اگر آپ گلگت کے چنار باغ میں جائیں تو وہاں یادگارِ شہدا پائیں گے۔ جسے چند برس پہلے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ یادگار ان بہادروں کی یاد دلاتی ہے جنھوں نے اس خطے کو انیس سو سینتالیس اڑتالیس میں کشمیر کے ڈوگرہ راج سے نجات دلانے کے لیے خود کو قربان کر دیا۔
پاکستان سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا مگر گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جس کے سپوتوں نے بندوق اٹھا کر آزادی حاصل کی۔ یکم نومبر انیس سو سینتالیس کو ڈوگرہ فوج کے گلگت اسکاؤٹس کے میجر ولیم براؤن، چھٹی ڈوگرہ انفنٹری کے کیپٹن مرزا حسن خان اور ان کے ساتھیوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور ایک مختصر لڑائی کے بعد گلگت سے ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔
آزاد حکومت کا عبوری صدر شاہ رئیس خان اور کمانڈر مرزا حسن خان کو مقرر کیا گیا۔ مگر یہ عبوری حکومت دوہفتے ہی قائم رہی۔ کیونکہ پندرہ نومبر کو خان محمد عالم خان گلگت پہنچے اور حکومتِ پاکستان کے نمایندے کے طورپر بطور پولٹیکل ایجنٹ یہاں کا انتظام سنبھال لیا۔ نومبر انیس سو اڑتالیس میں سکردو پر بھی آزادی پسندوں کا قبضہ ہو گیا۔
بجائے یوں کہ حکومتِ پاکستان اس خطے کے لوگوں کے والہانہ پن کا جواب خصوصی درجہ بخش کر دیتی۔ اس پورے خطے پر فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز ( ایف سی آر ) لاگو کر دیا گیا۔ گویا برائے نام بنیادی حقوق بھی سلب ہو گئے۔ عجیب بات ہے کہ آزاد کشمیر پر ایف سی آر لاگو نہیں ہوا کہ جو ڈوگرہ ریاست کی جانشین ریاست تھی۔
اس کے بعد اٹھائیس اپریل انیس سو انچاس کو معاہدہِ کراچی ہوتا ہے۔ جس پر پاکستانی حکومت کی طرف سے امورِ کشمیر کے انچارج وزیر نواب مشتاق احمد گورمانی اور حکومتِ آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد ابراہیم اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار غلام عباس نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت حکومتِ آزاد کشمیر کے خارجہ، مواصلاتی اور دفاعی امور ریاستِ پاکستان کو منتقل ہو گئے نیز گلگت بلتستان خطے کے انتظامی امور بھی عبوری طور پر پاکستان کی مرکزی حکومت کے سپرد کر دیے گئے۔
اس معاہدے کے بارے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے کسی نمایندے کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ اور وہاں کے باشندوں کی اکثریت نے پہلی بار اس معاہدے کا تذکرہ انیس سو بانوے میں سنا جب آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے قانونی و انتظامی مرتبے کے تعین کے بارے میں ایک رٹ پیٹیشن سماعت کے لیے منظور کی۔
اس خطے کے لوگ ایف سی آر ہرگز نہیں چاہتے تھے جس کے تحت مرکز کا نامزد پولیٹیکل ایجنٹ حاکم بھی تھا اور منصف بھی۔ اسے سزائے موت دینے کا بھی اختیار تھا۔ چنانچہ انیس سو چھپن میں ایف سی آر کے خاتمے اور قانونی اصلاحات کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے گلگت لیگ بنی۔ مگر انیس سو اٹھاون میں پاکستان میں پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد گلگت لیگ پر پابندی لگا دی گئی۔
ساٹھ کی دہائی میں مواصلاتی طور پر باقی ملک سے کٹے اس علاقے کے نوجوان حصولِ تعلیم و روزگار کے لیے راولپنڈی اور کراچی تک جانے لگے۔ ان کا سیاسی شعور اور بڑھا جب انھوں نے اپنے خطے کی سیاسی گھٹن کا باقی پاکستان کی سیاسی سرگرمیوں سے موازنہ شروع کیا۔ ان نوجوانوں کی بدولت گلگت بلتستان خطے میں تنظیمِ ملت اور قوم پرست گلگت بلتستان لداخ مہازند نامی دو تنظیمیں وجود میں آئیں۔
جنوری انیس سو اکہتر میں اس علاقے میں حقوق کے مطالبے پر وسیع احتجاج ہوا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ڈی سی گلگت نے ایک غیر مقامی افسر کے بچے کو پرموٹ نہ کرنے کی پاداش میں اسکول پرنسپل کو برطرف کر دیا۔ لوگ پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے۔ تنظیمِ ملت نے احتجاج کی قیادت کی۔ توڑ پھوڑ بھی ہوئی۔ چنانچہ تنظیم پر پابندی لگا کر اس کی قیادت کو جیل میں ڈال دیا گیا۔
