گزشتہ روز (پندرہ ستمبر) عالمی یومِ جمہوریت منایا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے بقول عالمی تنازعات میں شدت کے سبب بڑھتی کشیدگی، اقتصادی اتھل پتھل اور ماحولیاتی اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں جمہوریت بھی بحران کی زد میں ہے اور شہری آوازوں کو دبانے کے لیے دیواریں اونچی ہو رہی ہیں۔
گمراہ کن اور غلط اطلاعات کی وبا تیزی سے ذہنوں کو آلودہ کرکے سماجی فاصلے بڑھا رہی ہے اور اداروں پر عدم اعتماد برابر بڑھ رہا ہے۔ اس صورتِ حال سے سب سے زیادہ متاثر وہ جوان نسل ہو رہی ہے کہ جس کے کاندھوں پر اس دنیا اور جمہوریت کا مستقبل ہے۔
چنانچہ اس برس کے عالمی یومِ جمہوریت کا موضوع ہے " اگلی نسل کی با اختیاری۔ " یعنی عالمی، علاقائی و ملکی سطح پر کیے جانے والے دوررس فیصلوں کے عمل میں نئی پود کی رائے اور امنگوں کا خصوصی دھیان رکھا جائے۔
جمہوریت کی بیسیوں قسمیں ہو سکتی ہیں، لیکن آزادیِ اظہار ناقص یا برائے نام یا مشکوک ہو تو ایسا نظام کچھ بھی ہو سکتا ہے جمہوریت نہیں ہو سکتا۔
انسانی حقوق کے عالمی میثاق کی شق انیس میں کسی بھی چونکہ چنانچہ ہچر مچر کے بغیر واضح لکھا ہے کہ " ہر انسان کو بنا کسی رکاوٹ، دباؤ اور مداخلت کے اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کی بنیادی آزادی حاصل ہے۔ کسی بھی شہری تک اطلاعات کی آزادانہ ترسیل میں کسی بھی طرح کی اڑچن پیدا کرکے اس کی رائے بدلنے یا اثرانداز ہونے کی کوئی بھی کوشش اس بنیادی حق کی پامالی ہے۔ "
اس حق کو شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کے توسط سے ذرائع ابلاغ کی بنیادی آزادی سے بھی مشروط کر دیا گیا ہے۔
اس آئینے میں وہ تمام ریاستیں اور حکومتیں جنہوں نے انسانی حقوق کے عالمی میثاق کی توثیق کی ہے۔ اپنی اپنی جغرافیائی حدود میں جمہوریت کا پست و بلند معیار باآسانی دیکھ سکتی ہیں۔
جمہوریت کی موجودہ شکل ہزاروں برس کی انسانی جدوجہد کا نتیجہ ہے اور اس تصور کے تحفظ یا اس کی خامیاں دور کرنے اور اسے صحیح معنوں میں بنی نوع انسان کا آدرش بنانے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رہنی چاہیں۔ یونانی شہری ریاستوں میں جمہوریت کی ابتدائی شکل سے لے کے اکیسویں صدی تک کی ڈیجیٹل دنیا میں اس نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے لاتعداد قربانیاں دی گئی ہیں۔
جن جن ممالک میں بھرپور عوامی نمایندگی کے اصول پر جمہوری اقدار جڑ پکڑ چکی ہیں ان کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ بنیادی آزادیوں کے روزمرہ ثمرات کو ایک معمول کا طرزِ نظام سمجھ کے لطف اندوز ہو سکیں، مگر اسی دنیا میں نصف سے زائد آبادی ایسی بھی ہے جس کے لیے بنیادی حقوق کا حصول ایک پر آسائش خواب ہے اور انہیں اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے آج بھی بظاہر ناقابلِ عبور چیلنجوں کا سامنا ہے۔
