تیس ستمبر کو پنجاب کے محکمہ داخلہ کے انٹیلی جینس سینٹر (پی آئی سی) نے آئی جی جیل خانہ جات، چیف سیکریٹری پنجاب، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اور وزیرِاعلیٰ دفتر کے ایڈیشنل سیکریٹری (لا اینڈ آرڈر) کو ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ ارسال کی۔ مندرجات حسبِ ذیل ہیں۔
" ڈسٹرکٹ جیل اٹک کرپشن اور بے قاعدگیوں کا گڑھ بن چکی ہے۔ تشدد، اذیت رسانی، جنسی زیادتی اور منشیات کا فروغ مسلسل ہے۔ جیل انتظامیہ کی پشت پناہی کے سبب یہاں ڈرگ مافیا کے پنجے گڑے ہوئے ہیں اور منافع میں حصہ داری ہے۔
منشیات فروش جیل کے اندر سے اپنا کاروبار بلاخوف و خطر چلا رہے ہیں۔ یوں منشیات کے عادی قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کاروبار کے سرخیل دو قیدی منشیات فروش ہیں۔ ان میں سے ایک پر چودہ اور دوسرے کے خلاف آٹھ مقدمات درج ہیں۔ منشیات کی کھیپ ملاقاتیوں کے ذریعے جیل منتقل کی جاتی ہیں۔
چرس کی جو مقدار باہر پانچ سو روپے میں میسر ہے جیل میں اس کی قیمت تین سے ساڑھے تین ہزار روپے کے درمیان ہے۔ فی گرام آئس نامی نشہ بھی اسی قیمت پر دستیاب ہے۔
خواتین ملاقاتیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
قیدی سے ملاقات کے عوض پانچ سو سے دو ہزار روپے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ دس ہزار روپے کی ادائیگی پر قیدی کو جیل سپریٹنڈنٹ کے کمرے میں بٹھا کراہلِ خانہ کی ملاقات کروا دی جاتی ہے۔
کوئی قیدی باہر سے کھانا منگوانا چاہے تو ایک ہزار روپے میں ناشتہ، پانچ ہزار روپے میں چکن کڑاہی اور دس ہزار روپے میں مٹن کڑاہی منگوانے کی بھی سہولت ہے۔
سات برس قید بھگتنے والے ایک منشیات فروش کو پچاس ہزار روپے ماہانہ کے عوض گھر سے منگوائے کپڑے پہننے کی مستقل آزادی ہے۔ اسے روم کولر کی بھی سہولت حاصل ہے۔ وہ ضرورت کی ہر شے باہر سے منگوا سکتا ہے۔
عام قیدی ہفتے میں ایک بار فون پر گھر والوں سے بات کر سکتا ہے۔ مگر متمول ملزم کو تین بار فون کرنے کی سہولت حاصل ہے۔ قتل کے جرم میں قید پولیس کا ایک سابق ملازم بھی تیس ہزار روپے ماہانہ نذرانے کے بدلے مذکورہ سہولتیں برت رہا ہے۔
جیل میں ادویات کے نام پر چند پین کلرز دستیاب ہیں۔ البتہ متمول قیدی جیل ڈاکٹر کی پرچی پر باہر سے ادویات منگوا سکتے ہیں۔ لنگر خانے کے کام پر سو قیدی متعین ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ ستر قیدی پانچ ہزار روپے ماہانہ رشوت دے کر مشقت سے جان چھڑا لیتے ہیں اور ان کی جگہ بے سہارا قیدی مشقت پر مجبور کیے جاتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اٹک جیل کے اندرونی معاملات کی تحقیقات اعلیٰ سطح پر کروائی جائیں اور تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ کم ازکم ایڈیشنل سیکریٹری کے مرتبے کا کوئی ایمان دار افسر ہو۔ ٹارچر اور تشدد کے رجحان کی سختی سے حوصلہ شکنی اور اس بابت محکمہ جیل کے حکام کی جدید تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔
یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ قیدیوں سے ملاقات کے لیے آنے والی خواتین کے عزت و احترام اور حرمت کے تحفظ کے لیے جیل کے زنانہ عملے کو ذمے داریاں منتقل کی جائیں۔ نیز قیدیوں کو بھی جنسی حملوں اور ہراسانی سے محفوظ رکھنے کا بندوبست کیا جائے۔
یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ذہنی مسائل سے دوچار یا منشیات کے عادی قیدیوں کو عام قیدی شمار کرنے کے بجائے ان کے علاج معالجے اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جائے۔ قیدیوں کو متعدی امراض اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے محکمہ صحت پنجاب کو جیلوں میں تسلی بخش صحت سہولتوں کے قیام اور انتظام میں حصہ دار بنایا جائے۔
نہ اٹک جیل نئی ہے نہ اس سے متعلق رپورٹ حیرت ناک ہے۔ پاکستان کی تقریباً ہر بڑی جیل کے بارے میں ہر کچھ عرصے بعد ایسی رپورٹیں سامنے آتی رہتی ہیں اور جانے کس الماری میں بند ہو جاتی ہیں۔
معزز جج اچانک چھاپے بھی مارتے رہتے ہیں۔ عدالتیں جیلوں کی اصلاحات کے بارے میں احکامات بھی صادر کرتی رہتی ہیں۔ کاغذ پر وقتاً فوقتاً اصلاحات ہوتی بھی دکھائی دیتی ہیں مگر عملی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
گزشتہ برس دسمبر میں ایک زیریں عدالت نے کراچی سینٹرل جیل کے چند قیدیوں کی شکایت پر آئی جی جیل خانہ جات کو فوری ایکشن لینے کا حکم دیا۔ شکایت یہ تھی کہ مفلوک الحال قیدیوں کو عدالت لانے لے جانے والی گاڑی میں دس دس کے گروہ میں باندھ کے بٹھایا جاتا ہے۔ البتہ جو قیدی رشوت دیں انھیں تین اور چار کی تعداد میں آرام سے سفر کی سہولت دی جاتی ہے۔
اس سال جنوری میں انکشاف ہوا کہ کراچی سینٹرل جیل میں قتل کے جرم میں عمرقید کاٹنے والے متمول مجرم شاہ رخ جتوئی سزا سنائے جانے کے بعد مختلف اوقات میں کل ملا کے بیس ماہ تک شہر کے ایک سرکاری اور تین نجی اسپتالوں میں بیماری کے بہانے شاہانہ زندگی گذارتا رہا، جب کہ جیل میں بھی اسے " پیسہ پھینک تماشا دیکھ " کے بدلے غیر معمولی آرام دہ سہولتیں میسر رہیں۔
شاہ رخ کے علاوہ بیس دیگر نامی گرامی قیدیوں کو جیل سے باہر جناح اسپتال اور نجی اسپتالوں میں بیماری کے نام پر داخل رہنے کی سہولت حاصل رہی۔ جب یہ خبر چینلوں پر نشر ہوئی تو فوری طور پر تمام وی آئی پی قیدیوں کو جیل منتقل کر دیا گیا۔
جیل کی پولیس محکمے کے اندر ایک آزاد اور بااختیار بادشاہت ہے، اگر کسی پر کرپشن، بے قاعدگی اور ٹارچر کا الزام ثابت بھی ہو جائے تو اسے زیادہ سے زیادہ معطل کر دیا جاتا ہے یا پھر کسی اور جیل میں تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ جب میڈیا کا بخار ٹوٹتا ہے تو سب اپنے اپنے استھانوں پر واپس چلے آتے ہیں۔
کبھی کوئی اکا دکا ایمان دار افسر کسی جیل میں مقرر ہو جائے تو اس کے اردگرد وہ تانا بانا بنا جاتا ہے کہ وہ خود ہی اپنا تبادلہ کسی اور برانچ میں کروا کے جان چھڑانے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس ماحول میں اگر کوئی انتظامی اہل کار دعوی کرے کہ اب جیلوں کا نظام پہلے سے بہتر ہے تو اس سے بحث میں الجھنے کے بجائے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ جانے میں ہی عافیت ہے۔
جیل پاکستان جیسے ممالک میں آج بھی ایک فسطائی بادشاہت کی طرح چلائی جاتی ہے اور جیلر سے زیادہ بااختیار بادشاہ صرف قصوں کہانیوں میں ہی پایا جاتا ہے۔