برطانوی مسلم کونسل کے سینٹر آف میڈیا مانیٹرنگ نے سات مقامی اور تین بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے ایک لاکھ اسی ہزار وڈیو کلپس اور اٹھائیس میڈیا ویب سائٹس کے چھبیس ہزار خبری مضامین کی چھان پھٹک کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ شایع کی ہے۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ پروپیگنڈے کا زہر کس کس طریقے سے سماج کی رگوں میں اتارا جا رہا ہے اور پھر وہ سماج اس پروپیگنڈے سے آلودہ ہو کر جو اجتماعی رائے بنا رہا ہے، ریاستی پالیسی ساز اسی رائے عامہ کو اپنے اصل مقاصد کے لیے بطور آڑ استعمال کر رہے ہیں۔
یہ رپورٹ فلسطین اسرائیل مناقشے کی تازہ کوریج کے پس منظر میں چھ صحافتی معیارت کو ملحوظ رکھ کے مرتب کی گئی ہے۔ اول، مسئلے کے پس منظر کا جانبدار بیانیہ، دوم، زبان و بیان کا مخصوص انداز میں استعمال، سوم، سوالات کی خاص ترتیب اور لب و لہجہ، چہارم، فریقین کے دعوؤں کی کوریج میں عدم توازن، پنجم، فلسطینی خبری ذرایع کو شک و شبہے کی چھلنی سے گذارنے اور اسرائیلی خبری ذرایع کو ترجیح دینے کی عادت اور ششم، فلسطین نواز مظاہروں کے مقاصد کو توڑنے مروڑنے کی کوشش۔
رپورٹ کے مطابق حقائق کو پیشہ ورانہ انداز میں پرکھے اور تصدیق کیے بغیر اسرائیلی موقف کی خبری قبولیت بیشتر برطانوی ذرایع ابلاغ میں مشترک پائی گئی۔ فلسطینی جھنڈے کو یہود دشمنی سے نتھی کیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کی حمائیت میں ہونے والے مظاہروں کی رپورٹنگ میں مسلسل یہ تاثر ابھارنے کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ مظاہرے دراصل دہشت گردی کی حمائیت اور ان کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھارنے کا ذریعہ ہیں۔
زیادہ تر میڈیائی تبصرہ نگار سمجھتے ہیں کہ اسلام یہود دشمنی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل کی فلسطینیوں کے بارے میں پالیسی اسی مذہبی نفرت کا جواب ہے اور یہ دراصل کوئی سیاسی و عسکری جبر یا زمین یا حاکم و محکوم کی لڑائی نہیں بلکہ دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا نظریاتی ٹکراؤ ہے۔
ذرایع ابلاغ کی تصویر کشی سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اگر کوئی فلسطینی ہے تو ضرور دہشت گرد یا پھر دہشت گردوں کا ہمدرد ہوگا چنانچہ وہ مغربی اقدار کا دشمن ہے اور یہاں کے سماج میں رہنے کے قابل نہیں۔
یہ مسئلہ کتنا پرانا ہے، اسرائیل کیسے بنا اور فلسطینیوں کو اسرائیل سے کیا بنیادی اختلاف ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر علاقے پر کیوں کب اور کیسے فوجی قبضہ کیا اور اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے پچھلی سات دہائیوں میں کیا کیا طریقے استعمال ہوئے۔ صیہونیت اور یہودیت میں کیا فرق ہے اور بہت سے یہودی صیہونیت مخالف اور فلسطینی کاز کے کیوں حامی ہیں اور وہ اسرائیلی اکثریت سے ہٹ کے کیوں سوچتے ہیں؟ اس بابت شاید ہی مغربی میڈیا میں کھل کے کوئی بحث دیکھنے کو ملے۔
میڈیا کوریج اس انداز سے کیا جا رہا ہے گویا یہ تنازعہ سات اکتوبر سے ہی شروع ہوا ہو اور اس کا سیاق و سباق اس قابل نہ ہو کہ تفصیلاً بتایا جا سکے۔
