(اکتوبر دو ہزار چودہ)ارسلان نامی ایک لڑکے نے تھانہ گنڈا سنگھ والا کے دو جونیئر پولیس اہل کاروں کو ایک موبائل فون وڈیو کلپ فراہم کیا جس میں حسین خان والا گاؤں کے دو نوجوان ارسلان سے بدفعلی کر رہے ہیں۔ پولیس والوں نے اس وڈیو کی بنیاد پر دو نوجوانوں حسیم عامر اور وسیم سندھی کو پکڑ کے تھانے میں بٹھا لیا مگر پرچہ نہیں کاٹا۔
دو دن بعد حسیم کا باپ اور بھائی ایک بااثر مقامی زمیندار ماسٹر ظفر کے ہمراہ تھانے آئے۔ ان کے ساتھ متاثرہ لڑکے ارسلان کی والدہ بشیراں بھی تھی جو ملزم حسیم کے ہاں گھریلو کام کاج کرتی تھی۔ دونوں پولیس اہل کاروں کو بشیراں نے اپنی جانب سے ایک خط دیا۔ اس میں درج تھا کہ کوئی غلط فہمی ہوئی تھی جو اب رفع ہونے کے بعد صلح ہو گئی ہے۔ لہٰذا دونوں لڑکوں کو چھوڑ دیا جائے۔ پولیس والوں نے پندرہ ہزار روپے لے کر ان لڑکوں کو جانے دیا۔
(مارچ دو ہزار پندرہ) پہلی وڈیو پولیس اہل کاروں کے نوٹس میں آنے کے پانچ ماہ بعد حسیم عامر کے ایک عم زاد نے حسین خان والا کے ایک اور بااثر شخص مبین غزنوی کو بہت سی وڈیوز تھما دیں۔ مبین غزنوی کی ماسٹر ظفر سے چشمک چل رہی تھی۔ یہ وڈیوز ڈھائی ماہ تک مبین غزنوی کے پاس پڑی رہیں۔ مئی دو ہزار پندرہ میں اس نے یہ وڈیوز ڈی پی او قصور کو دکھائیں۔ اس کی بھنک حسیم عامر کو پڑی تو اس نے اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ گاؤں کے چوک میں مبین غزنوی پر تشدد کرتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔
مبین غزنوی نے اس واقعہ کی کوئی ایف آئی آر نہیں کٹوائی البتہ وڈیوز چینل نائنٹی ٹو کے ایک مقامی رپورٹر کے حوالے کر دیں۔ یوں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا وڈیو سیکس اسکینڈل سامنے آیا۔ اس کے ایک ماہ بعد جب علاقے میں احتجاجی جلوس نکلنے لگے اور پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا گیا تو باقی چینلز نے بھی کوریج شروع کر دی۔ جب ایک مقامی جلوس کے ساتھ جھڑپ میں تقریباً بیس پولیس والے زخمی ہوئے تو یہ اسکینڈل میڈیا پر سرخی بن گیا۔
کسی چینل نے دعویٰ کیا کہ لگ بھگ دو درجن ملزموں کے ایک منظم گروہ نے گزشتہ آٹھ برس کے دوران علاقے کے چار سو سے زائد بچوں کوجنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سیکڑوں وڈیوز بنائیں۔ کسی نے کہا کہ دو سو اسی سے زائد بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔
بہرحال پنجاب کے اس وقت کے وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ نے ابتدا میں تو اس اسکینڈل کو ایک قطعہِ اراضی کی ملکیت کے دو طرفہ جھگڑے میں ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق کو نیچا دکھانے کی کوشش قرار دیا۔ جب امن و امان کے معاملات ہاتھ سے نکلنے لگے تو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے مسلم لیگ ن کے اس سیاسی گڑھ میں پارٹی کی ساکھ بچانے کے لیے ایک پانچ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی۔
جے آئی ٹی نے بچوں کے ریپ، بلیک میلنگ کے ذریعے رقم اینٹھنے اور وڈیوز بنانے کے الزامات کی تین ماہ تک چھان بین کی۔ ساڑھے چار سو بیانات قلمبند ہوئے۔ کل اکتیس ایف آئی آرز درج ہوئیں۔ ان میں سے اکیس ایک ہی گروہ کے خلاف تھیں۔ وڈیوز اور دیگر ثبوتوں کی بنیاد پر مجموعی طور پر بیس ملزم ماخوذ ہوئے۔ نو رکنی گینگ کا سرغنہ وہی پچیس سالہ نوجوان حسیم عامر تھا اور اس گینگ کے باقی ارکان کی عمریں بھی پندرہ سے پچیس برس کے درمیان تھیں۔ حسیم کا ایک بھائی علیم آصف بھی شریکِ جرم تھا۔
جب کہ حسیم کے دیگر دو بھائی، والد اور تین چچا بھی اس گروہ کی سرگرمیوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ گویا بلاواسطہ شریکِ جرم تھے۔ حسین خان والا کے بہت سے دیگر رہائشی اس جرم سے واقف ہوتے ہوئے بھی " نہ پوچھو نہ بتاؤ " کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ یہ گروہ متاثرہ بچوں کی وڈیوز بنا کے ان کے گھر والوں سے لاکھوں روپے اینٹھنے میں بھی ملوث پایا گیا۔
