کیا ٹریفک کے حادثات محض ڈرائیوریا گاڑی کے سامنے آنے والے کی غفلت کا نتیجہ ہوتے ہیں یا پھر یہ موت انسانوں کی قسمت میں اسی طرح لکھی ہوئی ہوتی ہے یا پھر اس خونی کھیل میں دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں کہ جنھیں ہم غفلت و مجرمانہ بے احتیاطی کا درجہ دینے پر تیار نہیں۔
انسانی فطرت ہے کہ اگر ایک ساتھ پچاس لوگوں کے مرنے کی خبر آ جائے تو سننے اور دیکھنے والا چند لمحوں کے لیے ہل جاتا ہے۔ لیکن ایک لاکھ لوگ ایک ایک کر کے طویل دورانئے میں مر جائیں تو اسے کوئی بھی المیہ سمجھنے کو تیار نہیں ہوتا۔
مثلاً اگر میں کہوں کہ ایک گھنٹہ پہلے مخالف سمت سے آنے والی دو بسیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور سیکڑوں فٹ گہری کھائی میں جا گریں اور ڈیڑھ سو مسافر ہلاک ہو گئے تو شائد آپ منٹ دو منٹ کے لیے سوچیں کہ یہ کیا ظلم ہے۔ سرکار ڈرائیوروں کو قانون کی پابندی پر کیوں آمادہ نہیں کرتی، ان کے لائسنسس اور پچھلا ڈرائیونگ ریکارڈ کیوں چیک نہیں کرتی اور بسوں کے معیار کی باقاعدہ جانچ کیوں نہیں کرتی۔
لیکن اگر میں یہ بتاؤں کہ اس دنیا میں ہر چار منٹ بعد سڑک کے حادثات میں دس افراد مارے جاتے ہیں۔ روزانہ سینتیس سو انسان ہلاک ہوتے ہیں اور سالانہ لگ بھگ چودہ لاکھ افراد سڑک کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور انھی سڑکوں پر کم و بیش دو سے پانچ کروڑ انسان زخمی ہوتے ہیں۔ تو شائد آپ کو یہ اعداد و شمار سن کر کچھ لمحے کے لیے ہلکی پھلکی تشویش ہو مگر صدمہ ہرگز نہیں ہوگا۔ ممکن ہے آپ بور ہو کر چینل تبدیل کر دیں یا یہ سوچتے ہوئے اخبار کا صفحہ پلٹ دیں کہ تو کیا ہوا۔ اس سے زیادہ لوگ تو دل کے دورے اور سرطان سے مر جاتے ہیں۔
شائد اسی لیے آپ کو نائن الیون کے بعد سے اب تک پاکستان میں دہشت گردی کے سبب مرنے والے لگ بھگ پچاس ساٹھ ہزار انسان تو بہت بڑا عدد لگیں۔ البتہ اگر میں کہوں کہ اسی مدت کے دوران پاکستان میں سڑک کے حادثات میں تیس ہزار سالانہ کے حساب سے پانچ لاکھ دس ہزار انسان مر گئے جو پچھلے سترہ برس کے دوران دہشت گردی میں مرنے والوں کی تعداد سے دس گنا زائد ہیں، تب بھی آپ کے نزدیک دہشت گردی سڑک کے حادثات سے زیادہ سنگین مسئلہ رہے گا۔
سڑک کے حادثات عالمی سطح پر موت کا آٹھواں اور جسمانی معذوری کا تیسرا بڑا سبب ہیں۔ اسپتالوں میں جتنے زخمی لائے جاتے ہیں ان میں سے اکتیس فیصد سڑک پر ہونے والے کسی نہ کسی حادثے کے نتیجے میں گھائل ہوتے ہیں۔ سرجیکل وارڈزکے اڑتالیس فیصد بستروں پر سڑک کے زخمی لیٹے ہوئے ہیں۔ ان پر جتنے طبی اخراجات ہوتے ہیں اس کا بار اٹھانا خود ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
مثلاً امریکا میں سن دو ہزار میں ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والے لگ بھگ پچپن لاکھ افراد کے علاج پر سرکار اور مریض کی جیب سے کل ملا کر بتیس ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ جب کہ روڈ ایکسیڈنٹس کے نتیجے میں دماغی اور ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ کھانے والے مریضوں کو بہتر کرنے پر اوسط خرچہ ساڑھے تین لاکھ ڈالر فی مریض ہوا ( میں دوبارہ عرض کردوں کہ یہ اعداد و شمار بیس برس پرانے ہیں۔ آج لاگت کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہو گی۔ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں )۔
سڑک کے حادثات میں متاثر ہونے والوں کی بڑی تعداد جواں سال انسانوں کی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے چوٹی کے دس ممالک کی درجہ بندی کی جائے تو ان میں سے سات کا تعلق افریقہ سے ہے۔ ان ممالک کی کل سالانہ قومی پیداوار کا تین فیصد سڑک حادثات میں ہونے والی بکثرت اموات کے نتائج کے سبب کم ہوجاتا ہے۔ یہ معاملہ روز بروز اتنا سنگین ہوتا جا رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے سن دو ہزار تیس تک طے کردہ ترقی کے ملینیم اہداف میں سڑک پر ہونے والی اموات میں کم از کم پچاس فیصد کمی کا ہدف مقرر کیا ہے۔