یہ کوریج دیکھنے والوں کے دماغ میں کچھ اس طرح کی تصویر بنتی ہے گویا ایک دن فلسطینیوں پر پاگل پن کا دورہ پڑا اور انھوں نے اسرائیل میں گھس کے بہت سے شہریوں کو ہلاک کر دیا اور کچھ کو یرغمال بنا لیا۔ اسرائیل دراصل اس دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کر رہا ہے۔ کوئی ریاست دہشت گردی برداشت نہیں کر سکتی۔
اس لیے اسرائیلی کارروائی پوری طرح جائز اور حق بجانب ہے۔ بدقسمتی سے ہر جنگ میں ہی عام شہری مرتے ہیں۔ غزہ میں جو بھی شہری مررہے ہیں ان کا افسوس ضرور ہے مگر مشکل یہ ہے کہ دہشت گرد بھی انھی عام شہریوں کے درمیان ہی رہتے ہیں۔ لہٰذا عام شہریوں کی ہلاکت ایک ناگزیر مجبوری ہے۔
عام طور پر جب بھی غربِ اردن کا ذکر کیا جاتا ہے تو صرف فلسطینی اتھارٹی کی بات ہوتی ہے۔ مقبوضہ علاقے پر چھپن برس سے نافذ اسرائیلی فوجی قوانین اور ان کے تمام فلسطینیوں پر اندھا دھند اطلاق کی بات کہیں نہیں ہوتی۔ غزہ کے بارے میں بس یہ بتایا جاتا ہے کہ وہاں حماس نامی ایک دہشت گرد تنظیم کا راج ہے۔ لہٰذا اپنے دفاع کے لیے غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی بھی جائز ہے۔ اگر فلسطینی دہشت گردی ترک کر دیں تو اسرائیل کو کیا پڑی ہے کہ وہ بار بار انھیں نشانہ بنائے۔
رپورٹ میں ایک ٹی وی شو کی مثال دی گئی کہ کس طرح دفاعی امور کے ایک ماہر کو مدعو کیا گیا اور انھوں نے انکشاف کیا کہ مقبوضہ غرب اردن پر تو دراصل فلسطینیوں کا تسلط ہے۔ پروگرام کے میزبان نے نہ تو اس دفاعی مبصر کی حیرت انگیز " تحقیق " کی تصیح کو ضروری جانا اور نہ ہی اس سے کوئی جرح کی۔
دیدہ دانستہ لاعلمی یا حقائق بدلنے کی شعوری کوشش کا یہ عالم ہے کہ ایک چینل پر جب تباہ شدہ غزہ کے ایک انتہائی خوفزدہ زخمی بچے دکھایا جا رہا تھا تو اس کے فٹ ایج پر لکھا تھا " مسخ کیا جانے والا اسرائیلی بچہ "۔
جس قاری یا ناظر کا دل و دماغ مسلسل خام پروپیگنڈے سے بھرا جا رہا ہو وہ ایک دن خود نفرت اگلنا شروع کر دیتا ہے اور اس کا زہر اپنے سے مختلف نظر آنے والے اجنبی بے قصوروں پر طرح طرح سے پوشیدہ و اعلانیہ انداز میں نکلتا ہے۔ یوں سب مسلمانوں یا عرب اور فلسطینیوں کو ایک اجتماعی نفرتی قوس میں جمع کرکے ان کے بارے میں مجموعی رائے قائم کی یا کروائی جاتی ہے۔
ثبوت یہ ہے کہ اکتوبر سے فروری تک پانچ ماہ میں برطانوی مسلمانوں سے اظہارِ نفرت کے دو ہزار سے زائد واقعات پیش آئے۔ یہ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران ہونے والے نفرتی وارداتوں سے تین سو پینتیس گنا زائد ہیں۔ پانچ ماہ کے دورانئیے پر مشتمل رائے عامہ کے سروے کے مطابق بیس فیصد غیر مسلم برطانوی شہریوں نے مسلمانوں کو قابلِ نفرت گردانا ہے۔ اس نفرت کا اظہار اسکولوں، اعلیٰ تعلیمی اداروں، سڑک اور دفاتر میں دیکھا گیا کیونکہ میڈیا اپنی متعصبانہ کوریج کے ذریعے دانستہ یا نادانستہ ایک عام شہری کو یہی سکھا اور بتا رہا ہے۔
برطانوی میڈیا خود کو نسبتاً آزاد، ذمے دار اور کسی حد تک غیر جانبدار سمجھتا ہے۔ ان دعوؤں کے باوجود غزہ کے بحران کی کوریج دیکھی جائے اور اس ضمن میں برطانوی " ذمے دار میڈیا " پر بھی انگلیاں اٹھیں تو سوچئے ان ممالک کے میڈیا کا کیا حال ہوگا جو برطانوی میڈیا کے برعکس شفافیت و غیر جانبداری کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے۔