اگر کوئی ایک ملک غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو اپنا اندرونی ایجنڈہ بڑھانے کے لیے چابک دستی سے استعمال کر رہا ہے تو وہ ہے بھارت۔ سات اکتوبر کو جب حماس کے چھاپا ماروں نے جنوبی اسرائیل میں گھس کے کارروائی کی تو ابھی ریت سے اٹھنے والی گرد بھی نہ بیٹھی تھی کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بنجمن نیتن یاہو کو بھارت کی جانب سے مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ مگر اس کے بعد جب اسرائیل بذاتِ خود ششدر تھا اور اس کی فوجی قیادت اس ناگہانی کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ تب تک بی جے پی کا سوشل میڈیا بریگیڈ حرکت میں آ چکا تھا۔
جتنے اسرائیلی بم سات اور آٹھ اکتوبر کو غزہ شہر میں گرنے شروع ہوئے۔ تب تک ان سے کئی گنا ٹویٹس بھارتی اکاؤنٹس سے داغے جا چکے تھے جن میں نہ صرف حماس اور غزہ کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کی تجویز پیش کی جا رہی تھی بلکہ یہ بھی بتایا جا رہا تھا کہ دراصل اس " دہشت گردی " کے پیچھے وہ مذہبی نظریہ ہے جس کے ماننے والے صرف آتنک وادی ہی بن سکتے ہیں۔
ساتھ ہی افواہوں اور من گھڑت حسرتوں کی وٹس ایپ، فیس بک، ایکس (ٹویٹر) پر اس قدر بھر مار ہوگئی کہ خود اسرائیلی ششدر رہ گئے کہ ہم سے بھی زیادہ کوئی اور ہماری حالت پر خون کے آنسو رو سکتا ہے۔
اسرائیل کے سرکاری ٹویٹر اکاؤنٹس سے مشکل کی اس گھڑی میں ساتھ دینے پر بھارتی بھائیوں کا مسلسل شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔
بھارتی حزبِ اختلاف بھی اس جوش و خروش پر حیران ہے۔ ان میں سے کئی نے طنزیہ ٹویٹ بھی کیے کہ کاش سات اکتوبر کے واقعات کے چند ہی گھنٹے بعد اسرائیل سے اظہارِ یکجہتی کرنے والے مودی جی اپنی ہی ریاست منی پور میں پچھلے تین ماہ کے دوران نسلی فسادات میں مرنے والے سیکڑوں ہم وطنوں کے ورثا سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بھی ایک آدھ ٹویٹ بچا کے رکھ لیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔
غزہ پر بمباری کے کہیں بارہویں روز مودی جی کو یاد آیا کہ اسرائیل کی بغل میں کوئی فلسطینی نام کی قوم بھی آباد ہے۔
چنانچہ انھوں نے ازراہِ مہربانی فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو بھی ایک ٹویٹ بھیج دی جس میں علاقے کے بگڑتے ہوئے حالات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے یقین دلایا کہ بھارت فلسطینیوں کی انسانی مدد جاری رکھے گا۔
غزہ کے بہانے مذمتی توپوں کا رخ اپنے ہی ہم وطن مسلمانوں کی جانب بھی موڑ دیا گیا۔ بی جے پی کے ایک سمرتھک نے ٹویٹ کیا کہ بھارت میں بھی غزہ جیسے کئی علاقے ہیں جن کا دماغ ٹھکانے لگانے کی ضرورت ہے۔ اس پیغام کو ہزاروں لوگوں نے ری ٹویٹ کیا۔
بھارت کی ایک سرکردہ فیکٹ چیک سائٹ آلٹ نیوز کے ایڈیٹر پرتیک سنہا نے ٹویٹ کیا کہ غزہ کے تعلق سے ڈس انفارمیشن کے سیلاب کا رخ اب سوشل میڈیا سے مین اسٹریم میڈیا کی جانب ہے۔ دنیا کو احساس ہونا چاہیے کہ اسرائیل اور غزہ کے بارے میں بھارت کے دائیں بازو نے اس ملک کو ڈس انفارمیشن کا عالمی مرکز بنا دیا ہے۔
جس روز غزہ کے الہالی عرب اسپتال پر اسرائیلی حملے میں پانچ سو کے لگ بھگ فلسطینی جاں بحق ہوئے اس کے چند گھنٹے بعد ایک بھارتی اکاؤنٹ سے فریدہ خان کے نام سے ٹویٹ جاری ہوا کہ " میں الجزیرہ کی نامہ نگار ہوں اور خان یونس کیمپ میں موجود ہوں۔
