اس پانچ اگست کو بابری مسجد کے ملبے پر رام مندر کی بنیاد رکھی گئی۔ پچھلے پانچ اگست کو ڈوگرہ ریاست جموں و کشمیر کی نیم خود مختارانہ آئینی بنیاد اکھاڑ دی گئی۔ مگر آج سے ساٹھ برس پہلے پانچ اگست انیس سو ساٹھ کو مغلِ اعظم ریلیز ہوئی۔ برصغیر کی فلمی تاریخ میں اس سے پہلے اور نہ بعد میں ایسی عظیم الشان فلم بنی۔
ویسے تو بہت سی فلمیں ہیں جن کی ایک یا دو لائنیں نسل در نسل سفر کرتی ہیں مگر آج تک دو ہی ایسی فلمیں بنی ہیں جن کا ہر کردار لوگوں کو ازبر ہے۔ مغلِ اعظم اور شعلے۔ مگر مغل اعظم کیسے بنی؟ خود یہ کہانی بھی ایک بہت بڑی فلم کا مواد ہے۔
انیس سو بائیس میں امتیاز علی تاج نے ڈرامہ انارکلی تخلیق کیا۔ انیس سو بائیس میں ہی اترپردیش کے قصبے اٹاوہ میں کریم الدین آصف (کے آصف)پیدا ہوئے۔ انھیں درزی کا کام آتا تھا۔ قسمت آزمائی کے لیے بمبئی آ گئے اور پھر فلمی دنیا کا حصہ بن گئے اور پھر ہدائیت کاری شروع کر دی۔ خبطی مشہور تھے۔ کبھی گاڑی نہیں خریدی، کبھی گھر نہیں بنایا، کبھی فلم بناتے وقت پیسہ لگانے والے سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اسی لیے بہت کم فلمیں بنائیں۔
امتیاز علی تاج نے انار کلی اگرچہ اسٹیج کے لیے لکھا تھا مگر اس بھاری بھر کم کہانی کے لیے سیٹ کی تیاری اور کاسٹیوم کا خرچہ ہی پارسی فنانسرز کے ہاتھ پاؤں پھلا دیتا تھا۔ معمولی سیٹ پر یہ ڈرامہ ہوا مگر چل نہیں پایا۔ البتہ خاموش فلموں اور پھر ٹاکیز کے دور میں اردشیر ایرانی نے اسے دو بار فلمایا لیکن ناظر کی توجہ نہ حاصل کر پایا۔
انیس سو چوالیس میں جب کے آصف پرتھوی راج کپور کے مرکزی کردار کے ساتھ فلم بھول بنا رہے تھے تو اس دوران کمال امروہوی نے انھیں انارکلی کی کہانی سنائی۔ کے آصف کے کان کھڑے ہوئے اور انھوں نے پورا ڈرامہ سننے کے بعد اسے فلمانے کا فیصلہ کیا۔ بھول کے پروڈیوسر شیراز علی حکیم بھی پیسہ لگانے پر راضی ہو گئے۔ انھوں نے بمبئی ٹاکیز اسٹوڈیو خرید کے اس پروجیکٹ کے لیے کے آصف کے حوالے کر دیا۔
اکبرِ اعظم کا کردار چندر موہن کو ملا، شہزادہ سلیم سپرو اور انارکلی نرگس بنیں۔ انیس سو پینتالیس میں شوٹنگ شروع ہوئی۔ ڈیڑھ برس میں آٹھ ریلیں شوٹ ہوئیں کہ تقسیم کا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ پروڈیوسر شیراز علی حکیم جناح صاحب کے کھلم کھلا پرستار تھے۔ لہٰذا تقسیم کے بعد ان کا بمبئی میں رہنا دوبھر ہو گیا۔ راتوں رات اونے پونے سنے بلڈنگ اور بمبئی ٹاکیز اسٹوڈیو کا سودا کیا اور پاکستان روانہ ہو گئے۔
کے آصف کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کریں۔ مگر وہ نچلے بیٹھنے والے کہاں تھے۔ انھوں نے لیلی مجنوں شروع کر دی اور شہید بھگت سنگھ اور قلوپترا نام کی دو فلمیں بنانے کا بھی اعلان کر دیا۔ مگر دماغ کسی ایسے فنانسر کی تلاش پر لگا ہوا تھا جو انارکلی جیسی بھاری بجٹ فلم کو سہار سکے۔
