اقوامِ متحدہ کے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ سلوشنز نیٹ ورک (ایس ڈی ایس این) کی دسویں سالانہ تازہ رپورٹ میں خوش باش اور اداس ممالک کی رینکنگ میں حسبِ معمول چوٹی کے بیس ناموں پر مغربی دنیا کا غلبہ ہے۔
ایک سو چھیالیس ممالک کی تازہ رینکنگ میں فن لینڈ مسلسل چھٹے برس بھی اول پائیدان پر ہے۔ سب سے غم زدہ ملک افغانستان بتایا گیا ہے۔ جب کہ اسرائیل حیرت انگیز طور پر مطمئن و خوش ممالک کی رینکنگ میں بارہویں درجے پر ہے حالانکہ بالکل ساتھ لگے فلسطین کی رینکنگ ننانوے ہے۔
اسرائیل کے بعد کہیں جرمنی، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک کا نمبر آتا ہے۔ جب کہ ہمارے آس پاس کے خطے میں چین بیاسیویں، نیپال پچاسیویں، بنگلہ دیش ننانویں، پاکستان ایک سو تین ویں، ایران ایک سو سولہویں، سری لنکا ایک سو چھبیسویں، بھارت ایک سو چھتیسویں اور افغانستان ایک سو چھیالیسویں درجے پر کھڑا ہے۔
گویا جنوبی ایشیا کی رینکنگ میں نیپال اور بنگلہ دیش کے بعد پاکستان سب سے خوش اور مطمئن ممالک میں شامل ہے اور بھارت اس معاملے میں پاکستان سے تینتیس درجے نیچے ہے۔
مگر وہ کیا کسوٹی ہے جس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سا ملک سب سے زیادہ خوش باش ہے اور کون اداسیوں کا مارا ہوا؟ اس بابت یہ اشاریہ مرتب کرنے والوں نے سات معیارات مقرر کیے ہیں۔
اول: کسی بھی ملک میں عمومی نا انصافی، عدم تحفظ، آمرانہ رجحانات یا قدرتی آفات کے سبب مایوسی و اداسی کی کیا کیفیت ہے۔
دوم: سماج کا کتنا حصہ سمجھتا ہے کہ آس پاس کرپشن کم یا زیادہ ہے۔
سوم: سماج میں باہمی ہمدردی اور انسان دوستی کا تناسب کیا ہے۔
چہارم: سماجی و انتظامی و نظریاتی جبر کی فضا کتنی گھمبیر یا ہلکی ہے، انفرادی فیصلے کرنے کی آزادی کس قدر ہے۔
پنجم: سماج جسمانی و ذہنی طور پر کس قدر صحت مند ہے اور اس تناظر میں معیارِ زندگی کتنا اچھا یا برا ہے؟
ششم: شہری عمومی طور پر آپس کے دکھ سکھ میں کتنے شریک ہیں۔ باہمی میل جول کس قدر کم یا زیادہ ہے۔
ہفتم: اوسط سالانہ قومی آمدنی کیا ہے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ خوش طبع ممالک کی عالمی رینکنگ تضادات سے بھرپور ہے۔ مثلاً اگر فن لینڈ کو دنیا کا سب سے مطمئن ملک قرار دیا گیا ہے تو یہ بھی بتانا چاہیے کہ فن لینڈ کا شمار یورپ میں سکون بخش (اینٹی ڈیپریسنٹ) ادویات کی کھپت میں بھی چوٹی کے ممالک میں ہوتا ہے۔
آئس لینڈ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے مگر وہاں ڈیپریشن کی ادویات کا استعمال یورپ میں سب سے زیادہ بتایا جاتا ہے۔ چھٹے نمبر پر آنے والے سویڈن کی بھی کم و بیش یہی کیفیت ہے۔
