ایک خبر جو گزشتہ اڑتالیس گھنٹے کی سیاسی دھماچوکڑی کے ڈھیر میں کہیں دب دبا گئی۔ اس کا آخری بار دیدار کر لیجیے۔
خبر یہ ہے کہ جمعرات (بارہ جنوری) کو کراچی کے ضلع ملیر کی ایک سیشن عدالت نے پیپلز پارٹی کے رکنِ صوبائی اسمبلی جام اویس اور ان کے چار ملازموں کو ناظم جھوکیو کے قتل، ٹارچر، اغوا اور مقتول کے کپڑے اور موبائل فون چھپا کے کارِ انصاف میں مداخلت کے مقدمات سے بری کر دیا۔
اس بریت کی بنیاد وہ تصفیہ نامہ ہے جو ناظم جھوکیو کے ورثا اور ملزموں کے مابین " بہ رضا و بہ رغبت " طے پایا۔ فیصلے کے بعد ملزموں کو ملیر جیل سے رہا کر دیا گیا۔
البتہ اسی مقدمے میں ماخوذ جام اویس کے دو ملازموں دودا خان اور سومار سالار کو بدستور مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ انھیں ناظم جھوکیو کو قتل سے قبل اغوا کرنے کی دفعہ تین سو پینسٹھ کا سامنا ہے جو ایک ناقابلِ ضمانت دفعہ ہے۔
فیصلہ سنایا گیا تو خود کو گواہ کہلوانے والے ایک وکیل مظہر جونیجو بھی غائب تھے۔ حالانکہ گزشتہ ستمبر میں انھوں نے ہی ناظم کی والدہ مسمات جمیت کے وکیل کے طور پر عدالت میں درخواست جمع کرائی تھی کہ ان کی موکلہ پر سمجھوتے اور معافی کے لیے ہر طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے حالانکہ ان کی موکلہ مقدمے میں تصفیہ نہیں کرنا چاہتیں۔ پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وکیل بھی فیصلہ سننے نہیں آیا اور مدعی والدہ بھی نہیں پیش ہوئیں۔
دس دسمبر کو عدالت نے لگ بھگ ایک برس بعد جام اویس اور دس دیگر افراد پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی کہ وہ تلور کا غیر قانونی شکار کرنے والے غیرملکی مہمانوں کی وڈیو بنانے کی پاداش میں جام اویس کے فارم ہاؤس پر طلب کیے جانے والے ناظم جھوکیو کے قتل میں ملوث ہیں۔
پھر جیسا کہ بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں ہوتا ہے۔ کیس کی باقاعدہ سماعت سے پہلے ہی ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں، والدہ جمیت جھوکیو اور بھائی افضل جوکھیو نے بیانِ حلفی کے ساتھ درخواست جمع کروائی کہ انھوں نے جام اویس سمیت اس مقدمے میں ماخوذ ملزموں کو خوں بہا کی رقم کا مطالبہ کیے بغیر اللہ کے نام پر معاف کر دیا ہے۔
البتہ ناظم جھوکیو کے چار بچوں کی تعلیم اور پرورش کے لیے تیس لاکھ اٹھاون ہزار نو سو پچپن روپے دیے جائیں۔ جام اویس کی جانب سے یہ رقم بلا حیل و حجت عدالت میں جمع کرا دی گئی۔
عدالت نے انسانی حقوق کے قومی کمیشن کی درخواست بھی مسترد کر دی کہ ان کے وکیل کو استغاثہ کا مددگار بننے کی اجازت دی جائے۔
ویسے تو پاکستان میں قتل کے مقدمات نسل در نسل بھی کھچ جاتے ہیں مگر ناظم جوکھیو کے قتل کا مقدمہ محض چودہ ماہ میں کیفرِکردار تک پہنچ گیا۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت اور برسرِ اقتدار پارٹی نے بھی گراں قدر کردار ادا کیا۔
علاقے کے رکنِ صوبائی اسمبلی ساجد جھوکیو نے ناظم جوکھیو کے قتل کے بعد علاقے میں جنم لینے والے عمومی ردِعمل کو نرمانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جام اویس کے بڑے بھائی جام عبدالکریم کو مقتول کے ورثا کی " رضامندی " سے قتل کے مقدمے سے الگ کر دیا گیا۔ وہ پہلے دن سے ہی روپوش تھے۔
