ڈاکٹر گریگری اسٹنٹن نے نوے کی دہائی میں بوسنیا اور روانڈا میں ہونے والی منظم نسل کشی کے بعد ایسے کسی سانحے سے پیشگی خبرداری کے لیے انیس سو ننانوے میں جینو سائیڈ واچ نامی تحقیقی ادارے کی بنیاد رکھی۔ اسٹنٹن ریاست ورجینیا کی جارج میسن یونیورسٹی میں جینو سائیڈ اسٹڈیز کے شعبے سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
انیس سو نواسی میں جب ڈاکٹر اسٹنٹن روانڈا میں تھے تو انھوں نے نسل کشی کی تیاری کو مرحلہ وار دیکھتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ نسل کشی کا عمل کسی فوری سانحے کا نام نہیں بلکہ اس کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لمبی مدت سے فضا تیار کی جاتی ہے اور بڑے پیمانے پر کسی گروہ کی جسمانی بیخ کنی بالکل آخری عمل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اسٹنٹن کے نزدیک تب تک نازی جرمنی میں یہودیوں اور ہٹلر مخالف جرمنوں کی صنعتی پیمانے پر نسل کشی کی مثال ان کے سامنے تھی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ روانڈا میں کم و بیش انھی خطوط پر تیاری ہو رہی ہے جس طرح انیس سو تیس کی دہائی میں نازی جرمنی میں کی جا رہی تھی۔
ڈاکٹر اسٹنٹن نے ہوتو اکثریت کی جانب سے ریاستی سطح پر تتسی اقلیت کے بارے میں پروپیگنڈے کا مطالعہ کیا، امتیازی قوانین کو جانچا اور شناختی کارڈ پر تتسی اور ہوتو کے خصوصی اندراج سے کسی نتیجے پر پہنچے۔ انیس سو نواسی میں ہی ان کی ملاقات روانڈا کے ہوتو صدر ہوینل ہیبرے مانا سے ہوئی اور اپنے مشاہدے کی بنیاد پر خبردار کیا کہ اگر ریاستی سطح پر عملی اقدامات نہ کیے گئے تو روانڈا میں اگلے پانچ برس کے دوران کسی بھی وقت نسل کشی کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر اسٹنٹن کی پیش گوئی ہو بہو درست ثابت ہوئی اور انیس سو چورانوے میں صدر ہیبرے مانیا ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ اس کا ذمے دار تتسیوں کو قرار دیا گیا اور پھر اگلے تین ماہ میں آٹھ لاکھ تتسسی باشندے مار ڈالے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نسل کشی کا یہ سب سے بھیانک واقعہ سمجھا جاتا ہے۔
اپنے تجربے کی بنیاد پر ڈاکٹر اسٹنٹن نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے بھی پیشگی خبردار کیا۔ ان مسلمانوں کو سب سے پہلے شہریت سے محروم کیا گیا۔ پھر انھیں دہشت گرد وطن دشمن قرار دیا گیا۔ چند انتہا پسند اور متشدد بودھ راہبوں نے اپنے لاکھوں پیروکاروں کو روہنگیوں کے وجود کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اپنے لاکھوں پیروکاروں کے اذہان زہرآلود کیے۔ ان کی مدد کے لیے میانمار کی فوجی حکومت نے سرحدی حفاظت کے بہانے آپریشن شروع کر دیا۔ چنانچہ دو لاکھ سے زائد روہنگیا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور مقامی انتہاپسندوں اور فوج کے ہاتھوں لگ بھگ دس ہزار روہنگیا ہلاک ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے بقول روہنگیا اس وقت سب سے بڑا انسانی مسئلہ ہیں۔
اس ماہ کے وسط میں ڈاکٹر گریگری اسٹنٹن نے امریکی کانگریس کی خصوصی کمیٹی کے روبرو خبردار کیا کہ بھارت اس وقت نسل کشی کی کگار پر کھڑا ہے۔ یہ ماحول سن دو ہزار دو سے بنایا جا رہا ہے جب ریاست گجرات میں وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کی سرکار تھی۔
گودھرا ٹرین آتشزدگی کا ذمے دار ریاست کی مسلم اقلیت کو قرار دیتے ہوئے پہلے سے تیار مسلح ہندو گروہ مسلمان آبادیوں پر ٹوٹ پڑے اور تین دن میں ایک ہزار سے زائد مسلمان قتل کر دیے گئے۔ اس قتلِ عام سے قبل گجرات پر حکمران بی جے پی کے رہنما اپنے بیانات میں اس ریاست کو ہندوتوا کی لیبارٹری قرار دیتے رہے۔
