برصغیر میں فلم کا جنم انیس سو تیرہ میں مہاراشٹر کے فلم ساز اور ڈائریکٹر دادا صاحب پھالکے کی فلم راجہ ہریش چندر کی شکل میں ہوا۔ یہ دراصل اس فلمی بارش کا پہلا قطرہ تھا جو پھر مرحلہ وار ممبئی، مدراس، کولکتہ اور لاہور تک برسی اور پچھلے ایک سو نو برس میں ایک سے ایک فلمیں دیکھنے کو ملیں۔ ان میں وہ فلمیں بھی شامل ہیں جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو گئیں اور اپنے زمانے کی فلمی بھیڑ چال کا رخ ہمیشہ کے لیے موڑ دیا۔
اس سلسلے کی ایک فلم انیس سو ستاون میں ریلیز ہونے والی مدر انڈیا تھی۔ جس میں ظلم کے خلاف ایک بیوہ کی جدوجہد اور اولاد کی پرورش اور تربیت کے چیلنج کو دکھایا گیا۔
اس دور میں چونکہ بائیں بازو کے تخلیق کار ہالی وڈ سے بالی وڈ تک چھائے ہوئے تھے لہٰذا عام آدمی کا استحصال کہانی کا مرکزہ (نیوکلس) تھا۔ اس مرکزے کے اردگرد بیسیوں کہانیوں کی بنت ہوئی۔ مظلوم ہاری اور ظالم زمیندار، خون چوس فیکٹری مالک اور خون پسینہ بہانے والا مزدور، رئیس زادہ اور بے سہارا عورت وغیرہ وغیرہ۔
ساتھ ہی ساتھ مغلِ اعظم جیس فلموں کے اثر میں کاسٹیوم فلموں اور تاریخی کہانیوں کی بھی فیتہ بند بھیڑ چال شروع ہوئی۔ امریکی ویسٹرن فلمی کلچر کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات کے نتیجے میں کاؤ بوائے فلمی نظریے نے بھی جڑ پکڑنی شروع کی۔
اس اعتبار سے انیس سو پچھتر میں بھارت میں ریلیز ہونے والی شعلے ایک اور فلمی سنگِ میل تھی۔ اس کے بعد اگلی ایک دہائی کے لیے اینگری ینگ مین کی ظلم سے نبرد آزمائی اور اس پر غلبہ حاصل کرنے کا فارمولا ہاتھ آ گیا۔
جو تجربہ ممبئی میں ہوتا وہی لاہور میں بھی دھرایا جاتا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے سن ساٹھ اور ستر کی دہائی کے کئی پاکستانی مقبول فلمی نغمے، قوالیاں اور ترانے بنا کاپی رائٹ بھارتی فلم ساز بھی بنا ڈکار سٹکنے لگے تھے۔ ہم ان کی کہانیاں فوٹو کاپی کرتے تھے اور وہ ہماری دھنیں غتر بود کر لیتے تھے۔
رمیش سپی کی فلم شعلے نے انیس سو پچھتر میں بولی وڈ کو ایک ہی جھٹکے سے روایتی نغماتی فلمی شاہ کاروں کے فریم سے اٹھا کے کہانی کو ایک نئے میدان میں کھڑا کر دیا۔ " کتنے آدمی تھے، بہوت نا انصافی ہے، اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی " جیسے جملے ایک پیڑھی سے دوسری پیڑھی کو تازہ لفظیات کی مالا میں پروتے چلے گئے۔
شعلے کی ریلیز کے سال میں ہی پاکستانی سینما کو احمد ندیم قاسمی کے افسانے گنڈاسہ نے وحشی جٹ کے فلمی روپ میں ہلکا سا جھنجھوڑا اور پھر اسی وحشی جٹ کے ہیرو مولا (سلطان راہی) نے چار برس بعد مولا جٹ کا روپ بدلا اور پاکستانی فلم انڈسٹری میں فوٹو کاپی رومانس اور " ایک تھا ہیرو اور ایک تھا ولن " کی جگہ گنڈاسہ کلچر متعارف کروا دیا۔ یعنی اپنا حق ناچ یا گا کے یا گڑگڑا کے مانگنے کے بجائے گنڈاسہ لہراتے ہوئے چھین لو۔ ناموافق حالات اور ظلم کی ایسی تیسی۔