جب کہ ان کے برادرِ خورد جام اویس قتل کے بعد دوبئی چلے گئے مگر کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ " انصاف " کا سامنا کرنے کے لیے واپس آگئے۔ انھیں زیریں عدالت میں شاید دو یا تین بار بغیر ہتھکڑی کے سرکاری اہل کاروں کے جلو میں عدالت میں پیش ہونے کی زحمت اٹھاناپڑی۔ باقی نپٹارا انویسٹی گیشن سے جڑے اہلکاروں اور سیاسی باسز نے ازخود ہی کر لیا۔
فردِ جرم میں تاخیر ہوتے ہوتے اتنا وقت حاصل ہوگیا کہ مقتول کے ورثا کو بھی وقتی جذباتی رویے سے نجات پا کے عقل کے ناخن لینے کی مہلت فراہم کر دی گئی۔ انھیں سمجھایا گیا کہ یقیناً ناظم اس کے بچوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ ظلم ہوا۔ لیکن مرنے والا واپس آنے سے تو رہا۔ اور پھر اللہ نے تمہارے سرداروں کو عزت دی ہے۔
ویسے بھی سردار باپ کے برابر ہوتا ہے۔ بھول چوک ہوتی رہتی ہے۔ اب تم ہی بڑے پن کا مظاہرہ کرو اور سردار اور اس کے کم داروں کو دل سے معاف کر دو۔ ہمیں تمہارے بچوں کے مستقبل کا احساس ہے۔ تم بھی ان کے بارے میں سوچو۔
یہ ٹھیک ہے کہ ناظم جوکھیو چھبیس سال کا تھا۔ اسے اور جینا تھا۔ وہ کوئی مجرم بھی نہیں تھا بلکہ ایک اونچے ماحولیاتی مقصد کے لیے جان دی۔ بس اس کی اسی طرح آئی ہوئی تھی سو وہ چلا گیا۔ اللہ کسی اور طریقے سے اس دکھ کی بھرپائی کرے گا۔ پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت اور سول سوسائٹی اور ماحولیات پرست اور عدالتی نظام اور پولیس سب کے سب ناظم جھوکیو کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
ناظم نے جس بلند مقصد کے لیے جان دی ہے اس کا تقاضا ہے کہ قاتلوں کو معاف کر کے معاملہ خدا پر چھوڑ دیا جائے۔ جان خدا کی ہی امانت ہے۔ قتل تو بس ایک بہانہ ہے۔
سو اب سب ہنسی خوشی رہیں گے۔ قاتل بھی، مقتول کے ورثا بھی، پولیس اور عدلیہ بھی اور سیاست و سرداری بھی۔ گزشتہ برس شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں کی بریت کے بعد ناظم جوکھیو کے قاتلوں کی بریت اور ورثا کی جانب سے معافی۔ ایک ہی برس میں دو شاندار فیصلے اور سب خوش۔ اور کیا چاہیے جینے کے لیے۔
جس عرب شکاری کی وڈیو بنانے میں ناظم کی جان گئی۔ اس شکاری کی تحویل میں جو باز تھا۔ اس کی قیمت مرے گرے بھی تیس لاکھ روپے سے کم کیا ہوگی۔ اس اعتبار سے ناظم کے چار بچوں کو ایک شکاری باز کی قیمت کے برابر خوں بہا ادا کر دیا گیا۔
اگر ناظم کو پتہ ہوتا کہ پاکستانی دفترِ خارجہ کے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے عدالتی بیان کے مطابق تلور کا شکار پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون ہے تو ناظم جوکھیو کاہے کو ملکی مفاد کے برخلاف کسی تلور کے شکاری کی وڈیو بنا کے اپنی جان خطرے میں ڈالتا۔
اس وقت کوئی اور فور وہیلر قافلہ ملیر کے اس علاقے میں تلور تلاش کر رہا ہوگا۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ اب کبھی کوئی ناظم جوکھیو کم ازکم اس علاقے میں" مہمانوں" کا راستہ کاٹنے کی جرات نہیں کرے گا۔
ہو سکے تو اشرافی ریاست کے تمام ستون ناظم کو معاف کر دیں۔ بے وقوف تھا۔ غلطی ہوگئی اور اس کی سزا بھی پا لی۔ اب کیا ناظم جوکھیو کی جان لو گے؟