لیکن جب بھٹو حکومت آئی تو علاقے کی سیاسی قسمت بھی بہتر ہونا شروع ہوئی۔ انیس سو چوہتر میں ناردرن ایریا کونسل قائم ہوئی، رجواڑوں اور ریاستوں کا خاتمہ ہوا، جیل میں بند سیاسی قیادت رہا ہوئی اور سب سے اہم اقدام یہ ہوا کہ ایف سی آر کا خاتمہ ہو گیا۔ انیس سو اٹہتر میں شاہراہ قراقرم کھلنے کے بعد اس علاقے کا باقی پاکستان سے مستقل رابطہ ہو گیا۔ سڑک کے راستے اشیا، سہولتیں اور سیاسی آگہی کے نت نئے انداز بھی آنے لگے۔
انیس سو چورانوے میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت نے ناردرن ایریا کونسل کا نام بدل کے لیجسلیٹو کونسل رکھ دیا اور پہلی بار یہاں جماعتی بنیاد پر کونسل کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں پاکستان میں متحرک بڑی جماعتوں اور مقامی مذہبی جماعتوں نے تو حصہ لیا مگر آزاد کشمیر کی کسی جماعت کی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ کہنے کو گلگت بلتستان بین الاقوامی ریکارڈ میں کشمیر کا حصہ ہے۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں محض ایک قدرِ مشترک ہے۔ یعنی جس جماعت کی حکومت اسلام آباد میں ہوتی ہے اسی کی مظفر آباد اور گلگت میں بھی ہوتی ہے۔
دو ہزار نو میں پیپلز پارٹی کی زرداری حکومت نے گلگت بلتستان سیلف گورننس ایکٹ متعارف کروایا جس کے تحت لیجسلیٹو کونسل کا نام بدل کے لیجسلیٹو اسمبلی ہو گیا۔ پچھلے سات دہائیوں میں پولٹیکل ایجنٹ، چیف سیکریٹری، چیف ایگزیکٹو ہو کر گورنر کا عہدہ بن گیا۔ اور ایک عدد وزیرِ اعلیٰ بھی مل گیا۔ ایڈوائزری کونسل، لیجلسیٹو کونسل کے راستے لیجسلیٹو اسمبلی میں تبدیل ہو گئی مگر اس کے اختیارات کسی قصباتی بلدیہ کے برابر رہے۔ اصل اختیار اب بھی مرکز کے نامزد گورنر اور وزارتِ کشمیر کے ہاتھ میں ہے۔
دو ہزار پندرہ میں اسلام آباد کی طرح گلگت بلتستان میں بھی ن لیگ کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس بار بھی علاقائی اختیارات میں اضافے کے لیے ایک کمیٹی سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے سفارش کی کہ مسئلہ کشمیر کے حتمی فیصلے تک اس خطے کو عبوری صوبے کا درجہ دے دیا جائے۔ اس عبوری صوبے کو نیشنل فنانس کمیشن، اقتصادی رابطہ کمیٹی اور ارسا سمیت وفاق و صوبے کے رابطہ کار اداروں کا ممبر بنایا جائے۔ مگر نواز شریف حکومت نے اپنی ہی کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہیں کیا۔ دو ہزار اٹھارہ میں البتہ ایک ایگزیکٹو آرڈر ضرور جاری ہو گیا۔
گزشتہ انتخابی مہمات کی طرح موجودہ انتخابی مہم میں بھی سب سے اہم موضوع انتظامی خودمختاری اور بنیادی حقوق کی آزادی ہے۔ پولنگ سے پہلے ہر جماعت الہ دین کا چراغ دکھاتی ہے جسے رگڑنے سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر جو بھی جماعت برسرِاقتدار آتی ہے وہ سب سے پہلے یہی کہتی ہے کہ ہمارے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ راتوں رات سب ٹھیک ہو جائے۔
مثلاً عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بابا جان اور ان کے چودہ ساتھی جو پچھلے دس برس سے عطا آباد جھیل متاثرین کے حقوق کی تحریک میں تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں پابندِ سلاسل ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے لگ بھگ تمام جماعتوں نے ہنزہ میں علی آباد کے مقام پر گزشتہ ماہ چھ روزہ دھرنا دیا۔ چنانچہ لوکل انتظامیہ نے وعدہ کیا ہے کہ اس کیس میں کئی برس سے زیرِ التوا اپیل پر اگلے ڈیڑھ ماہ میں فیصلہ کرانے کی کوشش ہو گی تاکہ ان سیاسی قیدیوں کی رہائی عمل میں آ سکے جنھیں انسدادِ دھشت گردی کی ایک عدالت نے توڑ پھوڑ کے الزام میں چالیس سے ستر برس قید کی سزا دی۔ اعلیٰ عدالت نے یہ سزائیں ختم کر دیں مگر سرکار کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیل گزشتہ چار برس سے سرخ فیتے میں بندھی پڑی ہے۔
اسلام آباد کی تحریکِ انصاف حکومت نے بھی اس علاقے کو عبوری صوبائی درجہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے دو ہزار پندرہ کے انتخابات میں کسی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مگر اس دوران علاقے میں متحرک کئی مقامی و قومی جماعتوں کے کارکنان اور رہنما پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔ البتہ امکان ہے کہ پہلی بار یہ روایت بھی ٹوٹ جائے کہ جو بیٹھے گا تختِ اسلام آباد پر وہی بیٹھے گا گلگت میں۔