اقوامِ متحدہ کا ہدف ہے کہ دو ہزار تیس تک دنیا سے بھک مری کا خاتمہ ہو جائے، مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اس وقت جنگوں، خانہ جنگی، کوویڈ کے اثرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب آٹھ سو اٹھائیس ملین انسان بھک مری میں مبتلا ہیں اور ان میں سے نصف قحط کے دہانے پر ہیں۔
یہ تعداد چھیالیس ممالک میں بستی ہے۔ ان میں سے اٹھائیس ممالک کا تعلق افریقہ سے ہے۔ گویا پاکستان سمیت کم ازکم چھیالیس ممالک دو ہزار تیس تک بھک مری سے نجات تو خیر کیا پائیں گے، بھوکوں کی تعداد میں اضافہ ہی روک لیں تو بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔
بھوک یا غذائی قلت محض پیٹ بھر کھانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ایک نسل کی بھوک کے اثرات اگلی نسل کو بھی منتقل ہوتے ہیں۔ مثلاً آج جو بچے غذائی قلت میں مبتلا والدین کے ہاں پیدا ہو رہے ہیں، ان کی جسمانی نشوونما ماں کے پیٹ سے ہی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
پیدائش کے وقت ان کا وزن نارمل سے کم ہوتا ہے چنانچہ ان کی جسمانی و ذہنی پرداخت اور قدکاٹھ پر دورس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے دو خطوں میں نارمل اسکیل سے کم وزن اور قد کے بچے سب سے زیادہ پیدا ہو رہے ہیں۔ افریقہ کے صحارا پار ممالک اور جنوبی ایشیا۔ اس بارے میں ملک وار گوشوارہ مرتب کیا جائے تو پاکستان دنیا کے پانچ چوٹی کے ممالک میں شامل ہے۔
جہاں پیدا ہونے سے پہلے ہی بچے ناکافی غذائیت کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ کہنے کو پاکستان چاول اور گندم جیسی بنیادی اجناس کی نوے فیصد ضرورت اپنی زمین سے ہی پوری کر لیتا ہے۔ مگر پچھلے چار برس سے مسلسل بڑھتی آبادی کے سبب پاکستان بنیادی غلے میں خودکفیل ممالک کی صف سے نکل کے بیرونی دنیا سے اناج خریدنے والے ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔
اس برس بھی پاکستان اپنی ضروریات کی دس فیصد گندم باہر سے خرید رہا ہے۔ گویا زرِ مبادلہ کے محدود ذخائر پر اضافی دباؤ پڑ رہا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ گزشتہ برس سیلاب نے پاکستانی معیشت کو لگ بھگ تیس ارب ڈالر کا جو دھچکہ دیااور کھڑی فصلوں کو دس کروڑ ڈالر کا جو نقصان پہنچا، سارا الزام ان پر دھرنا درست نہ ہوگا۔ بلکہ سرکاری دعوؤں کے مطابق سیلاب کے بعد گندم کی جو فصل کاٹی گئی وہ " بمپر کھیتی " کہی جا رہی ہے۔ پھر بھی پاکستان کو اس برس دو ارب ڈالر کی اضافی روسی گندم منگوانا پڑی ہے۔
بھک مری یا ناکافی غذائیت میں محض اجناس کی کمی بیشی کا کردار نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں غلے کی کوئی قلت نہ ہو لیکن افراطِ زر اور اس کے نتیجے میں قوتِ خرید کی مسلسل کمی گھر میں دو وقت کی روٹی نہ ہونے کا سبب بن رہی ہو۔
پاکستان بظاہر نہ تو صومالیہ، چاڈ، انگولا، کانگو یا مڈغاسگر ہے جہاں خوراک کا اسی فیصد دار و مدار غذائی درآمدات پر ہے۔ پھر بھی پاکستان ناکافی غذائیت کی عالمی فہرست میں نمایاں کیوں ہے؟
اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں غلے کی خریداری، تقسیم کاری، چور بازاری، کرپشن اور ذخیرہ اندوزی نے ہاتھ ملا رکھا ہے۔ اسی لیے پاکستان جیسے زرعی ملک میں گزشتہ ایک برس کے دوران آٹے کی قیمت میں لگ بھگ سو فیصد اضافہ ہوا۔
کم و بیش یہی حال چاول کا ہے۔ ایک برس قبل ایک مزدور اوسطاً اسی روپے میں دال چاول کی پلیٹ یا ایک سبزی اور دو روٹی سے پیٹ بھر لیتا تھا۔ آج اسے یہی مینیو کم ازکم ڈیڑھ سو روپے میں دستیاب ہے۔
زرعی ہونے کے دعویدار ملک کے بڑے بڑے شہروں میں آپ کو خیراتی کھانے کی لائنیں مسلسل طویل ہوتی نظر آئیں گی۔ یہ لائنیں بتاتی ہیں کہ خوراک کی کمی اتنی نہیں جتنی کہ قوتِ خرید کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ تو کیا اچھے دن آنے والے ہیں؟ افراطِ زر گزشتہ ایک برس میں اڑتیس فیصد تک جا پہنچا ہے۔
اسے کنٹرول کرنے کے لیے قومی شرحِ سود کو تئیس فیصد تک بڑھانا پڑا ہے۔ روپیہ ایک برس میں اپنی پچاس فیصد قدر کھو چکا ہے۔ ملکی معیشت کا حجم اگرچہ ساڑھے تین سو ارب ڈالر بتایا جاتا ہے مگر اس میں بڑھوتری کی رفتار گزشتہ برس صفر اعشاریہ پانچ فیصد اور اس برس صفر اعشاریہ چھ فیصد تک بتائی گئی ہے۔
جب کہ آبادی کی شرح میں سالانہ اضافہ لگ بھگ دو فیصد ہے۔ گویا ملکی معیشت کا حجم اگر سالانہ ڈھائی فیصد بھی بڑھے تو آبادی کی شرح میں اضافے سے اسے مائنس کرنے کے بعد معیشت میں اصل اضافہ نصف فیصد ہی مانا جائے گا۔
اس پر طرہ یہ کہ اگلے تین برس میں یعنی جون دو ہزار چھبیس تک پاکستان کو قسط اور سود کی مد میں ستتر ارب ڈالر واپس کرنے ہوں گے۔ معیشت کا پہیہ رواں نہیں ہوتا اور روانی کے بعد بھی اگر اقتصادی شرحِ نمو کم ازکم چھ فیصد تک نہیں پہنچتی، سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے زرِ مبادلہ میں اس عرصے میں کم ازکم پچاس فیصد تک اضافہ نہیں ہوتا۔ روپیہ مستحکم نہیں ہوتا، آئی ایم ایف کا ایک اور بھاری انجکشن لگوانا پڑ جاتا ہے۔
ٹیکس کا جال مزید نہیں پھیلتا اور یہ سب پورا کرنے کے لیے عام آدمی پر بلاواسطہ اور تنخواہ دار طبقے پر براہِ راست ٹیکس میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی پانی گیس پٹرول کی قیمتیں نیچے آنے کے بجائے اور بڑھتی ہیں۔
تو پھر متوسط طبقہ جو گزشتہ ایک برس میں بارہ فیصد تک سکڑ گیا ہے۔ مزید سکڑے گا۔ جو طبقات پہلے ہی سے زمین سے لگے پڑے ہیں وہ اور دھنستے چلے جائیں گے۔ یعنی اجناس ہوں گی مگر خریدنے کی اوقات نہیں ہوگی۔ یعنی ناکافی غذائیت کا معاملہ مزید ابتر ہوگا اور اس کا اثر ہر نئے پیدا ہونے والے بچے پر براہ راست پڑے گا۔
یہ منحوس چکر توڑنے کے لیے جس طرح کی ذزہانت، جانفشانی، معاملہ فہمی، غیر روایتی حکمتِ عملی اور ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت درکار ہے، وہ فی الحال ہر جانب مفقود نظر آتی ہے۔
گویا انتخابات وقت پر ہو بھی جائیں تب بھی انسانوں کی طرح جمہوریت بھی ناکافی غذائیت کا شکار رہے گی۔ تان پھر وہیں ٹوٹتی ہے کہ جتنا میسر ہے اس کی تقسیم بھی اگر مساویانہ ہو جائے تو آدھا مسئلہ حل ہو جائے۔ وگرنہ آپ جمہوریت کے کنوئیں سے مفاداتی کتا نکالے بغیر بھلے سو ڈول پانی نکال لیں، کنواں خشک تو ہو جائے گا، مسئلہ تب بھی حل نہیں ہوگا۔