ڈاکٹر اسٹنٹن کے مطابق گجرات حکومت نے نہ صرف فسادیوں کو بروقت لگام نہیں دی بلکہ ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی۔ انیس سو چودہ میں انتہا پسند آر ایس ایس کے کارسیوک نریندر مودی وزیرِاعظم بن گئے اور یوں ایک ریاست کے بجائے پورا ملک انتہا پسندوں کے نرغے میں آ گیا۔
ڈاکٹر اسٹنٹن نے کہا کہ دو ہزار انیس میں بی جے پی نے دوسری بار انتخاب جیتنے کے فوراً بعد واحد مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کے حصے بخرے کرنے اور ہندو اکثریتی تسلط کو یقینی بنانے کے لیے لگاتار اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔
شہریت کے نئے ترمیمی قوانین کے تحت افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے غیر مسلم شہری تو بھارت میں پناہ لے سکتے ہیں مگر مسلمان پناہ گزین اس قانونی دائرے میں شامل نہیں۔ آسام میں پاپولیشن رجسٹر سے ان تین لاکھ بنگالی شہریوں کو خارج کرنے کی پوری کوشش ہو رہی ہے جن کے پاس بھارتی شہریت کے نصف صدی پرانے دستاویزی ثبوت ہونے کے باوجود انھیں خود کو مقامی ماننے سے پورا ماحول انکاری ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بنگالی شہری خود یا ان کی دوسری تیسری نسل سے ہیں جنھیں انیس سو اکہتر کے بحرانی دور میں اندرا گاندھی حکومت نے پناہ کی پیش کش کی تھی۔
مودی حکومت آسام کی طرز پر دیگر ریاستوں میں بھی نسلی و فرقہ وارانہ درجہ بندی کے لیے کوشاں ہے۔ ڈاکٹر اسٹنٹن کے بقول ہندوتوا کا نظریہ بھارتی سیکولر آئین کی روح سے براہ راست متصادم ہے۔ آئین کے مطابق بھارت تمام شہریوں کے لیے بلا امتیاز مساوی ملک ہے۔ جب کہ ہندوتوا کے مطابق بھارت ایک ہندو دیش ہے جہاں دیگر اقلیتیں اکثریت کی خوشنودی کے رحم و کرم پر ہی رہ سکتی ہیں۔
ڈاکٹر اسٹنٹن کا یہ انتباہ گزشتہ ماہ ریاست اترا کھنڈ کے مقدس شہر ہردوار میں ہندو مذہبی رہنماؤں کی دھرم سنسد (مذہبی اسمبلی) کے انعقاد کے بعد سامنے آیا۔ اس سنسد میں ہر مقرر نے مسلمانوں کی نسل کشی پر زور دیا۔ کیونکہ ان کی نظر میں صدیوں سے بسے بیس کروڑ مسلمان اسی کروڑ ہندوؤں کے لیے بقائی خطرہ ہیں۔
ایسی وڈیوز بھی سامنے آ رہی ہیں جن میں مقامی انتہا پسند گاؤں گاؤں جا کے لوگوں سے اجتماعی حلف لیتے ہیں کہ وہ کسی مسلمان دکان دار سے نہ کوئی لین دین کریں گے، نہ زمین بیچیں گے اور گاؤں میں صرف ہندو خوانچہ فروشوں سے خریداری کریں گے اور مسلمانوں کو نہ تو کام کاج دیں گے نہ ان کی مزدوری کریں گے۔ بی جے پی کے رہنما کہتے ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہو بھی رہا ہے تو یہ مقامی انتظامیہ کا مسئلہ ہے نہ کہ ریاستی یا مرکزی سرکار کا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سابق سربراہ آکار پٹیل کا کہنا ہے کہ جینو سائڈ واچ کے انتباہ کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں فرقہ وارانہ اور نسلی تشدد کی تاریخ بتاتی ہے کہ ریاستی مشینری اور قیادت اپنی پالیسیوں اور طرزِ عمل سے مسلمانوں کے خلاف تشدد بھڑکاتی ہے اور تشدد بھڑکنے کے بعد اس پر فوری قابو پانے کے بجائے دوسری جانب دیکھنے لگتی ہے۔
انسانی حقوق کے ایک سرکردہ کارکن آپورو آنند کا کہنا ہے کہ " بی جے پی کی قیادت میں بھارت مسلمانوں اور مسیحوں کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ملک بن چکا ہے۔ انھیں سیاسی، معاشی اور نفسیاتی اعتبار سے مسلسل مار پڑ رہی ہے اور اب عدم برداشت خطرناک حدوں میں داخل ہو چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم گویا بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔"(جاری ہے)