بمبئی میں ایک پارسی خاندان گروپ شاہ پور مستری گروپ کے نام سے عرصے سے کاروبار کر رہا تھا۔ فلمی دنیا سے شاہ پور مستری کا دور دور تک لینا دینا نہیں تھا۔ مگر کے آصف کو کہیں بھنک پڑ گئی کہ ان کے سابق فلمی فنانسر شیراز علی حکیم پاکستان جانے سے پہلے اپنے کچھ اثاثوں کی دیکھ بھال اس امید پر شاہ پور کے ذمے لگا گئے ہیں کہ حالات جلد معمول پر آ جائیں گے۔
کے آصف نے پتہ لگا لیا کہ شاہ پور کو اکبر بادشاہ کا دور پسند ہے اور پرتھوی راج کپور ان کا پسندیدہ اداکار ہے جس کا پرتھوی تھیٹردیکھنے وہ باقاعدگی سے اوپرا ہاؤس جاتے ہیں۔ کے آصف نے بھی اوپرا ہاؤس کے چکر لگانے شروع کر دیے اور ایک دن شاہ پور مستری کے ساتھ بات کرنے کا موقع مل گیا۔
بقول سعادت حسن منٹو کے آصف ایسا بازی گر ہے جو کہانی سناتے وقت ہر لفظ اور منظر کو اپنی جسمانی حرکات و سکنات و تاثرات سے درشانے پر قادر ہے اور سننے والے پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ چنانچہ شاہ پور مستری کو کے آصف نے اکبر اور پرتھوی راج کپور کو ایک دوسرے میں دکھا کر شیشے میں اتار لیا۔
مگر اس بار کے آصف نے انارکلی کی کہانی کو ایک عام سی رومانی داستان کے مرتبے سے اٹھا کر ایک شہنشاہ کی اندرونی کش مکش کا محور بنا دیا۔ یوں پرانی فلم انارکلی کے کھنڈر پر مغلِ اعظم کا جنم ہوا۔ کے آصف نے اکبرِ اعظم کا جو نقشہ اپنے ذہن میں بنا رکھا تھا اس پر پرتھوی راج ہی پورے اترتے تھے۔ سلیم کے کردار کے لیے دلیپ کمار کو چنا گیا۔ اسکرپٹ و اسکرین پلے کے آصف، بھوپال سے تعلق رکھنے والے ان کے ادیب دوست امان، وجاہت مرزا، احسان رضوی اور نوشاد نے لکھا۔ چنانچہ یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ کون سی لائن کس کی عطا ہے۔
دلیپ کمار شہزادہ سلیم کے مکالموں سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اکبر کے مکالمے زیادہ طاقتور ہیں۔ مگر کے آصف نے معذرت خواہانہ یا تاویلاتی رویہ اختیار کرنے کے بجائے کہا کہ میں مغلِ اعظم بنا رہا ہوں سلیم ِ اعظم نہیں۔
اب مغلِ اعظم کے لیے انارکلی کی تلاش شروع ہوئی کیونکہ نرگس نے دلیپ کے مقابل کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ دلیپ صاحب نے وجے لکشمی کا نام تجویز کیا۔ مگر کے آصف بالکل ایک نیا چہرہ لانا چاہتے تھے۔ چنانچہ آٹھ فروری انیس سو باون کو اخبار میں اشتہار دیا گیا کہ انارکلی کی تلاش ہے۔ سولہ سے اکیس برس تک کی لڑکیاں اپنی تصویر اور کوائف کے ساتھ پندرہ مارچ تک اپلائی کریں۔ ہو سکتا ہے آپ ہی میں سے کوئی انارکلی ہو۔ آٹھ لڑکیوں کو فائنل کیا گیا۔ مگر کے آصف کے ذہن میں جو انارکلی تھی اس پر ایک بھی پوری نہیں اتری۔ ان میں سے صرف ایک اندور کی شیلا دیالا کو انارکلی کی بہن ثریا کے طور پر چنا گیا۔
