ایک زمانہ تھا کہ بچے کے اس بات پر کان کھینچے جاتے تھے کہ باہر سے کیا کیا الم غلم سیکھ کے آ رہا ہے۔ اس کی زبان روز بروز بازارو کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ یہ کن لوگوں میں اٹھ بیٹھ رہا ہے۔
کیا اسے کسی نے شرافت و نجابت کے معنی نہیں سمجھائے۔ کیا اس کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی۔ آج لگتا ہے کہ وہ الم غلم نسل نہ صرف پختہ عمر کی ہوگئی ہے بلکہ زمامِ کارِ سیاست و انتظام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔
پھبتیاں ہر زمانے میں کسی جاتی تھیں (شیکسپئر کا ڈرامہ جولیس سیزر پڑھ لیجیے)۔ دورِ جاہلیہ و بعد از جاہلیہ کے عربوں کے قصے پڑھ لیجیے۔ حریفوں پر ایسے ایسے طعنوں کی بوچھاڑ کہ کانوں کو بھی ہاتھ لگاتے جائیے اور طعنہ ساز کی تخلیقی اپچ کی داد بھی دیتے رہئے۔ پھر یہ جنسِ لطافت جانے کب رفتہ رفتہ گالم گلوچ میں بدلی اور ہم تک کیچڑ کی شکل میں پہنچی۔ جسے ہمارے نام نہاد مثالیوں نے خالص غلاظت میں بدل دیا اور آج اس کے فروغ کے لیے صوتی بصری ٹیکنالوجی کو جس بے دردی سے استعمال کرنے کا چلن ہے۔ اسے دیکھ کے بندر کے ہاتھ میں استرے کا محاورہ بھی دیوار کی طرف منہ کھڑا کر کے شرمندہ ہے۔
فی زمانہ جس طرح حب الوطنی جیسے لطیف جذبے کو ذاتی، گروہی، نسلی و نظریاتی مفادات آگے بڑھانے کے لیے جس سفاکی سے استعمال کیا جا رہا ہے اور حب الوطنی کے پردے میں ہر طرح کی جنونیت عام کر کے حریفوں کو جیسے نشانے پر رکھا جا رہا ہے۔
سیاست کے ہنر کو جس طرح بھانت بھانت کی مافیائیں اپنا اثرورسوخ اندھا دھند بڑھانے کے لیے پورے پورے سماجی ڈھانچوں کو بے سدھ کر کے یرغمال بنانے کی دوڑ میں مبتلا ہیں اور ملکی مفاد کے نام پر کلپٹو کریسی (چوروں کی بارات) جس طرح متعدد ریاستوں میں طرح طرح سے اپنے پنجے گاڑ رہی ہے۔
جھوٹ کا نام جس خوبصورتی سے متبادل سچ (متبادل بیانیہ نہیں ) رکھ دیا گیا ہے۔ " پوسٹ ٹرمپئن دنیا " میں جس طرح سیاسی موقف کا یوٹرن سچائی کی پگڈنڈیاں نگل رہا ہے اور ہر وعدے، عہد اور بیان کی شیلف لائف کم ہوتے ہوتے ہوتے چند گھنٹوں کی ہوگئی ہے۔ اس کے بعد کوئی بھی رائے کسی کے بارے میں بھی قائم کرنا بدبو دار جھکڑوں کو سہتے ہوئے تنے رسے پر چلنے جیسا ہوگیا ہے۔
ایک زمانے تک سیاسی و ذاتی دشمنی کے درمیان واضح حدِ فاصل کھچی ہوئی تھی۔ کٹر سیاسی دشمن بھی ایک متفقہ غیر رسمی تہذیبی ضابطہِ اخلاق کے دائرے میں ہی رہتے تھے۔
اب پارلیمانی زبان اور تھڑے کی گفتگو میں تمیز نہ صرف مشکل تر ہوگئی ہے بلکہ کسی بھی نام نہاد رہنما یا مدبر کی جانب سے اس کی حوصلہ شکنی یا ناپسندیدگی کا اظہار بھی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ مچھلی دم کی جانب سے نہیں ہمیشہ سر کی طرف سے بساند مارتی ہے۔
حالت یہ ہے کہ والدین اس مشکل میں مبتلا ہیں کہ کچی عمر کے بچوں کو کسی ٹی وی چینل پر کوئی سیاسی مباحثہ بلا روک ٹوک دیکھنے کی اجازت دیں یا ریموٹ کنٹرول اپنے قبضے میں رکھیں؟
وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ اپنے پسندیدہ رہنما کے کسی جلسے یا جلوس میں کنبے سمیت شرکت کریں یا نہ کریں۔ بس اتنی مہربانی باقی ہے کہ ہر ٹاک شو کے آغاز سے پہلے یہ ہدائیت بھی اسکرین پر آنے لگے کہ یہ پروگرام صرف اٹھارہ برس سے اوپر کے ناظرین کے لیے موزوں ہے۔ یا فلاں جگہ جلسہ سننے کے لیے پندرہ برس کے بچوں کو ساتھ نہ لائیں۔
