کل انتیس نومبر کو اقوامِ متحدہ کے تحت فلسطینیوں سے یکجہتی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انیس سو ستتر میں کیا۔
عجیب بات ہے کہ اسی جنرل اسمبلی نے انتیس نومبر انیس سو سینتالیس کو فلسطین کی دو حصوں میں تقسیم کی قرار داد بھی منظور کی تھی جو اس المیے کا پیش خیمہ بنی جس نے اب تک فلسطین کی چار نسلیں نگل لیں اور لاکھوں کو دربدر کر دیا۔
اس اعتبار سے انتیس نومبر کا دن یومِ یکجہتی فلسطین کہلانا عجیب سا بھی لگتا ہے اور انشااللہ خان انشا کا یہ مصرعہ بھی یاد آتا ہے کہ " وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا"۔
اس دن کی مناسبت سے کہنے کو بے شمار باتیں ہیں مگر فوری المیہ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کی کارروائی کے بعد سے اس تاثر کا پھیلایا جانا ہے کہ جیسے چھ اکتوبر تک سب بھلا چنگا تھا اور اگلے دن اچانک سے حماس کو کسی باؤلے کتے نے کاٹ لیا۔ یہی بات اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے منہ سے نکل گئی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ خلا میں نہیں ہوا بلکہ اس کا ایک پس منظر ہے تو اسرائیل نے سیکریٹری جنرل کو ہی اس عہدے کے لیے نااہل قرار دینے کا فتوی دے دیا۔
فلسطینیوں کی جدوجہد نے گزشتہ ایک صدی میں عزالدین قسام سے یاسر عرفات تک کئی تاریخ ساز رہنما پیدا کیے مگر سات اکتوبر کی مناسبت سے اب تک دو ہی نام سامنے آئے ہیں جنھیں اسرائیلی پہلی فرصت میں مٹا دینا چاہتے ہیں۔
حماس کے عسکری بازو کے سربراہ محمد زیاف جن کی اہلیہ، تین سالہ بچی اور نوزائیدہ بیٹا اسرائیل کے گزشتہ حملوں میں جاں بحق ہوئے۔ جب کہ حماس کے سیاسی بازو کے سربراہ اور غزہ میں مقیم سب سے اہم رہنما یحیی السنوار، انھوں نے انیس سو اٹھاسی تا دو ہزار گیارہ تئیس برس اسرائیلی جیلوں میں گذارے۔ ان کا بچپن خان یونس کے پناہ گزیں کیمپ میں گذرا۔ ان کے دادا اور والد کو خاندان سمیت اشقلیہ کے اس گاؤں سے انیس سو اڑتالیس کے نکبہ کے دوران مسلح اسرائیلی جتھوں نے کھدیڑا تھا جہاں سمندر پار سے لا کر یہودی آبادکاروں کو بسایا گیا۔ یہ گاؤں غزہ کی خار دار باڑھ کے پیچھے سے صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
اس پس منظر کو بھوگنے کے سبب ہی محمد زیاف اور یحیی السنوار اور ان جیسے سیکڑوں ہزاروں فلسطینی اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے مان جائیں۔ جس ریاست کی بنیاد فلسطینیوں کی لاشوں پر رکھی گئی۔
اسے عدم تشدد کی افادیت پر محض دلائل سے قائل نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ کل کلاں محمد زیاف اور یحیی السنوار بھی اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہو جائیں۔
تاہم فلسطینی مزاحمتی تحریک کسی ایک یا دو تین شخصیات کے گرد گھومتی تو کبھی کی ختم ہو چکی ہوتی۔ مگر اسرائیل کا تاریخی و نسلی احساسِ جرم اس تحریک کے لیے کھاد اور اپنوں اور غیروں کی بین الاقوامی بے حسی اس درخت کے لیے آب ہے۔
پچھلی ایک صدی میں اس تحریک کے پتے کتنی بار جھاڑے جا چکے ہیں۔ شاخیں اور تنا کئی بار کٹ چکا ہے۔ مگر اس درخت کی جڑیں اپنی ہی زمین میں کم بخت اتنی پیوست اور صدیوں پر پھیلی ہوئی ہیں کہ ہر نئے حملے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ برگ و بار آ جاتا ہے۔ جس گروہ کو مسلسل ایک صدی سے تابڑ توڑ حملوں کا سامنا ہو اور جسے اپنی نسلی بقا کے لالے پڑے ہوں، بھلا اس سے زیادہ امن کون چاہے گا۔
