ویسے تو دنیا کی آبادی آٹھ ارب کہی جاتی ہے۔ مگر اس میں سے صرف پانچ فیصد آبادی ایسی ہے جو ہزاروں برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
کرہِ ارض کے نوے ممالک میں بائیس فیصد زمین پر پھیلے یہ چار سو چھہتر ملین انسان ان پرکھوں کی اولاد ہیں جن کی زمین، ثقافت، وسائل، زبان، ماضی، حال، مستقبل وغیرہ اجنبیوں نے طاقت کے بل پر ہتھیا لیے اور من مانے امتیازی قوانین و رسوم و رواج مسلط کرکے اگر ان کا تشخص اور نسل ملیامیٹ نہ بھی کر سکے تو ان فرزندانِ ارض کو ایک اچھوت کونے میں دھکیلنے کی کوشش ضرور کی گئی۔
مثلاً انیسویں اور بیسویں صدی کے کینیڈا میں اصل باشندوں کی شناخت مٹانے اور انھیں نووارد اکثریتی سفید سماج میں ضم کرنے کے لیے ان باشندوں کے بچے چھین کر دور دراز بورڈنگ اسکولوں میں رکھے گئے۔
انڈین ریزیڈینشل اسکول کہلائے جانے والے ان اداروں میں جبراً لائے گئے یہ بچے نہ تو مادری زبان بول سکتے تھے اور نہ ہی اپنی ثقافتی یا غذائی پسند نا پسند کا اظہار کر سکتے تھے۔ اس پروگرام نے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ بچوں سے ان کا ماضی، مستقبل اور شناخت چھین لی۔ اس پالیسی کے اثرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔
حالانکہ کینیڈا میں اب ان اصلی باشندوں کے آئینی حقوق باقاعدہ تسلیم کیے جا چکے ہیں۔
کم و بیش یہی پالیسی آسٹریلیا کی سفید فام اکثریتی ریاست نے بھی اختیار کی اور ملک کے اصل باشندوں کے بچے اغوا کرکے ان کی جبری تعلیم و تربیت اور ایک نئی شناخت تھوپنے کا عمل سن انیس سو ستر کے عشرے تک جاری رہا۔ چند برس پہلے ریاست نے اپنے رویے کی معافی مانگی مگر ایک پوری مقامی نسل کی ذہنی و ثقافتی بربادی کے بعد۔
البتہ نیوزی لینڈ کے اصل باشندوں کی زبان ماؤری کو چند برس پہلے قومی درجہ دیا گیا ہے۔ بچے انگریزی یا ماؤری میں سے کسی بھی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
بھارت میں آدی واسیوں کی زمین و وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ نت نئے قانونی ضوابط کی آڑ میں جاری ہے۔ جب چھتیس گڑھ اور آندھرا جیسی ریاستوں میں اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر یہ قبائل و برادریاں نکسلائیٹ بن جاتے ہیں یا ان کی طرح ہتھیار اٹھاتے ہیں تو غدار کہلاتے ہیں۔
حالانکہ اس کرہِ ارض پر سب سے زیادہ ماحول دوست یا فطرت سے قریب تر اگر کوئی انسانی گروہ ہے تو وہ یہی لوگ ہیں جنھیں ہم نے اپنی من مانی کے ذریعے قبائلی، جنگلی، آدی واسی، جن جاتی، شکاری، خانہ بدوش، پہاڑئیے جیسے خطابات دے کے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ یہ لوگ قطبِ شمالی تا آسٹریلیا دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں۔
شمالی امریکا کے لوکوٹا، وسطی امریکا کے مایا، بولیویا کے ایمارا، کرہِ شمالی کے انوئٹ اسکیموز، شمالی یورپ کے سامی، جنوبی یورپ کے روما، عراق و شام کے یزیدی، سندھ کے کوہلی، بھیل، چولستان کے اوڈھ، چترال کے کیلاش، کشمیر کے بکروال، چھتیس گڑھ کے آدھی واسی، بنگلہ دیش کے چکما، آسٹریلیا کے ایبورجنیز، نیوزی لینڈ کے ماؤری، پپوا نیوگنی اور بحرالاہل کے جزائر پر آباد قبائل، جنوب ہائے افریقہ کے پگمی۔ اصلی فرزندانِ زمین کی ہزاروں شناحتوں میں سے یہ محض چند شناختیں ہیں تاکہ آپ کو انھیں اور ان کے مسائل سمجھنے میں قدرے آسانی رہے۔
