اسلام آباد میں افغانستان سے متعلق ستاون ملکی اسلامی کانفرنس کی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں بیس رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ امریکا، چین، روس، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ نے علامتی سفارتی شرکت کی۔ البتہ اسلامی کانفرنس کے وہ پانچ وسطی ایشیائی ارکان (قزاقستان، کرغیزیہ، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان) کہ جن کی سرحدیں افغانستان سے لگتی ہیں۔
دہلی میں ہونے والی بھارت وسطی ایشیا تعاون کانفرنس میں شرکت کو زیادہ اہم سمجھا۔ پانچوں ممالک کے سربراہوں کو بھارت نے چھبیس جنوری کو یومِ جمہوریہ میں بطور مہمانِ خصوصی بھی مدعو کیا ہے۔
اسلام آباد میں ستر ریاستی و بین الاقوامی مندوبوں کے اکتیس نکاتی مبہم ہمدردانہ امدادی وعدے اور یقین دہانیاں اپنی جگہ۔ مگر اصل گیم طالبان اور امریکا کے درمیان ہے۔ امریکا کے خیال میں طالبان کو بین الاقوامی معیار کی بنیادی اصلاحات پر مجبور کرنے کے لیے لگ بھگ دس ارب ڈالر کے افغان خزانے کی امانت کا منجمد کیا جانا ضروری تھا کیونکہ مالیاتی بازو مروڑے بغیر طالبان بین الاقوامی توقعات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔ البتہ امریکی کانگریس کے تیس ارکان نے ایک خط میں بائیڈن انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ افغان عوام کی مدد کے لیے مالیاتی اثاثے غیر منجمد کیے جائیں۔
طالبانی حکومت کو توقع ہے کہ کچھ ہی دنوں میں بھوک اور سردی سے کپکپاتے ہزاروں افغان بین الاقوامی سرحدی لکیریں عبور کرنے کی کوشش کریں گے اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں فاقہ کش معصوم بچوں کی تصاویر شایع ہونا شروع ہوں گی تو مغربی ممالک کی رائے عامہ اپنی اپنی حکومتوں پر مزید دباؤ ڈالے گی کہ آپ کی لڑائی تو طالبان سے ہے مگر پونے تین کروڑ افغانیوں کا کیا قصور کہ چالیس برس سے سہہ رہے مصائب کے بعد اب ان پر فاقہ کشی کی موت بھی مسلط کر دی جائے۔
چار و ناچار بین الاقوامی امداد آنا شروع ہو جائے گی اور طالبان ان اصلاحات سے بھی بچ جائیں گے کہ جن کی متقاضی بین الاقوامی برادری ہے۔ گویا سیاسی و سفارتی بحران کا حل انسانی بحران خود بخود نکالے گا۔
ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو جائے۔ مگر یہ خطرہ بھی تو ہے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کو یمن کی طرح تنہا چھوڑ دے۔ جہاں سعودی ناراضی کے خوف سے دیگر ممالک اور بین الاقوامی این جی اوز کھل کے امدادی کام نہیں کر پا رہے اور افغانستان میں امریکی رضامندی کے بغیر کوئی مغربی حکومت یا عالمی مالیاتی ادارہ اپنے تئیں امدادی کوششوں میں کودنا نہیں چاہتا۔
اس پس منظر میں پاکستان کی سفارتی و علاقائی پوزیشن ہمیشہ کی طرح نازک دوراہے پر ہے، اگر وہ بین الاقوامی برادری کے اتفاق رائے کے دائرے کو توڑتے ہوئے طالبانی حکومت کی براہِ راست مدد کرتا ہے تو اسے عالمی سطح پر مزید اکیلے پن کا خدشہ رہے گا۔
خود پاکستان کے اپنے اقتصادی حالات بھی ایسے ہیں کہ وہ بالا بالا اپنی افغان امدادی پالیسی تشکیل دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ البتہ فاقہ کشی کے حقیقی خطرے سے دوچار افغانیوں تک جلد بنیادی مدد نہیں پہنچتی تو پھر پاکستان لاکھوں نئے لاچاروں کے لیے غیر معینہ مدت تک اپنی سرحدیں بھی بند نہیں رکھ پائے گا۔ گویا پاکستان طالبان کی فتح کی ابتدائی خوشی منانے کے بعد اب خود کو نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے شکنجے میں محسوس کر رہا ہے۔
افغان انسانی بحران بم کی ٹک ٹک روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ جس ملک کا پچھتر فیصد قومی بجٹ پانچ ماہ پہلے تک عالمی امداد کا مرہونِ منت تھا۔ اس کے تلوؤں تلے سے اچانک امدادی قالین کھسک جائے تو ایسے میں بہترین حکومت بھی ہوا میں ہاتھ پاؤں چلانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔
طالبان پندرہ اگست کو کابل میں داخل ہوئے تو ایک ڈالر کی قدر اسی افغانی تھی۔ آج ڈالر کی قیمت سوا سو افغانی کے آس پاس ہے۔ پانچ ماہ پہلے پانچ لیٹر خوردنی تیل کا ڈبہ سات سو افغانی میں دستیاب تھا۔ آج اٹھارہ سو افغانی میں بھی بمشکل مل رہا ہے۔ افغانستان میں بیشتر شہریوں کے لیے ملازمت کا مطلب سرکاری سیکٹر کی ملازمت ہے۔ ستر فیصد اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین کو کم از کم تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔
صحت کا نظام پہلے بھی بین الاقوامی این جی اوز کے رحم و کرم پر تھا۔ آج سرکاری صحت نظام نوے فیصد ڈھ چکا ہے۔ دواؤں کا کال ہے اور غذائی قلت کے سبب مریضوں بالخصوص کمزور اور بیمار بچوں کی تعداد میں دگنے اضافے کے سبب بستروں کا شدید کال ہے۔ طبی عملہ تنخواہیں معطل ہونے کی وجہ سے گھریلو ساز وسامان بیچ کر دن کاٹ رہا ہے۔ محکمہ تعلیم کے ستر فیصد ملازم گزشتہ تین سے پانچ ماہ کے دورانیے میں تنخواہوں سے محروم ہیں۔ لاکھوں بچے نہیں جانتے کہ دوبارہ اسکول کب جائیں گے۔
بے روزگاری کی شرح انتیس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ معیشت تیس فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ پیسے کی قلت سے عام آدمی کی قوتِ خرید بھی گڑبڑا گئی ہے۔ چنانچہ پرچون والے کی ہٹی بھی ٹھپ ہے۔ تعمیراتی کام معطل ہے تو وزن ڈھونے والا مزدور اور دیوار اٹھانے والا مستری بھی ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔
ایک عام افغان خاندان اوسطاً چھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پانچ کا دارو مدار عموماً ایک ہی کماؤ پوت پر ہے اور لاکھوں کماؤ پوت کام سے محروم ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق تئیس ملین افغان (نصف سے زائد آبادی) بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکیس ملین افراد کو فوری انسانی مدد درکار ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اس خبر کا خیرمقدم کیا ہے کہ عالمی بینک کا افغانستان ری اسٹرکچرنگ فنڈ ٹرسٹ دسمبر کے آخر تک دو سو اسی ملین ڈالر اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسف) اور عالمی ادارہِ خوراک کے اکاؤنٹس میں جمع کروا دے گا۔ سالِ نو کے آغاز پر اقوامِ متحدہ افغانیوں کی مدد کے لیے ساڑھے چار ارب ڈالر کی امدادی اپیل جاری کرنے والا ہے۔
صرف ایک شعبہ ایسا ہے جسے زوال نہیں۔ یعنی منشیات کی پیداوار اور تجارت۔ اگرچہ دوسری بار برسرِ اقتدار آتے ہی طالبان نے منشیاتی فصلوں کی کاشت پر پابندی عائد کر دی۔ لیکن فاقہ زدگی کے عمومی ماحول میں وہ اس پابندی پر عمل کروانے میں ناکام ہیں۔ چنانچہ اس وقت افغانستان کرسٹل میتھ (ایمفیٹامین) کی اسی فیصد عالمی پیداوار کا مرکز بن چکا ہے۔
بی بی سی کے مطابق صوبہ ہلمند اور قندھار کرسٹل میتھ کی پیداوار کے کلیدی مراکز کے طور پر ابھرے ہیں۔ ہلمند کے صرف ایک ضلع میں لگ بھگ پانچ سو خانہ ساز منشیاتی فیکٹریاں روزانہ تین ہزار کلو گرام کرسٹل میتھ تیار کر رہی ہیں۔ ہر فیکٹری پچاس سے ستر افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ ایفینڈرا نامی جڑی بوٹی خود رو اور وافر ہے۔ اسی سے ایمفاٹمین تیار ہوتی ہے۔ اس وقت سو کلو کرسٹل کی بین الاقوامی منڈی میں قیمت دو ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ کرسٹل میتھ کی عالمی طلب نے ہیروئن کی طلب کو بھی گہنا دیا ہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ افغانستان ہیروئن کی پیداوار میں سرِفہرست نہیں رہا۔ اعلیٰ قسم ہیروئن کی سرحد پار قیمت دو لاکھ روپے فی کلو گرام سے زائد ہے۔ یہی کلو گرام برطانیہ پہنچتے پہنچے ایک کروڑ چھپن لاکھ (چھیاسٹھ ہزار پاؤنڈ) کا ہو جاتا ہے۔
منشیات کی تجارت پر نگاہ رکھنے والے سرکردہ برطانوی ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ مینسفیلڈ کا اندازہ ہے کہ گزشتہ برس طالبان نے اپنے زیرِ اثر علاقوں میں منشیات پر ٹیکس کے ذریعے پینتیس ملین ڈالر وصول کیے۔ نئی طالبان حکومت بنا غیر ملکی امداد اپنا پہلا قومی بجٹ تیار کر رہی ہے۔ ظاہر ہے محض کسٹمز اور درآمد و برآمد پر ڈیوٹی بڑھانے سے تو نئے بجٹ کا پیٹ بھرنے سے رہا۔
چونکہ آمدنی کے دیگر مواقعے بے یقینی کی دلدل میں تیزی سے گم ہو رہے ہیں اس لیے پوست (افیون) کی اگلی فصل کی کاشت بھی بے فکری سے جاری ہے تاکہ عالمی منڈی کی اسی فیصد مانگ پوری کر کے کہیں نہ کہیں سے تو پیسہ آئے۔ طالبان ترجمان بلال کریمی کے بقول جب تک ہم کسانوں کو متبادل فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تب تک ہم کسی بھی طرح کی کاشت کیسے روک سکتے ہیں؟
کسان کہتے ہیں کہ جب تک بین الاقوامی برادری مدد نہیں کرتی تب تک زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
(ساحر لدھیانوی)
اس دنیا کو لاعلمی نے نہیں تجاہلِ عارفانہ نے مارا ہے۔