کل (جمعہ) انسدادِ غلامی کا عالمی دن تھا۔ اقوام متحدہ کے تحت اس دن کا مقصد یہ آگہی پھیلانا ہے کہ غلامی کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ مجبوروں اور مقروضوں سے جبری محنت اور کم سنوں سے مشقت کے علاوہ انفرادی و کاروباری خود غرضی کے ہاتھوں جنسی و جسمانی غلامی، انسانی اسمگلنگ، جبری شادیاں، باعزت ملازمت کے دھوکا میں پاسپورٹ و پروانہِ راہداری کی ضبطی یا ذاتی شناختی دستاویزات کے قانونی حصول کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے بنیادی حقوق غصب کرنے اور کچھ انسانی گروہوں کو نام نہاد کمی کمین قرار دے کر ان پر مفاداتی سواری گانٹھنے سمیت صدیوں پر میحط غلامی نے جدید چولا پہن لیا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی عہدنامے کی شق چار کے تحت کسی انسان کو کسی بھی جواز و شکل میں غلام رکھنا قانوناً و اخلاقاً ممنوع اور شرفِ انسانیت کی کھلی پامالی ہے اور اس بنیادی حق کا تحفظ تمام ریاستوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
عالمی ادارہِ محنت (آئی ایل او) کا اندازہ ہے کہ اس وقت کرہِ ارض پر پانچ کروڑ سے زائد انسان جسمانی غلامی کا جوا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک چوتھائی پندرہ برس کی عمر تک کے بچے ہیں۔ ان میں سے اٹھائیس ملین انسان جبری مشقت میں جھونکے گئے ہیں۔ بائیس ملین کو جبری شادی کے ذریعے غلامی کی کھائی میں دھکیلا گیا ہے۔ سترہ ملین ذی روح نجی شعبوں میں اور چار ملین افراد ریاستی سطح پر غلامی کی مختلف شکلوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ غلاموں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دو ہزار سولہ سے اکیس کے درمیانی پانچ برس میں کم ازکم ایک کروڑ غلاموں کا اضافہ ہوا ہے۔
غلام سازی کا خام مال ہر طرف بکھرا پڑا ہے۔ قدرتی و انسانی آفات سے تباہ حال بے بس انسان، انتہائی غربت کی سطح سے بھی نیچے گرنے والے آدم، بہتر معاشی مستقبل کا خواب دیکھنے والی اشرف مخلوق، غیر قانونی تارکینِ وطن و پردیسی اور بے سہارا خواتین و بچے غلامی کی بھٹی کا ایندھن ہیں۔
کمزور و مبہم ریاستی قوانین، متعلقہ محکموں کی کرپشن اور ملی بھگت اس انسانی ایندھن کی مستقل اور پائیدار رسد کے ضامن ہیں۔ لاکھوں خاندان وہ ہیں جنھیں قرض کے بوجھ تلے دبا کے نسل در نسل غلام بنایا جا سکتا ہے۔ نہ قرض کا بار کم ہوگا نہ غلام اپنی آزادی خریدنے کے قابل ہوگا۔
یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے جس کا مالی حجم ڈیڑھ سو سے دو سو بلین ڈالر سالانہ ہے۔ سن اٹھارہ سو نو میں امریکا میں ایک غلام جتنے پیسیوں میں بیچا خریدا جاتا تھا وہ رقم آج کے چالیس ہزار ڈالر کے مساوی تھی۔ لیکن اس وقت آپ انسان کو نوے سے سو ڈالر ماہانہ کی اجرت پر دو سو برس پہلے کے مقابلے میں زیادہ سستائی اور آسانی سے غلام رکھ سکتے ہیں۔
یہ غلام اور ان کی محنت کے سینے پر اپنی کامیابی و ترقی کے جھنڈے گاڑنے والی اقوام اور کثیر القومی کمپنیاں اور خون چوس سرمایہ کار ہمارے چاروں طرف پھیلے پڑے ہیں۔
ان غلاموں کو چھوٹے بڑے کارخانوں، گھروں، منڈیوں، دوکانوں، تعمیراتی شعبوں، کھیتوں، قحبہ خانوں، بھکاریوں کے منظم کاروبار سمیت بیسیوں شعبوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ اکثر جدید غلام غریب اور ترقی پذیر ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ یہ خیال اس اعتبار سے تو ٹھیک ہے کہ غریب ممالک میں غلامی کی فصل کے لیے زرخیز ماحول میسر ہے۔ مگر ان میں سے باون فیصد غلام متوسط یا ترقی یافتہ معیشتوں کے گالوں کی دوڑتی سرخی کا سبب ہیں۔