کے آصف نے تھک ہار کے نوتن سے بات کی۔ نوتن نے کہا کہ جیسی انارکلی آپ کو چاہیے وہ مدھوبالا میں ہی ملے گی۔ مگر مدھوبالا سے کے آصف کی کچھ عرصے سے ان بن چل رہی تھی۔ مدھو کو نوتن نے بتایا تو وہ خود کے آصف کے دفتر پہنچیں اور کہا کہ میں انارکلی بننا چاہتی ہوں۔ یہ گفتگو مدھوبالا کی موٹر کے اندر ہی ہوئی۔ اور یوں تین منٹ کی بات چیت میں انارکلی فائنل ہو گئی۔
مغل اعظم کی شوٹنگ لگ بھگ آٹھ برس تک چلی۔ فائنل فلم بیس ریل کی تھی مگر شوٹنگ تین فلموں کے برابر کی ہوئی۔ فلم میں سب سے مہنگا سیٹ شیش محل کا ہے جو اتنا بڑا تھا کہ اسٹوڈیو فلور سے باہر تک نکل گیا۔ اس میں بلجئیم کے کانچ کے سیکڑوں ٹکڑے جڑے گئے تاکہ ہر ٹکڑے میں انارکلی نظر آئے۔ اس سیٹ پر سب سے بڑا تکنیکی معجزہ یہ تھا کہ کسی کانچ میں کیمرہ نظر نہ آئے۔ شیش محل کے سیٹ نے فلم کا آدھا بجٹ کھا لیا۔
شاہ پور جی مستری اور کے آصف میں مسلسل بڑھتے ہوئے بجٹ کو لے کر روز لڑائیاں ہوتیں اور یوں لگتا کہ آج تو فنانسر ہر صورت میں ہاتھ اٹھا لے گا۔ مگر کے آصف کی زبان میں ایسی تاثیر تھی کہ شاہ پور جی ہر بار اور پیسہ دے دیتے۔ شاید انھیں کے آصف کی دیوانگی پر یقین تھا کہ یہ خبطی جو بھی کر رہا ہے وہ نقصان کا سودا نہیں ہو سکتا۔
امتیاز علی تاج کی انارکلی میں بادشاہ، شہزادہ، کنیز اور شاہی خاندان و درباری ہیں مگر عام آدمی نہیں۔ کے آصف نے مغلِ اعظم کے اسکرپٹ میں سنگتراش کا کردار ڈال دیا اور اس کے منہ سے وہ سب کہلوایا جو ایک عام آدمی کی سوچ ہو سکتی ہے۔ فلم میں سب کرداروں کا نام ہے مگر سنگتراش کا کوئی نام نہیں کیونکہ وہ سماج کی سوچ کا نمایندہ ہے اور سماج کا نام نہیں ہوتا۔
پانچ اگست انیس سو ساٹھ کو جب یہ فلم کئی برس کے انتظار کے بعد بمبئی کے مراٹھا مندر سینما میں ریلیز ہوئی تو آس پاس کا علاقہ جام ہو گیا۔ اسی زمانے میں فضل محمود کی قیادت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم ایک ٹیسٹ کھیلنے کے لیے بمبئی میں موجود تھی۔ ٹیم نے مغلِ اعظم دیکھنے کی فرمائش کی۔ کھڑکی سے ٹکٹ ملنا ناممکن تھا لہٰذا مراٹھا مندر کے مالک مہتاب چند جی گولچا نے پوری ٹیم کو اپنے خصوصی مہمان کے طور پر سینما میں مدعو کیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ پاکستان سے جو شہری بھی آئے گا اسے لائن میں لگنے کی ضرورت نہیں وہ سیدھا اندر آ کر مینیجر کے دفتر سے اپنا پاسپورٹ دکھا کے ٹکٹ لے لے۔
( اس مضمون کا بنیادی مواد بھوپال سے شایع ہونے والی راجکمار کیسوانی کی کتاب " داستانِ مغلِ اعظم " سے لیا گیا ہے )