لگتا تھا کہ کوویڈ کے دو برس پر پھیلے تباہ کن معاشی و انسانی اثرات نے کم ازکم کچھ عرصے کے لیے انسان کو انسان کا بچہ بنا دیا ہے۔ مگر ایسا ممکن نہیں۔
اعلیٰ ترین طاقتور کرسیوں پر جو فیصلہ ساز قابض ہیں وہ تاریخ میں کسی بھی طرح سے اپنا نام کندہ کرانے کی ہوس میں ہر پست حربے کو اعلیٰ قومی و نظریاتی و اخلاقی جوازات کے چمکیلے حیلوں میں پیک کر کے بیچنے کے ماہر ہیں۔
ان کے اس مہارتی اعتماد کے پیچھے وہ مشیر، سوداگر، بچولیے اور اسلحہ ساز سیسہ پلائی دیوار کی طرح کندھے سے کندھے ملا کے یوں کھڑے ہیں کہ زندگی بھی انھیں دیکھ کے شرم سے سر جھکا لیتی ہے۔ یہ وہ نام نہاد ارفعین ہیں جو موت کو بھی نیلام کرنے سے نہیں چوکتے۔
اسلحے کی عالمی تجارت پر نظر رکھنے والے موقر ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کوویڈ سے معیشت و سماج کے تہہ و بالا ہونے کے باوجود اسلحے کی عالمی تجارت نے پہلی بار دو ٹریلین ڈالر کا ہندسہ پار کر لیا۔ سالِ گزشتہ میں اقوامِ عالم نے دو اعشاریہ ایک ٹریلین ڈالر کا اسلحہ خریدا اور بیچا۔
البتہ اسلحے کی تجارت میں باسٹھ فیصد حصہ صرف پانچ ممالک کا ہے (امریکا، چین، بھارت، برطانیہ اور روس)۔ باقی ایک سو اٹھاسی ممالک کے مجموعی دفاعی اخراجات اڑتیس فیصد ہیں۔ اسلحے پر عالمی اخراجات میں پچھلے سات برس سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اب یہ خرچہ سرد جنگ کے زمانے سے بھی کہیں بڑھ گیا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے سبب اب سے تیس برس پہلے دنیا میں امن کے ایک نئے دور اور بلوغت کے پھیلاؤ کی جو توقعات باندھی گئی تھیں وہ فوراً ہی منہ کے بل گر گئیں اور اب تاحدِ نگاہ نام و نشان تک نہیں۔
نام نہاد عالمی چوہدریوں کی بلوغت کا یہ عالم ہے کہ انھیں یہ غم نہیں کہ اب سے نصف صدی بعد کرہِ ارض کا درجہِ حرارت اس قدر بڑھ جائے گا کہ یہ زمین رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ انھیں بس یہ فکر ہے کہ آج کے دن ان کی ناک اور دبدبہ بنے رہیں بھلے کل قدرتی آفات انھیں پورا پورا ہی پچھاڑ ڈالیں۔
سپری کی رپورٹ کے مطابق امریکا کا دفاعی بجٹ آج بھی باقی چار طاقتوں کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ حالانکہ دو ہزار اکیس میں اس کے دفاعی خرچے میں ایک اعشاریہ چار فیصد کی کمی بتائی گئی۔
گزشتہ ایک دہائی میں نئے اسلحے کی تحقیق و ترقی کے امریکی بجٹ میں چوبیس فیصد اضافہ ہوا جب کہ اسلحے کی خریداری کے بجٹ میں ساڑھے چھ فیصد کمی ہوئی۔ ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں روایتی اسلحہ کی نسبت جدید مگر زیادہ تباہ کن اسلحے پر امریکا کی توجہ اور انحصار بتدریج بڑھا ہے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ اگر دس روایتی بندوقیں سو روپے کی آتی ہیں۔ تو انھی دس بندوقوں کے برابر نتیجہ دینے والی ایک جدید ترین اور اگلی پانچ دہائی تک کارآمد بندوق اگر اسی روپے میں پڑے تب بھی تباہ کاری کی صلاحیت متاثر ہوئے بغیر بیس روپے کی بچت ہو گی اور پرانا اسلحہ استعمال کرنے والی طاقتوں پر ٹیکنالوجیکل اور عسکری برتری بھی برقرار رہے گی۔