تعلیمی نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ گاندھی جی اور محمد علی جناح کٹر سیاسی حریف تھے۔ ایک دوسرے پر فقرے بھی کستے تھے، طنز بھی کرتے تھے مگر آمنا سامنا ہونے پر ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کرنا بھی نہیں بھولتے تھے۔
اچھا ہی ہوا کہ وہ نسل بہت پہلے گذر گئی اور ان کی یاد اور آبرو صرف کرنسی نوٹ پر تصویر کی شکل میں محفوظ رہ گئی۔ ورنہ یہ سوچ سوچ کے ہی زندہ درگور ہو جاتے کہ کیا یہ ہیں وہ آیندہ نسلیں جن کی آزادی و خوشحالی کے خواب کو عملی شکل دینے کی جدوجہد میں ہم نے عمریں تیاگ دیں۔
آج صرف گالم گلوچ، ٹرولنگ اور مجمع کے من و رنجن کے لیے توہین آمیز فقرے اور القابات کافی نہیں رہے۔ کسی کو بھی غدار یا ملک دشمن قرار دینے میں بھی کوئی خبریت نہیں رہی۔ ایک دوسرے کے خاندان کی خواتین کے بارے میں ذو معنی گفتگو سے بھی تسکین نہیں ہو پا رہی۔
اب سیاسی دشمنی دالان سے ہوتی ہوئی مائک اور کیمرے سمیت خواب گاہ میں گھس گئی ہے۔ ایک دوسرے کی آڈیوز اور وڈیوز منظرِ عام پر لانا نیا نارمل ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ اس گندی گنگا میں ہر کوئی نہا رہا ہے۔
پاکستان کی حد تک یہ کہانی انیس سو ستر میں ہی شروع ہوگئی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو کو ملحد اور کیمونسٹ ایجنٹ کہنے سے کام نہیں چلا تو مذہبی لابی کو حرکت میں لایا گیا اور شورش کاشمیری کے رسالے شہاب نے نہ صرف ایک سو بیس علما کا فتوی شایع کیا کہ جس نے بھٹو کو ووٹ ڈالا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ بلکہ یہ کہانی بھی گھڑی گئی کہ بھٹو کی ولدیت مشکوک ہے اور ختنہ بھی نہیں ہوئی۔ مگر ایسی کردار کشی کا الٹا اثر ہوا اور مغربی پاکستان میں بھٹو سب سے بڑی سیاسی قوت بن کے ابھرا۔
بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے ضیا الحق کی وارث اسٹیبلشمنٹ نے انٹیلی جینس ایجنسیوں کی مدد سے انیس سو اٹھاسی میں اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا۔
مجھے یاد ہے کہ جس روز لاہور میں آئی جے آئی کا آخری انتخابی جلسہ ہونا تھا۔ شہر کے کچھ مقامات پر کرائے کے ایک طیارے سے ہینڈ بل سائز کے پوسٹر گرائے گئے۔ اس پوسٹر میں بیگم نصرت بھٹو کی ایک پرانی تصویر تھی جس میں وہ وائٹ ہاؤس میں دیے گئے عشائیے کے موقع پر صدر فورڈ کی ہم رقص تھیں۔ مگر پوسٹر میں وہ تصویر نہیں چھاپی گئی جس میں وزیرِ اعظم بھٹو مسز فورڈ کے ہم رقص تھے۔
البتہ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کے آگے ماضیِ قریب کی گھٹیا کردار کشی بھی بچوں کا کھیل لگ رہی ہے۔ اب جب تک مخالف کی عزت تار تار کرنے والی کوئی ایسی تصویر، آڈیو یا وڈیو سامنے نہ آ جائے جس کا شہرہ چار دانگِ عالم میں پٹ سکے تب تک تسلی نہیں ہوتی۔ بالخصوص پچھلے دو ڈھائی برس میں یہ چلن اتنا بڑھا ہے کہ اب کسی پر کسی تصویر، آڈیو یا وڈیو کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ گویا ایک نیا نارمل وجود میں آ گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر سیاسی، سماجی اور اقداری فیشن اشرافیہ سے شروع ہوتا ہے۔ " کنگز انگلش " کی اصطلاح سے تو آپ سب ہی واقف ہوں گے۔ لیکن جب اشرافیہ کا روزمرہ بھی گلیارا ہو جائے تو سوچیے اوپر سے نیچے سفر کرنے والے ہر فیشن کے مقلدین کس سطح تک اتریں گے۔
بادشاہ نے پڑاؤ کے دوران گاؤں والوں سے بس مفت میں نمک ہی تو مانگا تھا۔ لشکر نے اس مثال سے حوصلہ پا کر پورے گاؤں کی مرغیاں سیخ پر چڑھا دیں۔