صرف سترہ متاثرین کی مکمل شناخت ہو سکی یا ان کے ورثا یا جے آئی ٹی کے سامنے بیان قلمبند کرانے پر راضی ہوئے۔ دیگر متاثرین کے ورثا اپنی غربت اور سیاسی و سماجی مجبوری، پولیس پر عدم اعتماد اور ملزموں کے مقامی رسوخ کی بنا پر سامنے آنے سے گریزاں تھے۔ اٹھارویں متاثرہ ایک لڑکی تھی۔ اس کا قصہ الگ سے بیان ہوگا۔
جے آئی ٹی کے سامنے سینتالیس وڈیوز اور بہتر تصاویر آ سکیں۔ اکثر وڈیوز تین سے چار سال پرانی تھیں۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں تین برس تک مقدمہ چلا۔ تین کے سوا باقی ملزموں کو ناکافی یا ناقص ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا گیا۔ حسیم عامر، علیم آصف اور وسیم سندھی کو عمرقید اور پانچ پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
جے آئی ٹی نے دو ارکانِ قومی اسمبلی اور ایک رکنِ صوبائی اسمبلی کا بیان قلمبند کر کے نتیجہ اخذ کیا کہ ملزموں کے حق میں سیاسی اثر و رسوخ استعمال نہیں ہوا۔ البتہ انسانی حقوق کمیشن کی ایک حقائق جو ٹیم کی رائے اس کے برعکس تھی۔
میڈیا کوریج کے سبب حسین خان والا کیس کے متاثرین کو وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت نے معاوضے، روزگار اور قانونی مدد کی یقین دہانی کروائی۔ مگر وعدہ وعدہ ہی رہا۔ البتہ مارچ دو ہزار سولہ میں سینیٹ نے ریپ اور جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ بچوں پر مجرمانہ جنسی حملوں، چائلڈ پورنو گرافی اور بچوں کی ٹریفکنگ کو بھی سنگین جرائم کی فہرست میں شامل کر لیا۔
جنوری دو ہزار اٹھارہ میں قصور شہر میں زینب ریپ قتل کیس نے ایک بار پھر ملک کو ہلا ڈالا۔ زینب کے قاتل عمران علی نے نو دیگر کم عمر بچیوں کے ریپ اور قتل کا بھی اعتراف کیا۔ پارلیمنٹ کی جانب سے زینب الرٹ بل کی منظوری کے بعد قصور کے علاقے پتوکی میں تین کمسن بچیوں کی لاشیں پڑی ملیں۔
عملی صورتِ حال یہ ہے کہ حسین خان والا کیس میں جو ملزم بری ہو گئے۔ ان کے تعلقات اور اثر کے خوف سے وڈیو کیس میں سامنے آنے والے سترہ متاثرہ بچے اور بیشتر کے اہلِ خانہ بھی نقل مکانی کر گئے۔ ان بچوں میں سے صرف ایک ایف اے اور ایک میٹرک کر پایا۔ باقی بچے اب اپنی شناخت چھپا کے یا بدل بدل کے مختلف مقامات پر معمولی نوکریاں یا دھاڑیاں کر رہے ہیں۔ جب ان میں سے کسی کی شناخت ظاہر ہو جاتی ہے تو کسی نئی جگہ کام ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
جنھیں سزا ملی یا بری ہو گئے۔ وہ اور ان کے ورثا اپنی اپنی جگہوں پر قائم ہیں۔ جنھوں نے گواہی دی ان میں سے کئی تشدد کا بھی نشانہ بنے۔ مرکزی ملزم حسیم عامر کے دو بھائیوں نے چار متاثرین کے خلاف قصور کی سیشن عدالت میں ہتک عزت کا چھہتر کروڑ روپے کا دعوی دائر کر دیا۔
حسین خان والا کیس میں سترہ متاثرین نو عمر لڑکے تھے۔ اٹھارویں متاثرہ جس کا اس کیس سے براہ راست تعلق نہیں مگر جے آئی ٹی کی تفتیش کے دوران اس لڑکی کا واقعہ علم میں آیا۔ اس کی علیحدہ سے ایف آئی آر درج ہوئی۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق یہ لڑکی حسین خان والا میں کسی ارشد بھٹی کے گھر کام کرتی تھی۔ جب اس لڑکی نے کام چھوڑا تو اس کی اڑتیس عریاں تصاویر ملزم نے مقامی آئس فیکٹری کے مالک اشفاق اور اس کے ساتھی ابراہیم عرف ڈبو کے حوالے کر دیں۔ دونوں نے اس لڑکی کے مفلوک الحال والدین سے مجموعی طور پر ان تصاویر کے عوض لگ بھگ چار لاکھ روپے اینٹھے اور بانٹ لیے۔ تینوں ملزموں کو حراست میں لینے کے بعد ایف آئی آر بھی کٹی۔
لڑکی کا خاندان گاؤں چھوڑ کر شہر میں منتقل ہو گیا اور ان کی شناخت بھیڑ میں گم ہو گئی۔
بہرحال ان واقعات کے بعد قصور یا آس پاس کے سماج میں کتنی بیداری بڑھی اور سماجی و اخلاقی رویے کس قدر بہتر ہوئے، قانون کا نفاذ کتنا موثر ہوا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ حسین خان والا وڈیو اسکینڈل سامنے آنے کے ایک برس بعد (دو ہزار سولہ) قصور ضلع میں بچوں پر جنسی تشدد کے ایک سو بیالیس، دو ہزار سترہ میں بانوے، دو ہزار اٹھارہ میں ایک سو دو، دو ہزار انیس میں ایک سو بتیس، دو ہزار بیس میں ایک سو بانوے اور دو ہزار اکیس میں دو سو اٹھانوے واقعات سامنے آئے۔