جب محلے کی مسجد کے امام صاحب سنتِ ابراہیمی کا پس منظر، روحانی مقصد، قربانی کے جانور کی جسمانی اہلیت کی شرائط، گوشت کے حصے کرنے کے مسنون طریقے اور اس گوشت پر غربا و مساکین کے حقوق اور قربانی کی کھال کے مستحقین کے بارے میں ہر برس تفصیل سے عام مسلمانوں کو سمجھا سکتے ہیں تو اسی تربیتی و علمی گفتگو میں ان دو چار سطروں کا اضافہ کیوں نہیں کر سکتے کہ اے ایمان والو جب تم اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے جانور خریدو تو جتنی احتیاط تم اس جانور کی عمر اور دانت چیک کرنے میں برتتے ہو اتنی ہی احتیاط اسے گھر لانے کے بعد بھی تو کرو۔
یعنی جانور کو ایسی جگہ باندھا جائے جہاں سے گذرنے والوں کو تکلیف نہ ہو اور اس جانور کے بول و براز سے راہ گیروں کے کپڑے محفوظ رہیں۔ جانور کو کھلونا سمجھ کر تھکانے سے پرہیز کیا جائے اور اس کی بھوک پیاس کا خیال رکھا جائے۔ سب سے اہم یہ کہ ذبیحہ سڑک یا گلی میں کرنے کے بجائے گھر کے صحن یا لان میں اور اگر صحن کی سہولت میسر نہیں تو کسی کھلے میدان میں کیا جائے۔ تاکہ سڑکیں اور گلیاں خون سے آلودہ و سرخ اور آلائش کے پھیلاؤ کے سبب وحشت ناک نظارہ نہ پیش کریں اور اس خون و آلائش پر بیٹھنے والے مچھر و مکھی، کتے بلیاں وغیرہ اس آلائش کو مزید پھیلا کے بیماریوں کا سبب نہ بنیں۔
قربانی جتنی ضروری ہے اتنا ہی اس عمل کی تکمیل کے دوران صحت و صفائی اور اہلِ محلہ کی سہولت کا خیال اور اس خیال کی عام مسلمانوں کو مسلسل تعلیم بھی ضروری ہے۔ مگر میرا مشاہدہ ہے کہ سو میں سے شائد ایک یا دو علما یا امام صحت و صفائی سے متعلق قربانی کے پہلو پر بھی اتنا زور دیتے ہوں جتنا کہ قربانی کی روحانی اہمیت پر۔
چنانچہ سب سے آسان کام یہ ہے کہ صحت و صفائی کے معاملات میں برتی جانے والی عمومی غفلت کا نزلہ سرکار پر گرایا جاتا رہے۔ ہر برس گلی کے بیچ میں ذبیحہ کرنے والوں سے لے کر میڈیا کے کیمروں تک سب ہی شکوہ کناں ہوتے ہیں کہ حکومت نے اس بار بھی صحت و صفائی کا غیر تسلی بخش انتظام کیا ہے۔ کوئی نہیں بتاتا کہ حکومت یا مقامی بلدیہ نے تو جانوروں کی آلائشوں کو جمع کرنے کے لیے جگہیں ہفتہ بھر پہلے مختص کر دی تھیں اور یہ بھی درخواست کی تھی کہ قربانی گلی میں اپنے دروازے کے آگے کرنے کے بجائے نزدیکی میدان میں کی جائے۔ مگر ہم میں سے ہر کوئی چاہتا ہے کہ کوئی بھی ہمیں من مانی پر ٹوکے تک نہیں بلکہ قربانی ہم کریں اور سرکاری کارندے ہماری پھیلائی آلائشوں کو در در آ کر صاف کریں۔ یہ ہمارا پیدائشی حق اور حکومت کا پیدائشی فرض ہے۔
ہم کرتے تو اپنی مرضی ہیں اور مثالیں خلیجی ممالک کی دیتے ہیں کہ وہاں کوئی بھی گلی یا سڑک پر قربانی کا جانور پچھاڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ یا تو آپ مخصوص جگہوں پر قربانی کریں گے۔ جہاں سرکار نے پانی، قصاب اور آلائشوں کی صفائی کا پیشگی انتظام کر رکھا ہے یا پھر کسی ادارے یا تنظیم کو پیسے دے دیں گے تاکہ وہ آپ کی جانب سے مشینی مذبح خانے میں قربانی کر کے گوشت آپ تک پہنچا دے۔ ان میں سے کسی بھی ضابطے کی خلاف ورزی کا مطلب سزا یا بھاری جرمانہ ہے۔
