نہیں تو کیا ہے؟
گزشتہ برس ایک اور بین الاقوامی تنظیم ہیومین رائٹس واچ بھی اسرائیل کو نسلی تفریق کے نظام پر باضابطہ کاربند ریاست کا تمغہ پہنا چکی ہے۔ البتہ ایمنسٹی کی رپورٹ نے اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کو سر تا پا تلملا کے رکھ دیا ہے۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپارتھائیڈ پالیسی محض مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی شہریوں کو ہی نہیں جکڑتی بلکہ خود اسرائیلی ریاست کے اندر آباد بیس فیصد عرب آبادی بھی اس کے نشانے پر ہے، وہ الگ بات کہ اسرائیلی آئین میں تمام ریاستی شہریوں کو مساوی حقوق عطا کرنے کا وعدہ ہے۔
ایمنسٹی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ انسانیت کے خلاف جرائم کی بین الاقوامی عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی نسلی تفریق کی پالیسیاں اپنائی گئی ہیں ان کی تفصیلی چھان پھٹک کرے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی میثاق سے متصادم ایسی پالیسیاں وضع کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
ایمنسٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ جو ممالک اسرائیل کی اپارتھائیڈ پالیسیوں کا علم رکھنے کے باوجود اسے اسلحہ فروخت کر رہے ہیں، سفارتی پشتیبانی کر رہے ہیں یا اقوامِ متحدہ کے منڈب پر اس کی حمایت میں ڈھال بنے ہوئے ہیں، وہ بھی برابر کے شریکِ جرم ہیں۔
ایمنسٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اپارتھائیڈ پالیسیاں ترک کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل جنگی ہتھیاروں کی تجارت پر ٹھوس پابندیاں لگائے۔ ان میں وہ ہتھیار بھی شامل ہیں جو بظاہر امن و امان کو قابو میں رکھنے کے لیے اسرائیلی پولیس اور نیم فوجی اداروں کے استعمال میں ہیں، اور ان کے استعمال سے اب تک ہر عمر کے ہزاروں فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا پھر زخمی و اپاہج ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جو اسرائیلی عمل دار ان امتیازی پالیسیوں کی تشکیل اور نفاذ کے ذمے دار ہیں ان کے بیرونِ ملک اثاثوں کو نہ صرف منجمد کیا جائے بلکہ بین الاقوامی سفری پابندیاں بھی عائد کی جائیں۔
توقع تھی کہ آزاد مغربی میڈیا ایمنسٹی کی اس رپورٹ کو سابق رپورٹوں کی طرح نمایاں اور مساوی جگہ دے گا۔ مگر الجزیرہ اور بی بی سی کے علاوہ تمام معروف میڈیا اداروں کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ الٹا امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نے ہالی وڈ کی ممتاز اداکارہ اور چینل کی مقبول میزبان ووہپی گولڈ برگ پر دو ہفتے کے لیے اسکرین سے دور رہنے کی پابندی لگا دی کیونکہ انھوں نے اس رپورٹ کے آنے کے بعد جو ذاتی تبصرہ کیا وہ چینل کے خیال میں یہود دشمنی کے دائرے میں آتا ہے۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