اگر آپ کسی ہندو نام کے آخر میں دت، دات یا دتا کی کنیت پائیں تو سمجھ لیجیے کہ ان کا نسبی سلسلہ راہب دت سے جا ملتا ہے۔ جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے سات بیٹوں کے ساتھ تجارتی حوالے سے کوفہ میں موجود تھے۔
یہ ساتوں بیٹے دت روایت کے مطابق اہلِ بیت کی دعا کا نتیجہ تھے۔ جب راہب کو خبر ملی کہ اہلِ بیت پر کوفہ کے نزدیک کڑا وقت ہے تو وہ اپنے ساتوں بیٹوں کے ہمراہ لشکرِ حسین میں شامل ہو کے اہلِ بیت کے تحفظ کی کوشش میں قربان ہو گئے۔
راہب دت زندہ رہے اور ایران، افغانستان اور وسطیٰ ایشیا سے ہوتے ہواتے پنجاب اور پھر کشمیر پہنچے۔ یہ بھی روایت ہے کہ سری نگر کے حضرت بل دربار میں جو موِ مبارک محفوظ ہے وہ راہب دت ہی اپنے ساتھ لائے تھے۔
نوآبادیاتی دور کے ایک برطانوی ماہرِ نسبیات (ایتھنالوجسٹ) ڈینزل ایبسٹن کے انیس سو گیارہ میں شایع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون میں حسینی برہمنوں کا تذکرہ کچھ یوں ہے کہ " دت گوت کے جدِامجد عربستان تک تجارتی سفر کرتے تھے اور مختلف ادوار میں وسطیٰ ایشیا اور ہندوستان تک کئی درباروں سے منسلک رہے۔ کئی دت سپاہ گر بھی تھے۔
سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ان کی زیادہ تعداد گجرات، سندھ اور وسطیٰ پنجاب کے مختلف علاقوں میں بسی ہوئی تھی۔ امرتسر میں مائی کرموں دتانی کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو رنجیت سنگھ کے دور سے پہلے پنچایتی فیصلے کیا کرتی تھی۔ امرتسر میں آج بھی مائی کرموں کی ڈیوڑھی موجود ہے۔
تقسیم سے قبل امرتسر کے کٹڑہ شیر سنگھ سے دت تعزیہ برآمد ہوتا تھا۔ بعد ازاں محرم کی مجالس کٹڑے تک ہی محدود ہوگئیں۔
ایک مورخ محمد مجیب کے بقول تقسیم سے قبل دت برادری کو سلطان کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔
وہ دت سلطان
ہندو کا دھرم مسلمان کا ایمان
دت سلطان۔ نہ ہندو نہ مسلمان
یعنی دت حسینی برہمنوں کو ہندو اکثریت مسلمانوں کا کوئی فرقہ سمجھتی رہی اور مسلمان انھیں ہندو دھرم کی ایک شاخ گردانتے رہے۔
اس دہری شناخت کی حسینی برہمنوں کو قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ مثلاً تقسیم کے فسادات میں جن سنگھیوں نے امرتسر میں آباد معروف شاعر بریہم ناتھ دتا قاصر کا گھر مسلمان کہہ کے نذرِ آتش کردیا۔ جب کہ مغربی پنجاب میں جو حسینی برہمن آباد تھے انھیں جان بچانے کے لیے سرحد پار مشرقی پنجاب اور دلی ہجرت کرنا پڑی۔
جب نوے کی دہائی میں شوکت خانم اسپتال کی چندہ تقریب میں سنیل دت لاہور آئے تو انھوں نے خطاب میں کہا۔
" لاہور تیرے لیے تو میرا خون اور جان بھی حاضر ہے۔ میں اس روایت کا وارث ہوں جب میرے پرکھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین پر اپنی جانیں نچھاور کر دی تھیں۔ "
دت سلطانوں میں یہ بھی رسم ہے کہ جب بچے کا منڈن ہوتا ہے تو حسین کے نام کا ورد جاری رہتا ہے۔ شادی میں جو حلوہ پکایا جاتا ہے وہ بڑے امام صاحب (حسین) کے نام پر تیار کیا جاتا ہے۔
دت حسینی سبھاؤ گنگا جمنی تہذیب کی لہروں سے اٹھنے والی بھگتی تحریک، سکھ مذہب اور روحانی درباروں میں ہندو مسلمان کی بلاامتیاز موجودی سے تیار خمیر سے جنم لینے والے مشترکہ ہندوستانی کلچر کی ایک نادر و شاندار زنجیر کی ہی ایک کڑی ہے۔
دت شعرا نے نوحے اور کربلائی گیت بھی کہے۔ ان میں قافلہِ حسین کا ساتھ دینے کا تذکرہ مفصل ہے۔
حسینی برہمنوں کی نئی پیڑھی میں سے اکثر لوگ متشدد ہندو قوم پرست لہر کے سبب یا تو اپنی تاریخی روایات سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں یا پھر عقیدہ ہی ان کے لیے ثانوی شے بن کے رہ گیا ہے۔ جبرِ معاش کی اپنی روایات و جغرافیہ و تہذیب ہوتی ہے۔ پھر بھی آج بھی کسی بوڑھے حسینی کو ذرا سا کریدا جائے تو وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کے ماضی کی اور بے ساختہ چل پڑتا ہے۔
یوپی، بہار، بنگال اور آندھرا (دکن) میں محرم کے تعلق سے جو گنگا جمنی روایات کسی حد تک اکیسویں صدی میں بھی ٹمٹما رہی تھیں۔ دو ہزار چودہ کے بعد آنے والے تعصبی جھکڑ کی وہ بھی تاب نہ لا سکیں۔ اب ہر جانب احتیاط کا فیشن ہے۔ فلاں سے ملے تو لوگ کیا کہیں گے۔ فلاں جلوس میں گئے تو کتنے دیدے گھومیں گے اور کتنی تیوریوں پر بل پڑیں گے۔
لے دے کے پاکستان کے صوبہ سندھ میں اکادکا مقامات پر حسینی پیغام کی عالمگیریت کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ چند ہندو ذاکر آج بھی حسینی مجالس پڑھتے ہیں۔ ان مجالس میں کچھ وقت کے لیے ہی سہی مگر حسینی پیغام ایک مشترکہ تہذیبی میراث کا پتہ دے ہی جاتا ہے۔