ہم تمنا کرتے ہیں کہ جب تک خلیجی نظام و ڈسلپن لاگو نہیں ہوگا ہم نہیں سدھر سکتے۔ مگر کبھی کبھار کہیں کہیں اس ڈسپلن کا دس فیصد بھی جب لاگو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو شور مچ جاتا ہے کہ یہ ہماری جدی پشتتی روائیت ہے اور اس میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اسی دوران ایک آدھ مولوی صاحب ایسا بیان دے کر سلگتی لکڑیوں پر مزید گھی ڈال دیتے ہیں کہ حکومت دینی معاملات میں مداخلت سے باز رہے ورنہ نتائج کی ذمے دار بھی حکومت ہی ہو گی۔ اور پھر حکام فسادِ خلق کے خوف سے تھوڑے بہت کیے گئے اقدامات پر بھی زور دینے کے بجائے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یوں بدنظمی و بے ترتیبی کی قومی روایت سینہ تانے ایک برس اور ترقی پا جاتی ہے۔
ہمیں اپنی اور دوسروں کی جانوں کی کتنی پرواہ ہے؟ اس کا نظارہ آپ گزشتہ ایک ماہ سے بکرا پیڑھیوں کے اندر اور باہر دیکھ رہے ہوں گے۔ بارہا کہا گیا کہ ہجوم کی شکل مت اختیار کریں ورنہ کورونا آپ کو لپٹ سکتا ہے۔ مگر بقول جون ایلیا
جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام ہاں بخدا نہیں کیا
حکومت نے اعلان کیا کہ بکرا منڈی چوبیس گھنٹے کے بجائے صبح چھ سے شام سات بجے تک کھلی رہے گی۔ بیوپاریوں نے اس کا توڑ یہ نکال لیا کہ سات بجے کے بعد جانور ہی باہر فٹ پاتھوں اور گرین بیلٹس پر لے آئے جہاں پوری پوری رات خرید و فروخت ہوتی ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔
لڑکے بالے ہمیشہ کی طرح ایک موٹر سائکل پر تین تین آ جا رہے ہیں۔ بکرے اور دنبے کو بھی موٹرسائیکل پر سوار کر رکھا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ سامنے جو تین چار پولیس والے ہمہ وقت کھڑے ہیں وہ کیوں طے شدہ کورونا ضابطہ کار پر عمل نہیں کرواتے؟ انھی لوگوں سے اگر پلٹ کے پوچھ لیا جائے کہ آپ اور ہم اپنے مفاد کی ہر اونچ نیچ، اچھا برا بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔ نہیں سمجھ پاتے توطے شدہ ضابطہ کار نہیں سمجھ پاتے۔ حالانکہ یہ اتنا آسان ہے کہ ایک بچہ بھی چاہے تو سمجھ سکتا ہے۔
ڈسپلن وہاں لاگو ہو سکتا ہے جہاں لوگ بھی ڈسپلن اختیار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ چار پانچ پولیس والے بیس بچیس موٹر سائیکلوں پر ٹرپلنگ کرنے والوں کو توپکڑ سکتے ہیں مگر جہاں لونڈوں کا پورا بریگیڈ بلکہ ڈویژن ہی سامنے سے آ اور جا رہا ہو ان کا یہ پولیس والے چھوڑ کوئی بھی کیا بال بیکا کر لے گا۔ چنانچہ پولیس والے بھی اپنا اصل کام چھوڑ کر جس سے جتنے پیسے اینٹھ سکتے ہیں اینٹھنے میں لگ جاتے ہیں۔
آج اگر خلیجی ممالک کی آبادی یا مغربی ممالک کے لوگ یہ کہتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں کہ ہم کوئی ضابطہ نہیں مانیں گے تو پولیس کیا فوج بھی شہریوں سے قوانین پر عمل نہیں کروا سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شہریوں کی اکثریت بھی قانون پسند ہو تب ہی سرکار بھی قانون پر عمل کروا پاتی ہے۔
کیا ہم واقعی دل و دماغ سے قانون پسند ہیں؟ اس سوال کا جواب کسی کے بجائے خود کو ہی ایمان داری سے دے دیں اور جو بھی جواب آئے اسے خود پر لاگو کرنے کی کوشش کریں تو سمجھیے گا کہ آپ نے اس عید پر جس نیت سے قربانی دی۔ پہلی بار اس نیت کا حق ادا ہو گیا۔ چنانچہ عید مبارک۔