یہ سیاست کا فطری اصول ہے کہ اگر امن و آشتی کی بات کرنے والی اولین قیادت کی تکلیف دھیان سے سننے کے بجائے اس قیادت کو ہی ختم کر دیا جائے تو اس کی جگہ لینے والی قیادت کم لچکدار ہوتی ہے اور اگر اس سے بھی معاملات شرافت سے طے نہ ہوں تو پھر اس قیادت کی جگہ لینے والے پہلے سے زیادہ انتہاپسند ہوتے ہیں۔
کل تک اسرائیل یاسرعرفات کو دہشت گرد سمجھتا تھا۔ آج ان کی جگہ زیادہ سخت گیر حماس نے لے لی ہے۔ اور جب وہ نسل جوان ہوگی جس نے سات اکتوبر کے بعد سے اپنے اردگرد اپنے ہم عمروں کی لاشوں کے انبار دیکھ لیے ہیں تو وہ نسل اتنی انتہاپسند ہوگی کہ اسرائیل آج کی حماس کو ایک اعتدال پسند تنظیم سمجھ کر وقت ہاتھ سے نکلنے پر کفِ افسوس ملتا نظر آئے گا۔
چونکہ اسرائیل خود دہشت گردی کے خمیر سے اٹھا ہے، اس لیے تمام تر طاقت و ذہانت کے باوجود اسے حریف کے ہاتھ میں شاخِ زیتون نظر نہیں آ سکتی۔ پی ایل او نے انیس سو بانوے میں بندوق رکھ کے جو شاخِ زیتون لہرائی، اسے اسرائیل نے کمزوری جانا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ بقول ابراہام ماسلو " جب ہاتھ میں بس ہتھوڑا ہو تو ہر مسئلہ کیل نظر آتا ہے"۔
غزہ میں حماس کے رہنما یحیی السنوار جنھیں امریکا نے دو ہزار پندرہ میں عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیااور اسرائیل بھی انھیں سات اکتوبر کی یلغار کا سرغنہ سمجھ کے ان کا سر چاہتا ہے۔
انھی یحیی السنوار نے اکتوبر دو ہزار اٹھارہ میں اسرائیلی اخبار یودھیوت آہرونوتھ اور اطالوی اخبار لا ریپبلیکا کو پہلی بار کوئی انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ سے کسی کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ہمیں دو ہزار سات سے جاری ناکہ بندی سے پہلے بھی مسلسل جارحیت کا سامنا تھا۔ کبھی اس کی شدت میں کمی اور کبھی تیزی آ جاتی ہے۔
حماس اتنی احمق نہیں کہ اپنے سے کئی گنا طاقت ور دشمن کو جنگ کی دعوت دے۔ اگر اسرائیل ہمیں شکست دے بھی دے تو یہ شکست بھی اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہوگی۔ ہم آخر کیوں جنگ چاہیں گے۔ ایک غلیل والا ایک ایٹمی طاقت کو کیوں للکارے گا؟ مگر وہ ہمارے ساتھ منصفانہ امن نہیں چاہتے بلکہ ہم سے جان چھڑا کے ہماری زمین چاہتے ہیں۔
ہم نے پرامن جدوجہد کرکے بھی دیکھ لیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اسرائیل نے کیا کیا۔ ان سے معاملات طے کرنے کے بجائے انھیں محتاج اور زر خرید غلام سمجھ لیا۔ خود ہم غزہ کی باڑھ ختم کروانے کے لیے دو ہزار سترہ سے ہر ہفتے باڑھ کے سامنے کھڑے ہو کر احتجاج کرتے ہیں مگر بدلے میں ہمیں گولیوں کی بارش، لاشیں اور زخمی ملتے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلے گا۔ ایک جنگ ایسی ہوگی کہ علاقے کا حلیہ بدل جائے گا۔ کیا آپ یہی چاہتے ہیں"۔
اور اس انٹرویو کے پانچ برس بعد حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کے تمام تر سراغرساں نیٹ ورک کو توڑ تاڑ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ شکست خوردگی سے جنم لینے والی بمباری سے بس انسان ختم ہوتے ہیں تو ان کی جگہ ایک اور پیڑھی لے لیتی ہے۔ نظریہ اور ہمت ختم کرنے والا بم اب تک نہ بن سکا۔ حیف صد حیف۔