بھارت اگرچہ اس رپورٹ میں ایک سو چھبیسویں نمبر پر ہے مگر اس نوعیت کے دیگر عالمی سرویز میں بھارت کی رینکنگ بہت اوپر دکھائی گئی ہے۔ جب کہ چین ایس ڈ ی ایس این کے زیرِ بحث سروے میں بیاسیویں پائیدان پر ہے مگر گلوبل ہیپی نیس رپورٹ میں چین سب سے زیادہ خوش باش ملک بتایا گیا ہے۔
جن ممالک کی سالانہ قومی پیداواری آمدنی سب سے زیادہ ہے ان ممالک کی اکثریت مذکورہ انڈیکس میں اتنی ہی خوش باش اور بہتر دکھائی گئی ہے۔
حالانکہ سالانہ قومی آمدنی بس یہ کرتی ہے کہ اسے کسی بھی ملک کی کل آبادی پر تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ارتکازِ دولت کتنے کم یا زیادہ ہاتھوں میں ہے اور سماج میں طبقاتی مساوات و عدم مساوات کا کیا تناسب ہے اور اس مشاہدے کو خوش باشی کی رینکنگ میں کس طرح شامل کیا جائے گا؟
مثلاً امریکا خوش باش ممالک کی رینکنگ میں پندھرویں نمبر پر دکھایا گیا ہے۔ مگر یہاں عدم مساوات کا تناسب کسی بھی صنعتی طور پر ترقی یافتہ سماج سے زیادہ ہے۔
اڑتیس ملین امریکی شہری معاشی غربت کی تعریف پر پورے اترتے ہیں اور ساٹھ فیصد آبادی کی آمدنی ماہانہ بنیادی اخراجات کی نذر ہو جاتی ہے۔ یعنی ان خاندانوں کے لیے مالی بچت کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔
خوش باشی کے سروے سے لاکھوں قیدی، پناہ گھروں میں رہنے والے معمر افراد یا بے سہارا لوگ جیسے طبقات خارج ہیں۔
جہاں جہاں خاندانی نظام مستحکم ہے یا جہاں انفرادی طرزِ زندگی عام ہے۔ ایسے دونوں سماجوں میں خوش باشی کا معیار مختلف ہوگا۔ آسودگی اور مایوسی کے تصور کو الگ الگ جانچنے کے بجائے خلط ملط کیا جائے تو نتیجہ بھی کچھڑی نکلے گا۔ لہٰذا ایسا کوئی شفاف مکینزم اب تک نہیں ہے جو ہر سماج میں خوشی اور دکھ کے اسباب اور کیفیات پر یکساں منطبق ہو سکے۔
کہنے کو بلجئیم خوش باش ممالک کی فہرست میں انیسویں نمبر پر ہے مگر بلجئیم نے جس طرح افریقی ملک کانگو کو نوآبادی بنا کے بے دردی سے لوٹا اور دولت جمع کی وہی کانگو اس فہرست میں اکیاسیویں نمبر پر ہے۔ اور صرف کانگو ہی کیوں۔ جتنی بھی سابق ایشیائی و افریقی نوآبادیات ہیں۔ سب کی سب آج تک مسرت کے نچلے پائدان پر براجمان ہیں۔
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھیں کی دولت سے
(میر)
بعض رپورٹیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں پڑھ کے بس لطف اندوز ہونا چاہیے۔ ہر رپورٹ کے مرتب کنندہ تمام اسباب کسی ایک رپورٹ کے سوال نامے میں نہیں سمو سکتے۔
لہٰذا ایسی رپورٹوں کو نہ مکمل رد کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی من و عن قبول کرنے کی۔ البتہ ایسی رپورٹیں پڑھ کے کسی کے لبوں پر تبسم پھیل جائے تو اپنے باپ کا کیا جاتا ہے۔
علم اور خوشی جہاں سے ملے اچک لینی چاہیے۔ زندگی تو بہر طور جینی ہے۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ زندگی آپ نے گذارنی ہے یا زندگی نے آپ کو گذارنا ہے۔ حتی کہ آپ خود کسی ایک دن گذر جائیں۔