ڈرون اب ہماری روزمرہ لغت اور ضرورت میں شامل ہو گیا ہے۔ اڑان بھرنے والی ایسی مشین جسے اس کا پائلٹ یا ہینڈلر دور بیٹھا ریموٹ سے کنٹرول کرتا ہے۔ اب تو ہر سائز کے لاکھوں ڈرون تیار ہو چکے ہیں جو میڈیا کی تقریباتی و حادثاتی کوریج کے علاوہ کتابیں، کھانا اور دیگر رسد ایک گھر کی چھت سے لے کر دشوار گذار علاقوں تک پہنچاتے ہیں اور قدرتی تباہ کاریوں کے درست سروے کے لیے اپنے کیمروں سے براہِ راست تصاویر ارسال کرتے ہیں۔
ڈرون چند ہزار سے چند کروڑ روپے تک ہر سائز اور قیمت میں دستیاب ہے۔ مگر اس وقت ہمارا موضوع میدانِ جنگ اور اسٹرٹیجک مقامات تک رسائی اور کارروائی کرنے والے عسکری ڈرونز ہیں۔ ان کی خرید و فروخت اور استعمال کرنے کی قانونی مجاز صرف ریاستیں ہیں۔
چونکہ ڈرون محدود جنگی و جاسوسی کارروائیوں کے لیے روائتی طیاروں کی نسبت نہ صرف مختصر بلکہ سستا اور بنا پائلٹ کے کام کرتا ہے۔ لہٰذا اسے کسی ایک مخصوص علاقے کی فضائی حدود میں مسلسل کئی گھنٹے تک رکھا جا سکتا ہے۔ تصاویر کھینچنے کے ساتھ ساتھ بوقتِ ضرورت ہدف کو نشانہ بھی بنا سکتا ہے اور فوج کے مختلف یونٹوں کے درمیان بیک وقت بصری و مواصلاتی رابطہ کاری بھی برقرار رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا یہ روز بروز زیادہ سے زیادہ ریاستی اسلحہ خانوں کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔
اس وقت امریکا، چین، اسرائیل سمیت کم ازکم درجن بھر ممالک عسکری مقاصد کے لیے ڈرونز کی تیاری اور فروخت کر رہے ہیں۔ دس سے زائد ممالک انھیں فوجی کارروائیوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ چھبیس ممالک کی فوج میں ڈرون اسکواڈرنز مستقل بنیادوں پر قائم ہیں اور چھپن ممالک ڈرون تیار کرنے کی ٹیکنالوجی سے واقف ہیں یا انھیں خرید کر مختلف مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
سراغرسانی اور میدانِ جنگ کی اطلاعات کاری کے لیے ابتدائی دور کے ڈرونز اسرائیل نے انیس سو تہتر کی جنگِ رمضان اور انیس سو بیاسی میں لبنان میں پی ایل او سے لڑائی میں استعمال کیے۔ امریکا نے ان کا جاسوسانہ استعمال انیس سو اکیانوے کی جنگِ کویت میں کیا۔ امریکا نے ڈرون سازی میں اسرائیلی تکنیکی مدد اور مشاورت سے بھی استفادہ کیا۔
بعد ازاں ٹیکنالوجی نے کیمرے کے ساتھ ساتھ میزائلوں سے مسلح ڈرون تیار کرنا بھی ممکن بنا دیا۔ پہلا فوجی حملہ نائن الیون کے بعد تیس ستمبر دو ہزار گیارہ کو یمن میں ہوا جب ایک امریکی ڈرون نے القاعدہ کے ایک مطلوبہ رکن انور اولاکی کو نشانہ بنایا۔
پاکستان میں امریکی ڈرون کا پہلا حملہ اٹھارہ جون دو ہزار چار کو ہوا جب جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں شدت پسند کمانڈر نیک محمد کو ہلاک کیا گیا۔ اس حملے میں کل ملا کے دو بچوں سمیت آٹھ اموات ہوئیں۔
دو ہزار چار تا سترہ پاکستان میں چار سو نو ڈرون حملوں میں تین ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ ان حملوں میں صرف بیس فیصد مطلوبہ افراد مارے گئے اور اسی فیصد ہلاکتیں سویلینز کی ہوئیں۔
ڈرون حملوں کے سبب میدانِ جنگ کی صدیوں پرانی روائتی تعریف بھی مجروح ہو گئی کہ جنگ ایک مخصوص علاقے میں دو یا دو سے زائد فریقوں کے مابین باقاعدہ اعلان کے بعد مسلح ٹکراؤ کی انتہائی شکل ہے۔
ڈرونز کی آمد سے یہ تعریف یوں ہو گئی کہ محاذِ جنگ لامحدود ہے جس میں ایک فریق دوسرے فریق کو بطور شکاری اچانک خبردار کیے بغیر نشانہ بنانے کی قوت رکھتا ہے۔ کوئی فرد یہ حرکت کرے تو قاتل کہلاتا ہے، کوئی غیر ریاستی تنظیم یہ کام کرے تو دھشت گرد کہلاتی ہے لیکن کوئی ریاست یہی فعل کرے تو وہ پیشگی دفاعی حملہ (پری ایمپٹو اسٹرائیک) کہلاتا ہے۔
فی زمانہ سب سے بڑی جنگِ ڈرون لیبیا کے ساحل پر تریپولی میں قائم اقوامِ متحدہ کی تسلیم کردہ حکومت اور بن غازی میں قائم جنرل خلیفہ ہفتر کی باغی انتظامیہ کے درمیان ہوئی۔ متحدہ عرب امارات، روس اور فرانس خلیفہ ہفتر کے حامی تھے اور ترکی تریپولی حکومت کا اتحادی تھا۔ امارات نے خلیفہ ہفتر کو چینی ساختہ ڈرونز فراہم کیے اور ترکی نے اپنے ہاں تیار ہونے والے ڈرونز تریپولی حکومت کی حمائیت میں بھیجے۔
