شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب گھر سے باہر سڑک پر کسی موٹرسائیکل اور گاڑی یا گاڑی اور ٹرک یا ٹرک اور فٹ پاتھ کے ٹکراؤ سے جنم لینے والا کوئی بھی معمولی، درمیانہ یا جان لیوا حادثہ نظر سے نہ گذرتا ہو۔
کوئی بھی ایسا حادثہ ہوتے ہی چلتی ٹریفک میں سے دو چار لوگ عین سڑک کے درمیان اپنی گاڑیاں روک کے متاثرین کی مدد کے خیال سے لپکتے ہیں۔ یوں ایک نیا ٹریفک جام جنم لے لیتا ہے۔
ٹریفک جام نہ بھی پیدا ہو تو ٹریفک اچانک آہستہ ہو جاتی ہے اور دونوں اطراف آنے جانے والی گاڑیوں کے ڈرائیور ایسے کسی بھی حادثے کو اتنے انہماک سے دیکھتے ہوئے گذرتے ہیں گویا پہلی بار دیکھ رہے ہوں اور اس کی تصویر اگر موبائیل کیمرے سے نہ اتاری تو دن ضایع ہو جائے گا۔
تو یہ ہے کسی بھی حادثے پر ہمارا قومی رویہ عرف اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر المعروف ایس او پی۔
دیگر ممالک میں حادثے کے فوراً بعد جائے وقوعہ پر سب سے پہلے ٹریفک پولیس پہنچتی ہے یا کوئی راہ چلتا شہری ایمبولینس سروس کو فون کرکے حادثے کی لوکیشن بھیج دیتا ہے۔ تب تک متاثرہ فریقین بنا تکرار و جھگڑا پولیس کا انتظار کرتے ہیں اور ٹریفک سارجنٹ ہی تعین کرتا ہے کہ غلطی کس کی تھی اور اگلا قانونی قدم کیا ہوگا۔
مگر ہمارے ہاں بھلے کوئی گاڑی بیمہ شدہ ہو یا نہ ہو۔ حادثے کے فوراً بعد متاثرہ فریق تکرار سے گالم گلوچ اور پھر دھینگا مشتی پر اتر آتے ہیں۔ میرے بال سفید ہو گئے مگر آج تک حسرت ہی رہی کہ حادثے میں ملوث دونوں میں سے کوئی ایک فریق دوسرے سے معذرت کرتے ہوئے کہے کہ غلطی میری تھی اور فیصلہ قانون پر چھوڑتے ہیں۔ میں نے تو آج تک غلطی سامنے والے کی ہی دیکھی اور پکڑی ہے۔ بھلے گھر ہو یا گھر سے باہر کا کوئی حادثہ۔ میری غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔
اس تقریرِ دل پذیر کا مقصد ٹریفک حادثات کے اسباب اور ان سے متعلق آگہی اجاگر کرنا ہے۔ تاکہ مندرجہ بالا حالت تک نوبت پہنچے ہی نہیں اور اگر پہنچ بھی جائے تو ایسی صورتِ حال سے نارمل انسانوں کی طرح نپٹنے کی کوشش کی جائے۔
حادثہ حادثہ ہوتا ہے، حادثہ بہرہ ہوتا ہے اور اچانک ہوتا ہے۔ لہٰذا سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کے بجائے سانپ کے حملے سے بچنا زیادہ بہتر ہے۔ اسی لیے اقوامِ متحدہ آج پندرہ مئی سے سڑک حادثات سے تحفظ کا عالمگیر ہفتہ منا رہی ہے۔
ہر سال دنیا میں تیرہ لاکھ انسان ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں اور لگ بھگ دو سے پانچ کروڑ انسان معمولی، شدید زخمی یا اپاہج ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر مرنے والوں کی عمر پانچ سے انتیس برس تک ہوتی ہے۔
مرنے والوں میں تہتر فیصد تعداد پچیس برس سے کم عمر کے نوجوانوں کی ہے۔ یہ تعداد ٹریفک حادثات میں مرنے والی خواتین کے مقابلے میں تین گنا ہے۔ نصف سے زائد اموات راہ گیروں، سائیکل، موٹر سائیکل یا تین پہیوں کی سواری استعمال کرنے والوں کی ہوتی ہیں۔
کسی بھی سڑک کے حادثے کا گاڑی کی رفتار سے بنیادی اور براہِ راست تعلق ہے۔ رفتار میں ہر ایک کلومیٹر اضافے سے حادثے کا امکان چار فیصد بڑھ جاتا ہے۔ پچاس تا پینسٹھ کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی گاڑی اگر سامنے سے کسی راہ گیر سے ٹکرائے تو اس کی موت کے امکانات ساڑھے چار گنا بڑھ جاتے ہیں۔
پینسٹھ کلو میٹر کی رفتار پر اگر دو گاڑیاں آمنے سامنے ٹکرائیں تو اگلی نشستوں پر بیٹھنے والوں کے مرنے کا امکان پچاسی فیصد ہے۔ نشے میں ڈرائیونگ کے سبب حادثے کا امکان نارمل حالت کے مقابلے میں پانچ گنا زائد ہے۔ بھلے نشہ کرنے والا خود کو یا سامنے والے کو کتنا بھی یقین دلائے کہ سب ٹھیک ہے اور اس کے قابو میں ہے۔