اسلحے پر خرچہ کرنے والا دوسرا بڑا ملک چین ہے۔ وہ گزشتہ ستائیس برس سے اپنا دفاعی بجٹ مسلسل بڑھا رہا ہے۔ دو ہزار اکیس میں بھی چین کے دفاعی اخراجات میں پونے پانچ فیصد اضافے کے ساتھ اس کے دفاعی بجٹ کا حجم دو سو ترانوے ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ مگر دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود چین کا دفاعی بجٹ امریکا کے مقابلے میں لگ بھگ ڈھائی گنا کم ہے۔
البتہ چین کے ہمسایہ ممالک نے بھی بطور حفظِ ماتقدم دفاعی خرچہ بڑھا دیا ہے۔ مثلاً چین کے ہمسائے بھارت نے گزشتہ برس ستتر ارب ڈالر خرچ کیے۔ یہ اخراجات دو ہزار بیس کے مقابلے میں اگرچہ محض اعشاریہ نو فیصد ہی زائد تھے مگر بھارت کے عسکری اخراجات امریکا اور چین کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں۔
چین کے مشرقی ہمسائے جاپان نے دو ہزار اکیس میں اپنے دفاعی اخراجات میں سات اعشاریہ تین فیصد (سات ارب ڈالر) کا اضافہ کیا۔ انیس سو بہتر کے بعد سے جاپانی فوجی اخراجات میں یہ سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔ آسٹریلیا نے اپنے فوجی بجٹ میں گزشتہ برس چار فیصد کا اضافہ کیا اور بتیس ارب ڈالر عسکریات پر صرف کیے۔
دو ہزار بیس تک سعودی عرب اسلحے پر خرچ کرنے والا چوتھا بڑا ملک تھا مگر یمن کی جنگ کے سبب خزانے پر پڑنے والے بوجھ کے نتیجے میں چھپن ارب ڈالر سالانہ کے سعودی دفاعی خرچے میں سترہ فیصد کی تخفیف ہوئی۔ لہٰذا اب اس کی جگہ چوتھے پائیدان پر برطانیہ آ گیا ہے جس نے گزشتہ برس اپنے دفاعی اخراجات میں تین فیصد اضافہ کر کے انھیں اڑسٹھ ارب ڈالر تک پہنچا دیا۔
یوکرین کی لڑائی تو تازہ بات ہے۔ روس پچھلے تین برس سے اپنے دفاعی اخراجات میں تین فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ کرتا آ رہا ہے اور گزشتہ برس اس کا دفاعی بجٹ چھیاسٹھ ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ روس اسلحے پر صرفہ کرنے والے چوٹی کے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔
اگر مجموعی قومی آمدنی کے تناسب سے دیکھا جائے تو دفاعی اخراجات کل روسی قومی آمدنی کے چار اعشاریہ ایک فیصد کے برابر ہیں۔ اور یہ تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود یوکرین میں جنگ کے تیسرے مہینے میں بھی روس طے شدہ اہداف حاصل نہیں کر پایا۔ حالانکہ یوکرین کی فوجی قوت روس سے پانچ گنا کم ہے۔
جزیرہ نما کرائمیا پر دو ہزار چودہ میں روسی قبضے کے بعد سے یوکرین نے اپنے دفاعی بجٹ میں مجموعی طور پر بہتر فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ مگر اب بھی روس کے چھیاسٹھ ارب ڈالر کے فوجی بجٹ کے مقابلے میں یوکرین کا چھ ارب ڈالر دفاعی بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ البتہ جب سے جنگ چھڑی ہے یوکرین کو ناٹو کی جانب سے دفاعی امداد کا اربوں ڈالر کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے تاکہ جب تک وہ روس کے مقابلے میں کھڑا رہ سکتا ہے کھڑا رہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ دنیا میں روس کی دفاعی قوت کا ٹھٹھا اڑتا رہے۔
یوکرین کی جنگ کے بعد سے ناٹو کے پچیس رکن ممالک کے مجموعی دفاعی اخراجات میں بھی اچھا خاصا اضافہ ناگزیر ہے۔ یہ اضافہ کم ازکم اگلی ایک دہائی تک ہوتا رہے گا۔ اسلحہ ساز کمنپیوں اور ان کے ریاستی و غیر ریاستی دلالوں کے لیے اس سے بہتر خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے؟