تیس جون عالمی یومِ پارلیمان تھا۔ اس برس بین الاقوامی پارلیمانی یونین (آئی پی یو) کی جانب سے خوش خبری یہ ہے کہ پہلی بار دنیا کے ہر ملک کی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمایندگی موجود ہے۔
انیس سو پچانوے میں خواتین کی عالمی پارلیمانی نمایندگی کا اوسط تناسب گیارہ فیصد تھا۔ آج ساڑھے چھبیس فیصد ہے۔
اگرچہ یہ تناسب پہلے سے بہتر ہے مگر آٹھ ارب کی آبادی میں ایک سو ایک مردوں کے مقابلے میں سو خواتین کے تناسب سے اگر بات کی جائے تو خواتین کو آدھوں آدھ پارلیمانی نمایندگی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے مزید اسی برس درکار ہیں۔
بین الاقوامی پارلیمانی یونین کے مطابق نصف آبادی کی کچھوے کی رفتار سے نمایندگی میں اضافے کے اسباب میں پدر سری سوچ کے علاوہ صنفی تعصبات، ہراسانی اور تشدد جیسے بنیادی عوامل کارفرما ہیں۔
بقول سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ عورتیں جسمانی فرق کے باوجود ہر اعتبار سے مردوں کے برابر ہیں۔ مگر یہ حقیقت ہضم کرنے میں مردوں کو کم ازکم دو سو برس لگیں گے۔
تاہم یہ حوصلہ افزا خبر بھی مدِ نظر رہنی چاہیے کہ چھ ممالک میں خواتین کی پارلیمانی نمایندگی پچاس فیصد سے اوپر ہے۔
روانڈا کی قومی اسمبلی میں خواتین کا تناسب اکسٹھ فیصد، کیوبا میں تریپن فیصد، نکارگوا کی پارلیمان میں باون فیصد، میکسیکیو، نیوزی لینڈ اور متحدہ عرب امارات کی پارلیمانوں میں پچاس فیصد ہے۔ جب کہ تئیس ممالک میں خواتین کی پارلیمانی نمایندگی کا تناسب چالیس فیصد یا زائد ہے۔
بین الاقوامی پارلیمانی یونین کے سیکریٹری جنرل مارٹن چنگونگ کا کہنا ہے کہ حال ہی میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اور اسکاٹش وزیرِ اعظم نکولا سٹرجن کے مستعفی ہونے کے پیچھے صنفی تعصبات کا خاصا عمل دخل ہے۔
مگر خواتین رکاوٹوں کے باوجود ہمت نہیں ہارتیں۔ مثلاً برازیل میں حالیہ مقامی انتخابات میں ستائیس ہزار خواتین امیدواروں میں سے لگ بھگ پانچ ہزار امیدواروں نے خود کو سیاہ فام عورت کی فخریہ شناحت کے ساتھ پیش کیا۔ امریکی کانگریس کے حالیہ وسط مدتی انتخابات میں دو سو تریسٹھ غیر سفید فام خواتین کی ریکارڈ تعداد امیدوار تھی۔
دنیا کے ایک سو چھتیس ممالک میں تین لاکھ خواتین منتخب بلدیاتی اداروں میں بطور نمایندہ بیٹھی ہیں۔ دو ممالک کے بلدیاتی نظام میں خواتین کی نمایندگی کا تناسب پچاس فیصد یا زائد ہے۔
یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ خواتین کی منتخب نمایندگی میں اضافے کے سبب پالیسی سازی کے میدان میں عوام دوست فیصلوں اور اقدامات کا تناسب بھی بڑھا ہے۔
مثلاً بھارت کے پنچایتی نظام میں جہاں جہاں خواتین کی نمایندگی بڑھی ہے وہاں پینے کے صاف پانی کے منصوبوں کی منظوری اور ان پر عمل درآمد کا تناسب ان پنچایتوں کے مقابلے میں تریسٹھ فیصد زیادہ ہے جہاں فیصلہ سازوں کی اکثریت مردوں پر مشتمل ہے۔
ناروے کے بلدیاتی نظام میں خواتین کی نمایندگی کا تناسب بڑھنے کے سبب بچوں کی فلاح و بہبود سے متعلق قانون سازی پر زیادہ زور دیا جانے لگا ہے۔ صنفی عدم مساوات برقرار رکھنے والے قوانین میں بھی خاصی حد تک بہتری دیکھی جا رہی ہے۔
اس وقت اٹھائیس ممالک کی صدور یا وزرِا اعظم خواتین ہیں۔ کابینہ میں خواتین کی عالمی نمایندگی کا اوسط تئیس فیصد ہے۔ جب کہ تیرہ ممالک کی کابینہ میں خواتین وزرائے کا تناسب پچاس فیصد ہے۔
جہاں تک پاکستانی جمہوریت میں خواتین کی نمایندگی کا معاملہ ہے تو دو ہزار دو سے قبل یہ ہرگز اطمینان بخش نہیں رہا۔ انیس سو سینتالیس تا اکتوبر انیس سو چون پہلی انہتر رکنی اسمبلی میں صرف دو خواتین تھیں (بیگم شائستہ اکرام اللہ اور بیگم جہاں آرا شاہ نواز)۔
اگرچہ انیس سو چھپن کے آئین میں خواتین کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان سے پانچ پانچ نشستیں مخصوص کی گئیں۔ تاہم انیس سو باسٹھ کے آئین میں یہ نشستیں کم کرکے چھ کر دی گئیں۔
انیس سو پچپن تا انیس سو اٹھاون دوسری مجلسِ قانون ساز میں خواتین کی نمایندگی صفر تھی۔ انیس سو باسٹھ تا چونسٹھ کی تیسری اسمبلی میں چھ خواتین مخصوص نشستوں پر اور دو جنرل سیٹوں پر منتخب ہوئیں۔