اگر ایک عام شہری ریاستی فیصلہ سازی کے عمل سے باہر ہے اور اس کا یہ بنیادی حق کسی بھی حیلے، بہانے یا جبر کے بل پر ایک طاقت ور اقلیت نے نظریے، قوم پرستی یا قسمت کے پردے میں غصب کر رکھا ہے۔ یا کسی بھی شہری کو نسل، رنگ، علاقے یا تعصب کی کسی بھی شکل کے ذریعے ووٹ کے حق سے ایسے محروم رکھا جا رہا ہے کہ جس کے نتیجے میں انسانی مساوات کے ازلی قانون پر آنچ آتی ہو تو پھر اس نظام کا نام جمہوریت کے بجائے کچھ بھی رکھا جا سکتا ہے۔
اس دنیا میں سوائے چھ خلیجی ریاستوں، برونائی، افغانستان اور ویٹیکن ہر ریاست کے سرکاری نام میں آپ کو ڈیموکریٹ یا ری پبلک یا پیپلز ریپبلک یا اسلامک ریپبلک کا لاحقہ مل جائے گا۔ محض لاحقہ لگانے سے کیا جمہوریت کے بنیادی تقاضے پورے ہو سکتے ہیں؟ محض ایک خاص مدت کے بعد انتخابات کروانے کے عمل کو ہی جمہوریت کہا جا سکتا ہے؟
کیا یک جماعتی نظام بھی جمہوریت کی مروجہ تعریف پر پورا اترتا ہے؟ کیا کثیر جماعتی نظام کے باوجود کسی بھی ریاست کے وسائل اور سیاست پر اکثریتی گروہ کی اجارہ داری اور اس اجارہ داری کے منفی اثرات سے اسی ریاست کی مذہبی، لسانی و نسلی اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لیے کوئی موثر آئینی و قانونی ڈھال تشکیل دئیے بغیر اس ریاست کو جمہوری کہا جا سکتا ہے؟
اور اگر کوئی ریاست انتخابی عمل، کثیر جماعتی نظام اور اکثریتی گروہ کی بالادستی کی زد سے اقلیتی گروہوں کو محفوظ رکھنے کا نظام بنا بھی لیتی ہے مگر سب کو پابند کر دیتی ہے کہ طے شدہ ریاستی نظریات سے ہٹ کے اپنی رائے کا اظہار غداری کے مترادف ہوگا تو کیا ایسے نظام کو بھی جمہوریت کی دستار پہنائی جا سکتی ہے؟
اگر ریاست محض لیپا پوتی کی خاطر جمہوری سمبلز اپنا لے اور جمہوری اداروں کی نقالی بھی کر لے مگر اس کے خمیر میں آمریت و فسطائیت گندھی ہوئی ہو، کاغذ پر بہترین آئین چھپا ہوا اور قوانین کی کتاب میں بظاہر تمام شہریوں کی قانونی برابری کا عہد بھی کیا گیا ہو۔ مگر ریاست کا عمل اس کے قول کی چغلی کھاتا ہو اور آئین کو بھی موشگافیوں اور خود ساختہ منطق کی دھول اڑا کے اپنے پوشیدہ و اعلانیہ مقاصد کے حصول کے لیے موم کی ناک اور غریب کی جورو میں تبدیل کر دیا جائے تو کیا ایسے ماحول کو بھی جمہوری کہا جا سکتا ہے؟
جمہوریت کوئی وقت گذاری کا مشغلہ، خوش وقتی یا کتابی شے نہیں بلکہ انتخابی عمل برقرار رکھنے اور آئینی روح کے مطابق چلنے کا مطلب ریاستی سطح پر جمہوری تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے سماج کی تشکیل میں مدد دینا ہے جہاں قوتِ برداشت، تحمل، بردباری، ہمدردی کے اوصاف نمایاں ہوتے چلے جائیں اور ہر شہری اس اصول کو دل سے تسلیم کرنے کے قابل ہو جائے کہ جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے وہاں پر آپ کے مکے کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں ہر شہری اور ادارہ اتفاق کے ساتھ ساتھ اختلافِ رائے کا بھی مکمل احترام کر پائے۔ تب تو یہ عمل جمہوریت کہلا سکتا ہے۔ ورنہ ادھ کچی پکی، لولی لنگڑی جمہوریت تو کہیں بھی بازار سے بارعایت ہر وقت دستیاب ہے۔ بس آواز دے کے طلب فرما لیں۔