سات اکتوبر سے قبل اسرائیلی جیلوں میں لگ بھگ ساڑھے سات ہزار فلسطینی قید تھے۔ اب ان کی تعداد بارہ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے ان میں چھ سو قیدی وہ ہیں جو قانون کی نظر میں نابالغ ہیں (بارہ تا سترہ سال)ہر سال اوسطاً اس عمر کے سات سو سے ایک ہزار بچے گرفتار ہوتے ہیں۔
انھیں بالغوں کی طرح تحفظِ امنِ عامہ کے قانون کے تحت کم ازکم پچھتر دن تک بنا فردِ جرم عائد کیے انتظامی حراست میں رکھا جا سکتا ہے اور یہ میعاد عدالت کی رضامندی سے بڑھ بھی سکتی ہے۔
جولائی میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق شایع رپورٹ کے مطابق انیس سو سڑسٹھ سے اب تک مقبوضہ علاقوں کے لگ بھگ ایک ملین فلسطینی گرفتاری اور قید کے تجربے سے گزر چکے ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک فلسطینی باشندہ اب تک جاری کردہ سولہ سو فوجی حکم ناموں میں سے کسی ایک کی زد میں آ کے قید و بند کا مزہ چکھ چکا ہے۔
یہ فوجی قوانین مقبوضہ فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ امریکا میں ہر دو سو میں سے ایک باشندہ کسی نہ کسی عمر میں جیل کا منہ دیکھ چکا ہے مگر فلسطین میں ہر پانچ میں سے ایک شہری اس تجربے سے گزر چکا ہے۔
فوجی حکم نامہ ایک سو ایک جو اگست انیس سو سڑسٹھ سے مقبوضہ علاقوں پر نافذ ہے۔ اس کے تحت کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی، سیاسی لٹریچر کی اشاعت و تقسیم، فلسطینی جھنڈے و دیگر علامات کا برسرِ عام احتجاجی استعمال، کسی بھی ایسی تنظیم کے حق میں مظاہرہ جسے فوجی قوانین کے تحت غیر قانونی یا دہشت گرد (یعنی حماس و اسلامک جہاد، پاپولر فرنٹ آف فلسطین وغیرہ) قرار دیا جا چکا ہو قابلِ تعزیر جرم ہے۔
انیس سو ستر سے مقبوضہ علاقوں میں فوجی عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ چونکہ زیادہ تر مندرجہ بالا " جرائم " بغاوت یا دہشت گردی کی حدود میں آتے ہیں۔ اس لیے بیشتر مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔
نوے فیصد قیدیوں کا تعلق مقبوضہ غربِ اردن سے ہے۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچوں پر بھی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ نافذ فوجی قوانین کے تحت سرکاری و عسکری املاک کو نقصان پہنچانے پر بیس برس تک قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
اس قانون کے دائرے میں وہ نوعمر بھی آتے ہیں جو اسرائیلی فوجی گاڑیوں پر پتھراؤ کریں۔ انھیں براہ راست گولی بھی ماری جا سکتی ہے اور قاتل کو نقصِ امن بحال کرنے کے قانون کے تحت طاقت کے جائز یا ضروری استعمال کی آڑ میں مقدمے اور سزا سے استثنٰی حاصل ہے۔
مقبوضہ علاقے میں ایک اور اسرائیل میں انیس جیلیں ہیں جہاں فلسطینیوں کو رکھا جاتا ہے حالانکہ چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت کسی مقبوضہ علاقے کے قیدیوں کو کسی اور جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ برطانوی نوآبادیاتی دور سے فلسطین میں انتظامی حراست کا جو قانون نافذ ہے۔
اس کے تحت ثبوت کو خفیہ رکھ کے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے اور زیادہ تر فلسطینیوں پر یہی کالا قانون لاگو ہوتا ہے۔ گرفتاری پہلے ہوتی ہے ثبوت بعد میں اکھٹے کیے جاتے ہیں۔