اگلی نشست پر بیٹھنے والے اگر سیٹ بیلٹ باندھ لیں تو موت کے امکان میں پچاس فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ سیٹ بیلٹ ٹکراؤ کے بعد کے اولین جان لیوا جھٹکے سے جسم کو خاصی حد تک بچا لیتی ہے۔ پچھلی نشستوں پر بیٹھے مسافر سیٹ بیلٹ باندھ لیں تو ان کی موت کا امکان پچیس فیصد مزید کم ہو سکتا ہے۔ جب کہ چھوٹے بچوں کو اگر اگلی سیٹ کے بجائے پچھلی سیٹ پر باندھ کے بٹھایا جائے تو ان کے زندہ بچنے کا امکان ساٹھ فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
دورانِ سفر موبائیل فون استعمال کرنے والے افراد فون استعمال نہ کرنے والے ڈرائیوروں کی نسبت چار گنا زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ کیونکہ توجہ بٹ جانے کے سبب ری ایکشن ٹائم گھٹ جاتا ہے، بریک لگانے اور سگنل پر رکنے یا آگے بڑھنے یا آگے والی گاڑی سے ضروری فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے جو ناگزیر توجہ درکار ہے وہ کم ہو جاتی ہے اور نتیجہ حادثے کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہینڈز فری آلات کا استعمال بھی منقسم توجہ کا نعم البدل نہیں ہو سکتا اور ڈرائیونگ کے دوران تو ٹیکسٹ میسیجنگ کی عادت موت کے فرشتے سے چھیڑچھاڑ کے برابر ہے۔
اگر سڑک پر راہگیروں کے لیے تجاوزات سے صاف فٹ پاتھ ہو اور موٹرسائیکلوں کو مخصوص لین میں چلنے کا پابند کیا جائے اور سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی فوری مرمت کا نظام ہو تو حادثات میں خاصی کمی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کھٹارا یا غیر محفوظ گاڑیاں بھی چلتا پھرتا ٹائم بم ہیں۔ ان پر جب ہی کچھ دن کے لیے توجہ جاتی ہے جب کوئی بڑا جان لیوا حادثہ ہو جائے۔ اس معاملے میں چھوٹ اور رشوت کا لین دین حادثات میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔
کوشش کی جائے کہ وہ کار ہرگز نہ خریدی جائے جس میں سیٹ بیلٹس یا ایر بیگز نہ ہوں۔ کیونکہ جس سے گاڑی خریدی گئی ہے شاید وہ بعد میں پرسہ دینے بھی نہ آئے۔
موٹر سائیکل سوار اگر معیاری ہیلمٹ استعمال کریں تو سر پر جان لیوا چوٹ لگنے کا امکان ستر فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ موٹر سائیکلوں میں اگرچہ انڈیکیٹرز ہوتے ہیں مگر شاید دس فیصد سے بھی کم ڈرائیور ان کا استعمال کرتے ہیں۔ پیچھے دیکھنے والے مررز تو ماشااللہ آج کل ایک فیصد سے بھی کم موٹرسائیکلوں میں نصب ہوتے ہیں۔
کسی کی موت پر سوگوار ہونے یا اپاہج کی تا حیات دیکھ بھال سے کہیں بہتر ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اہم سمجھ کے ان کا لازمی استعمال کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ کار یا موٹر سائیکل کی فل بیم یا غیر ضروری تیز لائٹس کا مسلسل استعمال سامنے سے آنے والے انسان یا گاڑی اور خود اپنے لیے کس قدر جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
اس وقت ساٹھ فیصد گاڑیاں غریب اور متوسط ممالک میں استعمال ہو رہی ہیں مگر ترانوے فیصد حادثات بھی انھی ممالک میں ہوتے ہیں۔ سڑک کے سب سے زیادہ حادثات براعظم افریقہ میں اور سب سے کم یورپ میں ہوتے ہیں۔
کام کے قابل انسانوں کی حادثات میں موت و معذوری، علاج معالجے کے اخراجات اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے دیگر افراد کی معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ سے مجموعی طور پر اکثر ترقی پذیر ممالک کی قومی آمدنی کا تین فیصد ضایع ہو جاتا ہے۔
مجھے ان والدین اور سرپرستوں سے قطعاً ہمدردی نہیں جو اپنے نوعمر بچوں کو موٹر سائیکل یا کار خرید کے دے دیتے ہیں اور انھیں خبر تک نہیں ہوتی کہ ان کی اولادیں شہر کی سڑکوں پر بے لگام اور تیز رفتار کرتب دکھاتے ہوئے اپنی جوانی کے نشانات پورے شہر پر ثبت کرنے کی اندھی ہوس میں مبتلا ہیں۔
اس سے پہلے کہ ان کی لاش گھر پر آئے یا وہ ٹوٹی ہوئی ٹانگوں، بازؤں اور سر کے ساتھ زندگی بھر کی محتاجی کے بوجھ میں بدل جائیں۔ انھیں سدھار لیں۔ انھیں بتائیں کہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے۔ جانے بوجھے پاگل پن اور لاپرواہی کا علاج کس کے پاس ہے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu۔ com اورTweeter @WusatUllahKhan۔ پر کلک کیجیے)