عذاب قسط وار ہوتا ہے جیسے الہامی کتابوں میں قدیم مصر کے عذاب کا ذکر ہے۔ ایک برس دریاِ نیل کا پانی سرخ ہو کر زہریلا ہو گیا، دوسرے برس نیل کے پانی میں کروڑوں مینڈک آ گئے اور پوری سرزمین پر پھیل گئے۔ ایک برس فصل ایسی اچھی آئی کہ لوگ لہلہا اٹھے اور دوسرے برس ایسی خشک سالی آئی کہ آنکھیں پتھرا گئیں، پھر اگلے برس زراعت اچھی ہوئی تو اچانک مشرق سے ٹڈی دل اٹھا اور یہاں سے وہاں تک فصل چٹ کر گیا۔
ایک برس ایسی وبا آئی کہ مصر میں پہلوٹی کے سب بچے مر گئے اور ایک سیلاب کے سبب نیل نے اتنا راستہ چھوڑ دیا کہ کنارے آباد شہروں میں ریت بھرنے لگی۔ الغرض لگ بھگ دس عذاب ہیں جو اتنی ہی مدت پر پھیلے ہوئے ہیں۔
عذاب کے مقابلے میں مصیبت قسط وار نہیں جوڑی میں آتی ہے۔ یہ جوڑی بدنیت حکمران اور لوٹ مار کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے۔ اندرونی نفاق اور بیرونی مداخلت کی جوڑی کی صورت میں بھی ممکن ہے۔ بدانتظامی اور بڑھتے ہوئے انسانی حادثات کی شکل میں بھی درپیش ہو سکتی ہے۔ ظلم اور قدرتی آفت مثلاً سیلاب یا زلزلے کی صورت میں بھی اتر سکتی ہے اور کورونااور ٹڈی دل کی جوڑی بن کر بھی کئی خطوں کو اجتماعی زد میں لے سکتی ہے۔
کورونا کا تو مسلسل تذکرہ ہو رہا ہے مگر اس کے جوڑی دار ٹڈی دل کی بات کم ہی ہو رہی ہے۔
کورونا کے بارے میں یہ تو طے ہے کہ وہ انسانی نظامِ صحت مسلسل آزما رہا ہے مگر یہ ثابت نہیں کہ اس کے تدارک کے لیے ہونے والے اقدامات کے سبب بھک مری بھی بڑھ رہی ہے۔ بالکل اسی طرح لگ بھگ دو برس سے مشرقی افریقہ سے بھارت تک کے نیم ہلالی خطے کو ٹڈی دل کی شکل میں کئی عشروں بعد جس اڑن عذاب کا سامنا ہے اسے بھی اگر کورونا کی طرح مسلسل غیر سنجیدگی سے لیا گیا تو بھک مری اور اجناس کی وقتی نایابی یقینی ہے۔
میرا بچپن جس علاقے میں گذرا اس کی ایک سمت صحرا میں کھلتی ہے۔ گرمیوں میں دو خطرات منڈلاتے رہتے تھے۔ ایک سیاہ، سرخ یا بھوری آندھی اور دوسرا ٹڈی دل۔ کبھی چھوٹا تو کبھی بڑا دل اور کسی برس دل نہیں بھی آتا تھا۔ ساٹھ کی دہائی تک ٹڈی دل کا حملہ بکثرت ہوتا تھا۔ پھر بھلا ہو یو ایس ایڈ کا جس نے ملیریا اور ٹڈی دل کے تدارک کے لیے فضائی اسپرے کے وسائل مہیا کیے اور یوں مقامی حکومتیں تدارک کے گر سیکھنے لگیں۔ مگر ٹڈی دل نے بھی بدلے حالات میں اپنی حکمتِ عملی اور جغرافیائی نشوو نما میں ادل بدل جاری رکھا۔
لگ بھگ ستائیس برس بعد مشرقی افریقہ سے جنوبی ایشیا تک کے ممالک کو ٹڈی دل کے پہلے بھرپور حملے کا سامنا ہے۔ بھر پور حملے کا سبب یہ ہے کہ پچھلے دو ڈھائی برس کے دوران تیز رفتار موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب قرنِ افریقہ یعنی ایتھوپیا، صومالیہ، کینیا اور مشرق میں سعودی صحرا ربع الخالی اور اومانی پٹی میں جو غیر معمولی بارشیں ہوئیں ان کے سبب صحرا میں نمی اور سبزے کی عارضی بہار آئی اور یہ عارضی جنت صحرائی ٹڈی کے لیے بہشتِ افزائش بن گئی۔