سن دو ہزار سے اب تک بارہ ہزار سے زائد فلسطینی بچے مقدمات اور قید و بند بھگت چکے ہیں۔ فوجی حکم نامے سترہ سو چھبیس کے تحت بچوں کو ابتدا میں پندرہ روز کے ریمانڈ پر رکھا جاتا ہے۔ بعد ازاں عدالت چالیس بار دس دس دن مزید بڑھا سکتی ہے۔ گویا کسی بھی بچے کو چار سو پندرہ دن تک بلا مقدمہ چلائے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
بچوں کو جو سزا سنائی جاتی ہے وہ گرفتاری کے وقت عمر کے اعتبار سے نہیں بلکہ فیصلے کے دن ان کی عمر کا تعین کرکے دی جاتی ہے۔ اس قانون کے سبب سولہ برس سے اوپر کے بچوں کو وہی سزا دی جا سکتی ہے جو کسی بالغ ملزم پر لاگو ہوتی ہے۔
قیدی بھلے بڑا ہو یا بچہ۔ اس سے جن دستاویزات پر دستخط کروائے جاتے ہیں وہ نہ پڑھ سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے کیونکہ یہ عبرانی زبان میں ہوتی ہیں۔ ایسے بچوں کی تعداد پچپن فیصد ہے جن سے عبرانی دستاویزات (فردِ جرم) پر دستخط کروائے جاتے ہیں۔ حالانکہ عربی اسرائیل کی دوسری بڑی سرکاری زبان ہے۔
فلسطین میں انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کی جولائی رپورٹ کے مطابق انسٹھ فیصد بچوں کی گرفتاریاں رات گئے یا علی الصبح ہوتی ہیں۔
بیالیس فیصد بچے گرفتاری کے وقت طاقت کے استعمال سے زخمی ہو جاتے ہیں۔ چھیاسی فیصد بچوں یا ان کے اہلِ خانہ کو گرفتاری کے وقت وجوہات نہیں بتائی جاتیں۔ ستانوے فیصد بچوں کے گرفتاری کے وقت ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔ نواسی فیصد بچوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ہے۔ پچھتر فیصد بچوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اٹھاون فیصد بچوں کو گرفتاری کے بعد گالیوں اور ذلت کی شکل میں نفسیاتی اذیت سہنا پڑتی ہے۔ چون فیصد بچوں کو گرفتاری کے بعد بند فوجی گاڑیوں کے فرش پر بٹھا کے گھر سے نظربندی مرکز تک لایا جاتا ہے۔ اسی فیصد بچوں کی نظربندی مراکز میں کپڑے اتروا کے تلاشی ہوتی ہے۔ بیالیس فیصد بچوں کو ان کی ضرورت سے آدھا کھانا اور پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
اکتیس فیصد بچوں کو بیت الخلا کی بلارکاوٹ سہولت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ چھیاسٹھ فیصد بچوں کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ ستانوے فیصد بچوں سے پوچھ گچھ اور تفتیش ان کے خاندان کے کسی بھی رکن کی موجودگی کے بغیر ہوتی ہے۔
چھتیس فیصد گرفتار بچوں کو اقبالِ جرم کے لیے دھمکیوں اور جبری ہتھکنڈوں سے خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ پچیس فیصد بچوں کو اس طرح بٹھا کے یا کھڑا کرکے سزا دی جاتی ہے کہ ان کے جسم پر براہ راست منفی اثر ہو۔ تئیس فیصد بچوں کو قیدِ تنہائی میں رکھ کے تفتیش ہوتی ہے۔ ساٹھ فیصد بچوں کو ایک دن سے لے کے اڑتالیس دن تک قیدِ تنہائی میں رکھا جا سکتا ہے۔
اٹھاون فیصد بچوں کا ان کے اہلِ خانہ سے کسی بھی طرح کا رابطہ نہیں کروایا جاتا۔ اڑسٹھ فیصد بچوں کو صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔
ان تمام حرکتوں سے اس ریاست کے بنیادی ظرف کا اندازہ ہو سکتا ہے جسے اپنے جمہوری نظام اور فوج کے مہذب ہونے پر فخر ہے۔