رسولِ اکرم ﷺ جب بھی کوئی لشکر روانہ کرتے تو امیرِ سپاہ کو بالخصوص اور شاملِ لشکر صحابہ کو بالعموم ہدایت کی جاتی کہ خبردار "بچے، خاتون اور بوڑھے کو زک نہ پہنچے۔ کوئی کھیتی و باغ نہ اجڑے۔ درخت نہ کٹے "۔
جنگوں اور خانہ جنگیوں سے ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ معاملات کو افہام و تفہیم، ثالثی اور کھلے دل سے حل کرنے پر انسانی توجہ مرکوز ہو۔ بس یہی پیغام عام کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ گزشتہ بائیس برس سے ہر چھ نومبر کو ماحولیات کو جنگ و جدل کے اثرات سے بچانے کی آگہی کا خصوصی دن مناتی ہے۔
ویتنام جنگ کے بعد حربی اخلاقیات کے بین الاقوامی ضوابط میں یہ اضافہ بھی کیا گیا کہ دورانِ جنگ ماحولیات کی بربادی کو بھی جنگی جرم مان کے ذمے داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ دو ہزار سولہ میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس بابت قرار داد بھی منظور کی۔ مگر قرار داد کی منظوری اور اس پر عمل دو الگ الگ باتیں ہیں۔
جنگوں سے ماحولیات کو کس قدر فوری و دوررس نقصان پہنچتا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کچھ ٹھوس مثالیں دیکھنا ہوں گی۔
پہلی عالمی جنگ میں سوا لاکھ ٹن انسان کش کیمیکلز استعمال ہوئے۔
اگست انیس سو پینتالیس میں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرتے ہی ان شہروں میں درجہ حرارت تین ہزار نو سو اسی سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔
انسان زمین پر سائے کی طرح چپک گئے۔ ایک لاکھ پانچ ہزار افراد فوراً مر گئے اور لاکھوں کئی کئی دنوں مہینوں اور برسوں میں سسک سسک کے مرے۔ اتنے زیادہ درجہِ حرارت کے سبب اردگرد کی تمام حیات و نبات صفحہِ ہستی سے مٹ گئی۔ تابکاری نے ایک وسیع علاقے کی اراضی اور پانی کو زہر کے ذخیرے میں بدل دیا۔
دوسری عالمی جنگ میں جو ہزاروں کیمیاوی بم استعمال نہ ہو سکے وہ سمندر میں اتار دیے گئے۔ بحراوقیانوس میں تجارتی و جنگی جہازوں کی غرقابی کے سبب لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ ٹن تیل سمندر پر پھیل گیا۔ یورپ کے دریا اور نہریں تباہ شدہ جنگی کشتیوں اور دیگر جنگی اسکریپ سے اٹ گئے۔ اس کے ماحولیاتی اثرات آج تک پوری طرح نہ مٹ پائے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران کیمیاوی علوم میں تیز رفتار تحقیق کے سبب بعد از جنگ زرعی کیڑے مار ادویات کی جدت کاری میں حیرت انگیز صنعتی ترقی ہوئی۔ ان مصنوعات کے بے تحاشا استعمال نے غریب ممالک کی زمین کے ساتھ کیا کیا۔ ہر وہ کسان واقف ہے جس کا رشتہ زمین سے جڑا ہوا ہے۔
جنگِ ویتنام کے دوران ویت کانگ گوریلوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کے لیے امریکا نے کھیتوں اور جنگلات پر بے دردی سے بیس ملین گیلن ایجنٹ اورنج کا اسپرے کیا۔ آج تک متاثرہ علاقوں میں فصل نہیں اگائی جا سکتی، نہ ہی کوئی درخت پنپتا ہے۔ جہاں جہاں ایجنٹ اورنج چھڑکے گئے وہاں وہاں مٹی کے ڈھیر آس پاس کی زرخیز زمین میں گومڑوں کی طرح ابھرے نظر آتے ہیں۔
جنگ سے پہلے ان علاقوں میں ایک سو ستر اقسام کے پرندے اور پچپن اقسام کے چرند درند پائے جاتے تھے۔ کیمیکلائزڈ ہونے کے بعد آج وہاں چوبیس قسم کے پرندے اور پانچ طرح کے جانور ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آنجہانی سویڈش وزیرِ اعظم اولاف پامے نے ویتنام کی جنگ کو بیسویں صدی کی سب سے بڑی ایکوسائیڈ (ماحولیاتی نسل کشی) قرار دیا۔