سازگار حالات میں ایک ٹڈی سو سے بارہ سو کے درمیان سالانہ تین بار انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ٹڈی دل کا جھنڈ اتنا بڑا بھی ہو سکتا ہے کہ کراچی یا لاہور کے آسمان کے رقبے کے برابر فضا چھپ جائے۔ اس جھنڈ میں کتنی ٹڈیاں ہو سکتی ہیں؟ اس کا اندازہ آپ یوں لگائیے کہ محض ایک مربع کلو میٹر کے نسبتاً چھوٹے جھنڈ میں اسی کروڑ تک ٹڈیاں ہو سکتی ہیں۔ یہ جھنڈ جب ایک سو ساٹھ سے ڈھائی سو کلومیٹر فی دن کی رفتار سے سفر کرتا ہے تو صرف پچیس منٹ میں لگ بھگ پینتیسں ہزار انسانوں کی سالانہ غذا کے برابر فصلیں چٹ کر جاتا ہے۔
ایسا نہیں کہ ٹڈی دل کے تدارک کے لیے کوئی موثر نظام نہیں۔ نوآبادیاتی دور سے فصلوں کو لگنے والی بیماریوں اور ٹڈی دل جیسی آفات سے بچنے کے لیے پودوں کے تحفظ کا محکمہ ( پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ ) موجود ہے۔ اس کا کام ہی یہی ہے کہ وہ ہمہ وقت اہم پودوں اور فصلوں کے تحفظ کے لیے مستعد رہے اور مشاورتی و تحرکی کردار ادا کرتا رہے۔
لیکن جس طرح حالیہ برسوں میں ہر ادارے کے دائرہِ کار کو اس سے بھی زیادہ کسی طاقتور ادارے کا دائرہ نگل گیا اسی طرح پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے وسائل و خود مختاری بھی وزارتِ خوراک، وزارتِ زراعت، وزارتِ ماحولیات اور این ڈی ایم اے کے درمیان بٹ بٹا گئے۔ پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی شناخت و قوت بس اتنی باقی بچی ہے جیسے کسی ٹڈی دل کی یاترا کے بعد کسی کھیت کی حالت ہوتی ہے۔
چنانچہ آپا دھاپی کی اس فضا میں یہی طے نہیں ہو رہا کہ صوبوں اور مرکز کے درمیان موثر رابطہ کاری، ٹڈی دل کے افزائشی علاقوں کے بارے میں معلومات کے بروقت تبادلے، اسپرے کے وسائل اور ٹڈی دل کی بین الاقوامی ٹریکنگ کی ذمے داری اصل میں کس کس پر عائد ہوتی ہے۔
ماضی میں بین الاقوامی رابطہ کاری کا نظام خاصا موثر تھا۔ آلات تو آج کی طرح جدید اور ڈیجیٹل نہ تھے مگر نیت صاف اور غیر سیاسی ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ عالمی ادارہِ خوراک عام طور سے ٹڈی دل کی ممکنہ افزائش کے بارے میں متعلقہ ممالک کو باخبر رکھتا تھا اور علاقائی ممالک باہمی سیاسی، علاقائی، نظریاتی اختلافات پسِ پشت ڈالتے ہوئے کم ازکم ٹڈی دل کے مقابلے میں اپنا ایک دل بنا لیتے تھے۔
مگر جب سیاسی و علاقائی دشمنیاں عروج پر ہوں تو نفرت کی یہ فضا ٹڈی دل سمیت ہر طرح کے عذاب کے پنپنے میں سازگار ہو جاتی ہے۔ مثلاً سعودی حکومت کی ساری توجہ یمن کی جنگ پر مرکوز رہی اور ربع الخالی میں ٹڈی دل کو پنپنے کا موقع مل گیا۔
ایران اور سعودی عرب میں چونکہ معلومات کے تبادلے کا فقدان ہے۔ لہذا ٹڈی دل نے بڑے آرام سے سعودی عرب سے ایران کا رخ کیا۔ وہاں سے اس کا ایک حصہ افغانستان کی جانب اور دوسراحصہ بلوچستان کی جانب مڑ گیا۔ مگر خود پاکستان میں چونکہ معلومات کے بروقت تبادلے اور تدارک کا قحط رہا لہذا آج حالت یہ ہے کہ پاکستان کے کم از کم اکاون اضلاع ٹڈی دل کی لپیٹ میں ہیں۔
وزیرِ اعظم بھک مری کے خلاف کورونا سے جہاد کر رہے ہیں جب کہ بھک مری کا باپ ٹڈی دل کے جھنڈ کی شکل میں حکومت کی پشت کے پیچھے تیار ہو رہا ہے۔ ٹڈی دل کو ٹوٹ پڑنے کے لیے اس سے بہتر ماحول اور کہاں ملے گا؟