تو کیا حادثات و اموات کی شرح کم کرنا ممکن ہے؟ بالکل ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ عالمی سطح پر سڑک کے جتنے حادثات ہوتے ہیں ان میں سے لگ بھگ نصف دنیا کی دس فیصد شاہراہوں پر ہوتے ہیں۔ مثلاً کینیا میں مرکزی ہائی وے کا لگ بھگ سوا سو کلومیٹر کا ایک ٹکڑا دو ہزار نو تک شاہراہِ اجل کہلاتا تھا۔ کیونکہ ملکی ہائی ویز پر ہونے والی دس میں سے آٹھ اموات اسی ٹکڑے پر ہوتی تھیں۔
ٹرانسپورٹ کے ماہرین نے اسباب پر غور کیا تو کئی ایسے پہلو سامنے آئے جن کا تعلق انسانی غفلت سے زیادہ سڑک کی ناقص ڈیزائننگ اور انجینئرنگ سے تھا۔ مثلاً یہ سڑک دو رویہ نہیں تھی اور نہ ہی اس کے کناروں پر حفاظتی فولادی باڑھ تھی۔ سڑک کا یہ ٹکڑا بالکل سیدھا تھا۔ لہذا ڈرائیور لاشعوری طور پر اسپیڈ بڑھاتے چلے جاتے تھے۔ گاڑیوں کے معیار پر کسی کا دھیان نہیں تھا۔ چنانچہ اکثر گاڑیوں کے بریک فیل ہو جاتے تھے۔ اس پورے ٹکڑے پر روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا لہذا رات کو مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں کی چندھیا دینے والی ہیڈ لائٹس اکثر موت کی شعاعیں بن جاتی تھیں۔
چنانچہ اس ہائی وے پر کام شروع ہوا۔ سڑک چوڑی کی گئی، بیچ میں فولادی ڈوائڈر اور سائیڈوں پر فولادی باڑھ لگائی گئی۔ کھٹارہ گاڑیوں کو ہائی وے پر لانے کی قانوناً حوصلہ شکنی کی گئی۔ ہیڈ لائٹس کے استعمال کی آگہی فراہم کی گئی۔ فل لائٹس کے بے جا استعمال پر جرمانے کی رقم دوگنی کر دی گئی۔
اسپیڈ کم رکھوانے کے لیے کیمرے لگائے گئے۔ ہر سو کلو میٹر پر حادثاتی طبی امداد کا مرکز قائم کیا گیا۔ ہر بیس پچیس کلو میٹر کے بعد سڑک کے سیدھے ٹکڑے کو اس طرح سے موڑا گیا کہ ہر گاڑی رفتار دھیمی کرنے پر مجبور ہو جائے۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو ہزار نو کے بعد سے اس شاہراہِ اجل پر حادثات کی شرح میں پچھتر فیصد تک کمی ہو گئی۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ شہروں میں وہیکل فری زونز قائم کیے جائیں اور پیدل چلنے یا سائیکلنگ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم جتنا اچھا ہوگا۔ حادثات کی شرح اتنی ہی کم ہو گی۔ کیونکہ ایک کار کے مقابلے میں بس دس گنا اور ٹرین بیس گنا محفوظ ہوتی ہے۔
لاطینی امریکا کے ملک کولمبیا کے دارلحکومت بوگوٹا میں سڑک کے حادثات کا معاملہ جب وبائی شکل اختیار کر گیا تو سرکار نے ریپڈ بس ٹرانسپورٹ سسٹم ( جیسے اپنی میٹرو بس ہے ) اختیار کیا۔ سائیکلنگ کے لیے تین سو کلو میٹر کے محفوظ روٹس تعمیر کیے اور سائیکل پر سبسڈی دینا شروع کی۔ نیز پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ انھیں اونچا کیا تاکہ حادثے کی صورت میں گاڑیاں فٹ پاتھ پر نہ چڑھ جائیں۔ ان اقدامات کے سبب بوگوٹا میں حادثات کی شرح ساٹھ فیصد تک کم ہو گئی۔
اگر سرکار چاہے تو سڑک کے حادثات میں حیرت انگیز کمی کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔ مندرجہ بالا طریقے اپنانے کے ساتھ ساتھ ٹریفک انجنیرنگ بیورو کے ذمے یہ لازمی کام لگایا جائے کہ جن شاہراہوں کے مخصوص ٹکڑوں پر سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔ ان جگہوں پر بنیادی وجوہات تلاش کریں اور پھر ان وجوہات کو دور کرنے پر کام کریں۔ اور یہ کام ان ٹھیکیداروں اور افسروں سے کرائیں جو کم ازکم اتنے ایماندار ہوں کہ چالیس کے بجائے بیس پچیس فیصد کمیشن پر راضی ہوجائیں تاکہ سڑک ناقص تعمیر کی کم سیکم گناہ گار ہو سکے۔ (اس کالم کا بنیادی مواد الجزیرہ ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایتا مدیتے کے مضمون سے لیا گیا ہے )۔