میں نے خود دیکھا کہ اسپتال پر ایاش دو سو پچاس ساخت کا جو راکٹ گرا وہ حماس نے فائر کیا۔ اس کے اسپتال پر گرنے کی وڈیو بھی میرے پاس ہے۔ الجزیرہ میری وڈیو چلانے کے بجائے جھوٹ نشر کر رہا ہے۔ "
بعد ازاں الجزیرہ کو ایک تردیدی بیان جاری کرنا پڑا کہ غزہ میں اس کے نامہ نگاروں میں فریدہ خان نام کی کوئی صحافی نہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ فریدہ خان جو خود کو وارادت کے وقت خان یونس کیمپ میں بتا رہی تھیں۔
انھیں کسی نے نہیں بتایا کہ وہاں سے الہالی اسپتال بیس کلومیٹر پرے ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے نہ صرف راکٹ گرتے دیکھا بلکہ اس کی ساخت بھی پہچان لی۔ یہ بھی پتہ چلا لیا کہ یہ حماس نے فائر کیا ہے اور اس کے اسپتال پر گرنے کی وڈیو بھی بنالی۔ یہ ٹویٹ بھی ہزاروں بار شئیر ہوئی۔
خود نیتن یاہو کے ایک مشیر کے اکاؤنٹ سے اسپتال پر حملے کے نصف گھنٹے بعد ٹویٹ کی گئی کہ اسپتال پر حملہ ہوا ہے۔ جنگ میں ہر وقت شہریوں کے تحفظ کی ضمانت دینا ممکن نہیں ہوتا۔ مگر ہم چھان بین کریں گے۔
چند ہی منٹ بعد یہ ٹویٹ ڈلیٹ کر دی گئی۔ کچھ دیر بعد اسرائیلی فوج کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر یہ پیغام چمکا کہ اسپتال پر حملہ اسلامک جہاد نامی تنظیم نے کیا ہے۔ حتی کہ امریکی صدر بائیڈن نے بھی اس کی تائید کردی کہ اسپتال پر حملہ اسرائیل نے نہیں" دوسری ٹیم " نے کیا ہے۔
بائیڈن نے آٹھ اکتوبر کو پھیلنے والی اس کہانی پر بھی یقین کر لیا کہ حماس کے جنگجوؤں نے چالیس اسرائیلی بچوں کے گلے کاٹ دیے اور انھوں نے اس کی تصاویر دیکھی ہیں۔ چند گھنٹے بعد وہائٹ ہاؤس کی جانب سے وضاحت جاری ہوئی کہ دراصل بائیڈن ان اطلاعات کا حوالہ دے رہے تھے جو پھیل رہی ہیں۔
آج اس واقعے کو تیرہ دن گذر گئے۔ اب تک ان گلا کٹے بچوں کی ایک بھی تصویر سامنے نہیں آ سکی جب کہ غزہ میں بمباری سے جھلس کے کوئلہ بن جانے والے بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر گھوم رہی ہیں مگر مین اسٹریم مغربی میڈیا ان تصاویر کو اس لیے شایع نہیں کررہا کیونکہ یہ پیشہ ورانہ صحافتی اخلاقیات کے دائرے میں نہیں آتیں۔
بھارت میں فیکٹ چیک کی ایک اور سرکردہ ویب سائٹ بوم نے دو ایسی وڈیوز کا کچا چھٹا کھولا جنھیں لاکھوں لوگ شئیر کر چکے ہیں اور ان میں اکثریت بھارتیوں کی ہے۔ ایک وائرل وڈیو کو ٹیگ کرکے بتایا گیا کہ اسرائیلی بچیوں سے بھری بس کو حماس کا ایک جنگجو اغوا کرکے لے جا رہا ہے تاکہ ان بچیوں کو جنسی غلام بنایا جا سکے۔
بوم نے تحقیق کرکے دریافت کیا کہ اس بس میں یروشلم کے ایک اسکول کی بچیاں تھیں جو پکنک منانے کے لیے جا رہی تھیں۔ وہ آپس میں گپ شپ کر رہی تھیں اور کچھ فون پر چاٹنگ بھی کر رہی تھیں اور حماس کا جنگجو دراصل ان کا نگراں ٹیچر تھا اور یہ وڈیو ایک برس پرانی ہے۔
مزے کی بات ہے کہ یہ وڈیو پھر بھی حماس کے جنگجو کے نام سے شئیر ہوتی رہی اور کچھ بھارتی ٹی وی چینلز نے بھی اسے استعمال کیا۔
اسی طرح ایک انڈین ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک اور وڈیو کو لاکھوں ویوز ملے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایک بچے کو حماس کے جنگجو اغوا کرکے لے جا رہے ہیں۔ فیکٹ چیک ویب سائٹ بوم نے اس وڈیو کی حقیقت معلوم کی کہ اسے پہلی بار ستمبر میں پوسٹ کیا گیا تھا اور اس کا اسرائیل یا غزہ سے کوئی لینا دینا نہیں۔
جھوٹ نے اس جنگ میں خود کو اتنا سچ ثابت کر دیا ہے کہ سچائی نے غزہ میں گری سیکڑوں عمارتوں کے ملبے تلے پناہ لے لی ہے جہاں اب بھی نہ جانے کتنے انسانوں کی لاشیں دبی پڑی ہیں۔