مئی دو ہزار بیس میں ہونے والی اس جنگ میں لگ بھگ ایک ہزار ڈرونز استعمال ہوئے۔ ترک ٹیکنالوجی کا پلہ بھاری رہا اور خلیفہ ہفتر کی فوجوں کو جو تریپولی کے مضافات تک پہنچ چکی تھیں بھاری نقصان اٹھا کر پسپا ہونا پڑا۔ فی الحال لیبیا میں جزوی امن ہے۔
ڈرونز جنگ کا پانسہ فیصلہ کن انداز میں پلٹ بھی سکتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ برس ستمبر میں آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ میں دیکھنے میں آیا۔ آرمینیا کے پاس سوویت دور کا اسلحہ تھا اور فوجی حکمتِ عملی بھی اتنی ہی فرسودہ تھی۔ جب کہ آذربائیجان نے نہ صرف گزشتہ دس برس میں اپنی افواج کو جدید اسلحے کی تربیت دی بلکہ تیل کی دولت کے سبب نیا توپ خانہ اور طیارے بھی خریدے۔
لیکن اصل کمال اسرائیل اور ترکی سے حاصل کردہ ڈرون اسکواڈرنز نے دکھایا۔ جب آرمینیائی دستوں کے سر پر نیچی پرواز کرنے والے ڈرونز کی بھیجی گئی براہ راست تصاویر کی مدد سے آذر بائیجانیوں نے ہکا بکا حریف دستوں اور بھاری اسلحے کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنا کر انھیں سترہ دن میں نگورنو کاراباخ کا متنازعہ علاقہ خالی کرنے پر مجبور کر دیا۔ پسپا ہوتے توپ خانے، ٹینک بٹالینز اور فوجی ٹرکوں کو بھی ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا۔
اس لڑائی کے بعد ترکی ڈرونز کی عالمی مارکیٹ میں امریکا اور اسرائیل کے بعد تیسرے نمبر کا لیڈر بن گیا۔ لیبیا اور آذربائیجان کے بعد ترک ڈرونز کی مارکیٹنگ کا تیسرا موقع ایتھوپیا کی مرکزی افواج اور تیگرے علیحدگی پسندوں کے درمیان جاری جنگ میں سامنے آ رہا ہے۔
ایتھوپیا کی ایرفورس بائیس روسی ساختہ طیاروں پر مشتمل ہے۔ تیگرے باغی پہاڑی علاقوں میں جنگ کے ماہر ہیں۔ چنانچہ ایک ماہ پہلے وہ دیگر حکومت مخالف تنظیموں کا فوجی اتحاد تشکیل دے کر سرکاری افواج کو دھکیلتے دھکیلتے دارالحکومت ادیس ابابا کے قرب و جوار تک لے آئے۔ ایسے موقع پر ایتھوپیا کی حکومت نے اسرائیلی، ترک، چینی اور ایرانی ڈرونز کی ہنگامی خریداری کی اور پھر آہستہ آہستہ حکومت مخالف چھاپہ ماروں کو پہاڑوں میں دھکیلنے میں کامیاب ہو گئی۔
ڈرونز غیر ریاستی عناصر بھی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً داعش نے موصل پر قبضے کے دوران اور شام کے شمالی علاقوں میں ڈرونز کا محدود فوجی استعمال کیا۔ اس کے علاوہ نائجیریا میں شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے بھی ڈرونز کو رسدی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ جب کہ نائجیریا کی حکومت بوکوحرام کو لگام ڈالنے کے لیے ڈرونز استعمال کر رہی ہے۔
جس طرح گاجر کو غریب آدمی کا سیب کہا جاتا ہے اسی طرح ڈرونز غریب ممالک کے لیے مہنگی ایرفورس کا متبادل ہے۔
اب تک سروں پر منڈلاتی اس خاموش موت کا کوئی توڑ نہیں تھا۔ لیکن چین نے حال ہی میں ایک ایسا ریڈار بنا لیا ہے جسے ایک سپاہی کندھے پر رکھ کے بھی میدانِ جنگ میں استعمال کر سکتا ہے۔ اس ریڈار کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نیچی پرواز کرنے والے ڈرونز اور کروز میزائلوں کا پتہ چلا سکتا ہے۔
چین پہلے ہی ڈرونز کی عالمی مارکیٹ میں صفِ اول میں ہے۔ اب اس نے اینٹی ڈرون ریڈار بھی بنا لیا ہے۔ جسے ڈرون چاہیے ڈرون لے لے جسے اینٹی ڈرون چاہیے وہ لے لے۔ پھر بھی لوگ پوچھتے ہیں کہ چین عالمی منڈی پر کیوں چھایا ہوا ہے۔
(پاکستان نے چینی ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈرون سازی کا پروگرام دو ہزار تیرہ میں شروع کیا اور دو ہزار پندرہ سے پاکستان مقامی طور پر تیار کردہ ڈرونز مختلف عسکری و غیر عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے)۔