انیس سو تہتر کے آئین میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد چھ سے بڑھا کے دس کر دی گئی۔ اس پر دس برس بعد نظرثانی ہونا قرار پائی۔ انیس سو پچاسی کی غیر جماعتی اسمبلی نے مخصوص نشستوں کی تعداد دگنی (بیس) کر دی۔
سولہ نومبر دو ہزار دو کو جو بارہویں پارلیمنٹ بنی اس میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد ساٹھ ہوگئی۔ جب کہ تین سو بیالیس کے ایوان میں براہ راست جیت کر آنے والی خواتین سمیت کل تعداد چوہتر تک پہنچ گئی۔ یعنی قومی اسمبلی میں خواتین کی نمایندگی لگ بھگ بائیس فیصد تک پہنچ گئی۔
دو ہزار تین میں سو رکنی سینیٹ میں خواتین کے لیے سترہ نشستیں مخصوص ہوئیں مگر اٹھارہ خواتین منتخب ہوئیں۔ دو ہزار دو میں چاروں صوبائی اسمبلیوں کی سات سو اٹھائیس نشستوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی کل تعداد ایک سو اڑسٹھ رکھی گئی۔
تیرہویں قومی اسمبلی (دو ہزار آٹھ تا تیرہ) میں براہ راست منتخب ہونے والی سولہ خواتین سمیت چھہتر عورتیں تھیں۔ چودھویں قومی اسمبلی (دو ہزار تیرہ تا اٹھارہ) میں براہ راست ووٹوں سے منتخب نو خواتین سمیت ستر عورتیں تھیں۔
سمیعہ عثمان پہلی سینیٹ میں واحد خاتون سینیٹر تھیں۔ دوسری سینیٹ میں دو ارکان آصفہ فاروقی اور عزیزہ ہمایوں تھیں۔ جب کہ تیسری سینیٹ (انیس سو پچاسی تا اٹھاسی) میں کوئی خاتون رکن نہیں تھیں۔ چوتھی سینیٹ میں نورجہاں پانیزئی واحد خاتون تھیں اور وہ انیس سو اکیانوے میں پہلی خاتون ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی بنیں۔
موجودہ پارلیمنٹ میں نو اپریل دو ہزار بائیس تک انہتر خواتین کی مجموعی نمایندگی اکیس فیصد کے لگ بھگ بنتی تھی جو پی ٹی آئی کے استعفوں کے سبب کم ہوگئی۔ جب کہ ایک سو چار رکنی سینیٹ میں بیس خواتین ہیں۔
دو ہزار سترہ کے الیکشن ایکٹ میں سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا کہ براہِ راست نشستوں پر کم ازکم پانچ فیصد خواتین کو ٹکٹ دیے جائیں۔
ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ خواتین ووٹروں کی تعداد پینتالیس فیصد ہے مگر مخصوص نشستوں کو ملا کے بھی ان کی پارلیمانی نمایندگی ایک چوتھائی کا ہندسہ نہیں چھو پائی۔ بین الاقوامی پارلیمانی یونین کی رینکنگ میں خواتین کی نمایندگی کے اعتبار سے پاکستان ایک سو چھیانوے ممالک میں ایک سوویں درجے پر ہے۔ جب کہ مجموعی سیاسی قوتِ اظہار کی فہرست میں پاکستان کا شمار ایک سو تریپن ممالک میں ترانویں نمبر پر ہے۔
اگرچہ پاکستان خواتین کی پارلیمانی نمایندگی کے اعتبار سے جنوبی ایشیا میں بھوٹان (چودہ اعشاریہ نو فیصد)، بھارت (بارہ اعشاریہ چھ فیصد)، سری لنکا (پانچ اعشاریہ تین فیصد) اور مالدیپ (چار اعشاریہ سات فیصد) سے آگے ہے۔ مگر نیپال(بتیس اعشاریہ سات فیصد) اور بنگلہ دیش (بیس اعشاریہ چھ فیصد) سے پیچھے ہے۔
لیکن فخر کرنے کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ جیسے محترمہ فاطمہ جناح پہلی صدارتی امیدوار تھیں جنھیں غیر شفاف طریقے سے ہرایا گیا۔ بے نظیر بھٹو دو بار وزیرِ اعظم اور دو بار قائدِ حزبِ اختلاف رہیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا قومی اسمبلی کی اسپیکر رہیں۔ بیگم اشرف عباسی دو بار قومی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر رہیں۔
شیری رحمان سینیٹ میں پہلی خاتون قائدِ حزب اختلاف رہیں۔ راحیلہ درانی بلوچستان اسمبلی کی، ڈاکٹر مہرتاج روغنی خیبر پختون خواہ اسمبلی کی، شہلا رضا دو بار اور ریحانہ لغاری ایک بار سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر رہیں۔ پارلیمنٹ میں وومین پارلیمانی کاکس بھی پارٹی لائن سے بالاتر کام کر رہا ہے۔
پارلیمنٹ میں آدھے سے زائد بل خواتین ارکان کی جانب سے پیش ہوتے ہیں۔ حالات برے نہیں مگر انھیں مثالی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اطمینان یہ ہے کہ دھیرے دھیرے سہی مگر سفر آگے بڑھ رہا ہے۔