جبری مشقت کے شکار چھیاسی فیصد انسان نجی شعبوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے تئیس فیصد جنسی غلامی کے بھٹے میں جھونک دیے گئے ہیں اور ان جنسی غلاموں میں بھی اسی فیصد تعداد خواتین اور بچیوں کی ہے۔
غلامی کے بین الاقوامی اشاریے کی دو ہزار اٹھارہ کی شایع تفصیل کے مطابق مغربی افریقہ کے ملک ماریطانیہ میں آج بھی نوے ہزار کے لگ بھگ (کل آبادی کا دو فیصد) زرخرید غلام پائے جاتے ہیں۔ جب کہ جدید غلامی کی تشریح کی روشنی میں بھارت میں اسی لاکھ، چین میں چالیس لاکھ، پاکستان میں اکتیس لاکھ، شمالی کوریا میں پچیس لاکھ، نائجیریا میں پندرہ لاکھ، انڈونیشیا میں گیارہ لاکھ، کانگو میں دس لاکھ، روس اور فلپینز میں آٹھ آٹھ لاکھ انسان جدید غلامی کی جکڑ بندی میں ہیں۔ یہ ریاستی فہرست یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ طول پکڑتی جاتی ہے۔
امریکا میں چار لاکھ سے زائد جدید غلام ہیں۔ ان میں زیادہ تر وسطی و جنوبی امریکا سے آنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن اور جیلوں میں بند قیدی ہیں۔ جن امریکی ریاستوں میں قید خانے نجی کمپنیوں کو ٹھیکے پر دیے جاتے ہیں وہاں حالات اور برے ہیں۔ وہاں جو قیدی جبری محنت سے انکار کرتے ہیں انھیں قیدِ تنہائی بھی بھگتنا پڑ سکتی ہے۔ برطانوی حکام کا اندازہ ہے کہ اس وقت ملک میں دس سے پندرہ ہزار انسان مختلف شعبوں میں غلامی کاٹ رہے ہیں۔
قیدِ بامشقت بھی غلامی کی ایک نمایاں تسلیم شدہ شکل ہے۔ کیونکہ قیدیوں کو ان کی محنت کا یا تو جائز معاوضہ بھی بطور سزا نہیں ملتا یا بطور جبری مزدور کام لیا جاتا ہے۔ چند وسطی ایشیائی ریاستوں اور بعض افریقی ممالک میں طلبا اور ملازمین سے سال کے کچھ دن رضاکاری کے نام پرقانوناً بلامعاوضہ جبری مشقت لینے کو آج بھی برا نہیں سمجھا جاتا۔ کئی ممالک میں بچوں کو اغوا کر کے مسلح تصادم اور خانہ جنگی میں جھونک دیا جاتا ہے۔ یہ وبا کانگو، یوگنڈا اور مغربی افریقہ کی ریاستوں اور برما میں عام ہے۔
انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے سبب عام لوگوں کو پرکشش نوکری کا جھانسہ دے کر غلامی کے جال میں پھانسنے کا چلن سال بہ سال بڑھتا جا رہا ہے۔ پڑھے لکھے کوالیفائیڈ نوجوانوں کو جھانسہ دے کر کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور برما لایا جاتا ہے اور پھر انھیں قید کر کے آن لائن جوئے یا فراڈ کے کاموں پر مجبور کیا جاتا ہے۔
جرائم پیشہ بین الاقوامی گروہ اس کاروبار سے کروڑوں ڈالر اینٹھتے ہیں جب کہ غلاموں کو انتہائی معمولی معاوضہ دے کر قیدیوں کی طرح پہرے میں رکھا جاتا ہے اور اس عذاب سے رہائی کے عوض ان کے اہلِ خانہ یا جاننے والوں سے بھاری معاوضہ وصولا جاتا ہے۔ اس کاروبار میں چینی جرائم پیشہ گروہ آگے آگے بتائے جاتے ہیں۔ اس وبا کو روکنے کے لیے علاقائی سطح پر تھوڑے بہت اقدامات بھی کیے جاتے ہیں مگر بدعنوان حکام اور مجرموں کا گٹھ جوڑ توڑنا کوئی آسان کام تو نہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں۔
غلامی آج بھی ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے۔ مگر اس سے نجات پانے کی اجتماعی کوششیں خاصی بکھری اور غیر منظم ہیں۔ چنانچہ فی الحال واحد طریقہ یہی ہے کہ آنکھیں اور کان کھلے رکھے جائیں۔ البتہ جب تک مجبوری، غربت اور راتوں رات آگے بڑھنے کے خواب زندہ ہیں۔ غلامی بھی پینترے بدل بدل کے وار کرتی رہے گی۔