ان سب کا ہم سے مختلف لسانی و تہذیبی کلچر، روایات و اطوار ہیں۔ ان کا احترام اور ان کے شناختی تحفظ میں ان کی ہر طرح سے مدد ہی سے اس کرہِ ارض کی بوقلمونی کے احترام کا حق ادا ہو سکتا ہے۔
ان اصل باشندوں کے پاس ہزاروں برس سے وراثت میں منتقل ہونے والا وہ علم ہے جس سے استفادہ کیا جائے تو ماحولیاتی قیامت کا منہ اگر موڑا نہیں جا سکتا تو زوال کے عمل کی رفتار ضرور کم کی جا سکتی ہے۔
مگر ہم چونکہ انھیں جاہل اجڈ، کاہل اور نیم انسان سمجھتے ہیں اور کرہِ ارض تباہ کرنے کے باوجود خود کو خرد کا دیوتا کہتے ہیں اس لیے ہم یہ تک ماننے کو تیار نہیں کہ ہم سے بڑا بقراط بھی کوئی اور ہو سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں اسوقت معلوم زبانوں اور بولیوں کی تعداد سات ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے تقریباً پانچ ہزار زبانیں اور بولیاں یہی اصل باشندے بولتے ہیں۔ ان میں سے چالیس فیصد زبانیں اور بولیاں یا تو معدوم ہو چکی ہیں یا اگلے چند عشروں میں معدوم ہو جائیں گی۔
ان میں سے کچھ زبانوں کو تو اورل روایات کی ریکارڈنگ کرکے یا حروفِ تہجی مرتب کرکے محفوظ کرنے کی کوشش جاری ہے۔ مگر سب بولیوں کو محفوظ کرنا تقریباً ناممکن عمل ہے۔ چند زبانیں تو ایسی ہیں کہ ان کے بولنے والوں کی تعداد دس یا اس سے بھی کم رہ گئی ہے۔
ستر فیصد فرزندانِ ارض براعظم ایشیا میں رہتے ہیں۔ گو یہ عالمی آبادی کا پانچ فیصد ہیں مگر عالمی غربت و پسماندگی میں ان کا تناسب پندرہ فیصد تک ہے۔ چھیاسی فیصد اصل باشندے غیر رسمی معاشی پیشوں پر گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کی اوسط زندگی اکثریتی باشندوں کے مقابلے میں بیس برس تک کم ہے۔
ان کا عالمی معیشت میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریاستی پالسیوں میں ان سے مشاورت یا ان کی پارلیمانی نمایندگی لگ بھگ صفر ہے۔ جب کہ ان کے آبائی علاقوں اور وسائل، آئینی، سماجی و سیاسی و معاشی حقوق پر اکثریتی گروہ کا تسلط اور صحت و تعلیم و ترقی کے منصوبوں میں ان کی عدم شرکت لگ بھگ سو فیصد ہے۔ وبائی امراض، ماحولیاتی تبدیلیوں اور ترقی کے نام پر اکھاڑ پچھاڑ اور دربدری کا نشانہ بننے والے انسانی گروہوں میں یہ فرزندانِ ارض سب سے نمایاں متاثر گروہ ہیں۔
چونکہ ان گروہوں کے پاس جو ملکیت ہے وہ قدرتی اصولوں اور قدیم ریتی رواجوں کے تحت ہے۔ لہٰذا انھیں قانونی دستاویزات نہ ہونے کے سبب بہت آسانی سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ انھیں کچلا جا سکتا ہے اور ان کے لیے مخصوص کردہ علاقوں کی خود مختاری کا جب بھی کوئی طاقتور فرد، گروہ یا ریاستی ادارہ چاہے تیا پانچا کر سکتا ہے۔
مگر پچھلے تیس برس میں کرہِ ارض کے ان اصل باشندوں کے بنیادی حقوق کی بحالی و تحفظ پر توجہ مبذول ہونا شروع ہوئی ہے۔ اس میں خود ان باشندوں میں پھیلنے والی آگہی اور کوششوں کا بھی بہت حد تک دخل ہے۔
مثلاً دو ہزار سات میں اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے اصل باشندوں کے حقوق کے تحفظ کا عالمی اعلان نامہ جاری ہوا۔ دو ہزار سولہ میں فرزندانِ سرزمین کے حقوق کے تحفظ کا اعلانِ امریکا جاری ہوا۔ اقوام متحدہ نے ان چھوٹی اقوام اور گروہوں کی آواز مجتمع کرنے کے لیے ایک مستقل فورم قائم کیا ہے جب کہ ان مقامی باشندوں کے حقوق کی بابت ایک خصوصی ایلچی بھی مقرر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تحت انیس سو چورانوے سے ہر برس نو اگست کو ان مقامی اصل نسل لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