فروری انیس سو اناسی میں سوا گیارہ لاکھ روپے میں بنائی گئی مولاجٹ نے سرحد پار شعلے کی طرح پاکستان میں کامیابی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے اور اس کی ریلیز کے ڈھائی مہینے بعد جب ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تو بقول فلم ساز سرور بھٹی لوگوں کو مولا جٹ کے ہیرو سلطان راہی کے ڈائیلاگ " مولے نوں مولا نا مارے تے مولا مر نہیں سکدا" میں بھٹو کی روح نظر آنے لگی اور ولن نوری نت نے جب مکارانہ طنز استعمال کرتے ہوئے کہا " نواں آیاں ایں سوہنیا " تو پبلک کو اس لائن میں ضیا الحق دکھائی دینے لگا۔
مارشل لا سرکار کے کسی نے کان بھرے اور تین بار مولا جٹ کی نمائش کو روکا گیا۔ دو بار عدالت سے اسٹے مل گیا اور دوسری بار فلم ساز کو خود جا کے ضیا صاحب کو سمجھانا پڑا کہ یہ قطعاً ایک غیر سیاسی فلم ہے، مگر گنڈاسہ کلچر پاکستانی فلم اور سماج کے جسد میں پھیلتا ہی چلا گیا۔
مولا جٹ کی ریلیز کے تینتالیس برس بعد جب لیجنڈ آف مولا جٹ ریلیز ہوئی تو اس نے بھی اگلے پچھلے سب ریکارڈ توڑ ڈالے۔ فلم ساز عمارہ حکمت کے ہدایت کار بلال لاشاری کے اس جدید اوتار میں سلطان راہی مرحوم کی جگہ فواد خان اور مصطفی قریشی کی جگہ حمزہ علی لے چکے ہیں۔
سب سے زیادہ محنت اسکرپٹ پر ہوئی تاکہ اوریجنل مولا جٹ کی عظمت بھی برقرار رہے اور نئے ڈھنگ سے بات بھی نئی نسل تک پہنچ جائے۔ لیجنڈ آف مولا جٹ کے ڈائیلاگ اوریجنل مولا جٹ لکھنے والے ناصر ادیب نے ہی لکھے۔ اس فلم کو بھی پرانی مولا جٹ کی طرح سازگار سیاسی ماحول ملا۔ جس میں سماجی و سیاسی کش مکش پہلے کی طرح عروج پر ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ لیجنڈ آف مولا جٹ اب تک کی سب سے مہنگی پاکستانی فلم ہے جس کو پاکستان سمیت چوبیس ممالک کی چار سو اسکرینز ایک ساتھ نصیب ہوئی ہیں اور اس نے پہلے ہی ہفتے میں ڈھائی ملین ڈالر کمائی کر کے اپنا آدھا خرچہ نکال لیا۔
یہ پہلی کمرشل پاکستانی فلم ہے جو شاید سو کروڑ کلب میں داخل ہو جائے گی اور ہم بھی کہہ سکیں گے کہ عالمی فلمی ریڈار پر پاکستانی فلم انڈسٹری بھی ایک روشن ستارہ بننے کے لائق ہو گئی ہے۔
پاکستان میں جب بہت سالوں تک گمنامی کے اندھیروں میں ہاتھ پاؤں مارنے والی فلم انڈسٹری نے دو ہزار سات میں دوبارہ پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی تو بالی وڈ کی فلموں کی نمائش نے پاکستان میں بند ہونے والے سینما گھروں کی جگہ نئے سینما بنانے کے رجحان کو پھر سے زندہ کیا۔
جب دو ہزار انیس میں بالاکوٹ حملے کے ردِعمل میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگی تو پاکستانی سینما انڈسٹری پھر سے سکڑنے لگی۔ اگلے دو برس کوویڈ کی چپیٹ نے رہی سہی فلمی امیدوں کا بھی کام تمام کر ڈالا۔ مگر مہم جو فلم ساز اور ہدایت کار پھر بھی کچھ نہ کچھ اور بہت کچھ اچھا ناظرین کو دیتے رہے۔
لیجنڈ آف مولا جٹ کی کامیابی سے مزید امید ہو چلی ہے کہ مقامی فلمی صنعت کو اگر نئی سوچ والے ان تھک ڈائریکٹرز اور خطرہ مول لینے والے انویسٹرز مل جائیں تو انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی سے بھی اونچے جھنڈے گاڑے جا سکتے ہیں۔