اس گیسی برسات نے پچاس لاکھ ویتنامی شہریوں کو متاثر کیا۔ ان میں سے چار لاکھ مر گئے، دس لاکھ معذور ہو گئے جب کہ پانچ لاکھ معذور بچے پیدا ہوئے۔ امریکا سے بھی پہلے برطانیہ نے انیس سو پچاس کے عشرے میں ملایا (ملائشیا) کے جنگلات میں کیمونسٹ چھاپہ ماروں سے نمٹنے کے لیے ایجنٹ اورنج کا اسپرے کیا۔ لگ بھگ دس ہزار براہِ راست اموات ہوئیں اور پچاس ہزار انسان رفتہ رفتہ طرح طرح کی طبی پیچیدگیوں میں مرے۔
انیس سو اکیانوے کی جنگِ خلیج کے دوران کویت پر قابض عراقی فوج نے پسپا ہونے سے پہلے تیل کے لگ بھگ ساڑھے سات سو کنوؤں کو آگ لگا دی۔ جب کہ لاکھوں ٹن تیل کا ذخیرہ خلیج میں بہا دیا یا صحرا میں پھیلا دیا تاکہ حریف آسانی سے پیش قدمی نہ کر سکے۔
اس سے قبل ایران اور عراق کے درمیان ہونے والی آٹھ سالہ جنگ میں دونوں اطراف کی زمین نے لاکھوں ٹن بارود جذب کیا اور دجلہ و فرات کے دلدلی دوآبے کو جنوبی عراق کی شیعہ آبادی کو سزا دینے کے لیے خشک کر دیا گیا۔ جب کہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف کرد علاقے حلب جا میں زہریلی گیس استعمال کی گئی۔ پانچ ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔
انیس سو اکیانوے اور دو ہزار تین کی خلیجی جنگوں میں امریکا نے عراق میں لگ بھگ دو ہزار ٹن یورینیم سے آلودہ گولے استعمال کیے۔ چنانچہ بصرہ کے اطراف میں طرح طرح کے سرطان پھیلے اور سیکڑوں بچے جسمانی نقائص کے ساتھ پیدا ہوئے۔
سی آئی اے ورلڈ بک کے مطابق تیل، پٹرول، ڈیزل وغیرہ کے استعمال کی مد میں امریکی محکمہ دفاع سویڈن کی سالانہ کھپت کے برابر ایندھن استعمال کرتا ہے۔
لاکھوں ایکڑ زمین بارودی سرنگیں بچھانے کے سبب صدیوں کے لیے برباد ہوگئی۔ اس وقت دنیا کے بیس ممالک میں لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ بارودی سرنگیں بچھی ہیں۔ ایک بارودی سرنگ کی لاگت تین سے بیس ڈالر تک ہے۔ مگر ایک بارودی سرنگ کی تلاش اور اسے تباہ کرنے کی اوسط لاگت تین سو ڈالر ہے۔ ہر برس ایک لاکھ کے لگ بھگ بارودی سرنگیں صاف کی جاتی ہیں تو ان سے دس گنا زائد بچھا دی جاتی ہیں۔
یہ بارودی سرنگیں کھیتوں، اہم تنصیبات، آبی ذخائر اور جنگلوں میں بچھائی یا نصب کی جاتی ہیں۔ انھیں فضا سے کلسٹر بموں کی شکل میں بھی گرایا جاتا ہے۔ بہت سی بارودی سرنگیں خوشنما کھلونوں کی شکل میں ہوتی ہیں۔ ان پر بچے لپکتے ہیں اور ہلاک و معذور ہو جاتے ہیں۔
بارودی سرنگ گزیدہ ممالک میں انگولا، افغانستان، کمبوڈیا، مصر، سوڈان سرِ فہرست ہیں۔ سب سے زیادہ آلودہ سرحدی لکیر شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان اور کشمیر کو تقسیم کرنے والی جنگ بندی لائن ہے۔
سالانہ پانچ ہزار افراد بارودی سرنگیں پھٹنے سے ہلاک اور لگ بھگ پچیس ہزار معذور ہو جاتے ہیں۔ ان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ آج ان سرنگوں کی صفائی کا کام شروع ہو تو تکمیل کے لیے لگ بھگ گیارہ سو برس درکار ہوں گے۔
فوجی نقل و حرکت اور جنگی مقاصد کے لیے ایندھن کا بے تحاشا استعمال، جنگلات کی کٹائی، تربیتی و جنگی اہداف کی تباہی کے لیے بارود کا استعمال، اسلحہ سازی کے لیے زمین سے نکالی گئی قیمتی دھاتیں، فضائی و بحری آلودگی، انسانی و صنعتی فضلہ، لاکھوں لوگوں کی جبری نقل مکانی کے سبب جنگلاتی وسائل کا زیاں، خانہ جنگی کے خرچے پورے کرنے کے لیے مسلح ملیشیاؤں کے ہاتھوں زمین کے اندر اور باہر کے قیمتی پتھروں کی غیر قانونی تجارت، مقبوضہ علاقوں کے قدرتی و ماحولیاتی وسائل کی لوٹ مار، بعد از جنگ ناکارہ اسلحے اور وسائل کو میدانِ جنگ میں چھوڑ دینا۔
کرہِ ارض کی ساڑھے چھ فیصد زمین عسکری استعمال میں ہے۔ جنگ کھربوں ڈالر کی صنعت ہے۔ لڑائی بھلے دو ممالک کے درمیان ہی کیوں نہ ہو خمیازہ پوری دنیا بھگتتی ہے۔