باقی دنیا کے لیے نیا سال اچھا ہوگا یا برا؟ مگر ایک بات طے ہے کہ فلسطینیوں کے لیے نیا سال دو ہزار بائیس سے بھی زیادہ عذاب ناک ہوگا۔ حالانکہ جانی نقصان اور تشدد کے اعتبار سے رواں سال دو ہزار پانچ میں انتفادہِ ثانی کے بعد سے سب سے زیادہ برا سال رہا ہے۔ لیکن اگلا برس شائد اس برس سے بھی دو ہاتھ آگے ہو۔
سب جانتے ہیں کہ بنجمن نیتن یاہو گذشتہ روز ایک بار پھر وزیرِ اعظم بننے سے پہلے ہی اسرائیل کی چوہتر سالہ تاریخ میں سب سے طویل عرصہ (پندرہ برس) تک وزارتِ عظمی پر فائز رہنے کا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں (انیس سو چھیانوے تا ننانوے اور دو ہزار نو تا دو ہزار اکیس)۔
مگر موجودہ سال ختم ہونے سے دو روز قبل اسرائیل کی ایک سو بیس رکنی پارلیمنٹ نے جس نئی سرکار کو چون کے مقابلے میں تریسٹھ ووٹوں کا اعتماد دیا ہے۔ اس حکومت کو اسرائیلی تاریخ کی سب سے زیادہ دائیں بازو پسند فسطائی حکومت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بار نیتن یاہو کے حکومتی شراکت داروں میں دو انتہائی متعصب صیہونی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
ان میں سے ایک کی قیادت بیزلل سموترخ کے ہاتھ میں ہے اور دوسری جماعت کی قیادت اتمار بین گویر کر رہے ہیں۔ دونوں غربِ اردن میں قائم غیر قانونی یہودی بستیوں کے رہائشی ہیں۔ دونوں نے یکم نومبر کے انتخابات میں مذہبی صیہونی اتحاد کے نام سے مشترکہ طور پر حصہ لیا اور چودہ نشستیں جیتیں۔ جیتنے والے چھ امیدواروں کا تعلق انھی غیر قانونی یہودی بستیوں سے ہے۔
دونوں جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ غربِ اردن کا علیحدہ سیاسی و جغرافیائی وجود مکمل طور پر ختم کر کے اسرائیل میں باضابطہ ضم کر لیا جائے اور اس اقدام کی ممکنہ مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کو اسرائیل کی حدود سے باہر دھکیل دیا جائے جیسا کہ انیس سو اڑتالیس میں ہوا تھا۔
بیزلل سموترخ تو گذشتہ دو برس کے دوران بیت المقدس کے قدیم محلے شیخ جراح کے فلسطینی مکینوں کو گھروں سے بے دخل کرنے اور مسجدِ اقصی کے نمازیوں پر متعدد مسلح حملے کرنے والے آباد کار گروہوں کی ذاتی قیادت بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اتمار بن گویر دو ہزار سات میں عربوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے ایک مقدمے میں سزا بھگت چکے ہیں۔
سولہ دسمبر کو اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک قانونی ترمیم منظور کر لی جس کے تحت وزارتِ دفاع کو دو حصوں میں بانٹ کر مقبوضہ علاقوں میں سویلین انتظامی امور کی دیکھ بھال کی ایک نئی وزارت تشکیل دی گئی۔ یہ قلمدان یہودی غیرقانونی بستیوں کے آباد کار رہنما اور وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے اتحادی بیزلل سموترخ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
وہ مقبوضہ فلسطین میں فوجی کارروائیوں اور پولیس آپریشن اور آباد کار بستیوں میں توسیع کے نگراں ہوں گے۔ گویا بلے کو دودھ کی رکھوالی سونپ دی گئی ہے۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل اویوو کوچاوی نے اس بابت اپنی ناپسندیدگی سے نیتن یاہو کو حلف اٹھانے سے پہلے کھل کے آگاہ کر دیا تھا۔ مگر نیتن یاہو نے بطور وزیرِ اعظم پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں غربِ اردن کی آبادکار بستیوں کے رقبے میں فوری توسیع کے منصوبے پر عمل کے وعدے کا بطورِ خاص اعادہ کیا۔ کیونکہ اسی وعدے پر انھیں دو انتہائی دائیں بازو کی نسل پرست جماعتوں کی سیاسی حمائیت میسر آئی ہے۔
دوسرے حکومتی شراکت دار اتمار بین گویر کو خزانے اور داخلی سلامتی کا قلمدان سونپا جا رہا ہے۔ اس حیثیت میں وہ نہ صرف مقبوضہ علاقوں کے مالی امور کے نگراں ہوں گے بلکہ اسرائیلی پولیس، بارڈر سیکیورٹی پولیس، پولیس چیک پوائنٹس اور اسرائیلی جیلوں کے امور بھی دیکھیں گے۔ ان جیلوں میں ساٹھ فیصد قیدی عرب نژاد ہیں اور ان میں سے نصف قیدیوں کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہے۔ حالانکہ اسرائیلی اٹارنی جنرل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دائرہ کار کو سیاسی ایجنڈے سے آلودہ کرنے کی کوششوں پر اپنے تحفظات کا کھلم کھلا اظہار کر چکے ہیں۔
اتمار بن گویر حکومت کا حصہ بننے سے پہلے بھی تین بار مسلح آبادکار جتھوں کے ہمراہ مسجدِ اقصی میں گھس چکے ہیں اور اب بحیثیت وزیرِ انھوں نے ایسی حرکت کی تو تشدد کی ایک نئی لہر پورے مقبوضہ فلسطین کو اپنی لپیٹ میں اسی طرح لے سکتی ہے جس طرح بائیس برس قبل وزیرِ اعظم ایریل شیرون کے مسجدِ اقصی کے دورے کے نتیجے میں انتفادہِ ثانی شروع ہوا اور دو ہزار پانچ تک جاری رہا۔
بیزلل سموترخ اور اتمار بن گویر کی فلسطینیوں سے نفرت کا اندازہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ انیس سو چورانوے میں الخلیل کی مسجدِ ابراہیم میں جس یہودی آبادکار باروش گولڈ سٹائین نے انتیس فلسطینی نمازیوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ یہ دونوں رہنما باروش کے اقدام کے پرجوش حمائتیوں میں شامل تھے۔
ایک اور قانون میں ترمیم کے سبب نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کی ایک اور ساجھے دار شاز پارٹی کے رہنما آریا ڈیری کے وزیر بننے کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔ آریا ٹیکس چوری کے الزام میں سزا یافتہ ہیں اور اب فوجداری قانون میں نئی ترمیم کے بعد قانوناً وزیر بننے کے اہل ہیں۔ خود وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو بھی بدعنوانی اور رشوت ستانی کی فردِ جرم میں نااہلیت کے خطرے کا سامنا ہے۔ لیکن جب تک وہ وزیرِ اعظم ہیں تب تک اس بابت عدالتی کارروائی منجمد رہے گی۔
نئی حکومت کے تیور بھانپتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیشگی بیان جاری کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ غربِ اردن کے اسرائیل میں ادغام اور یہودی بستیوں میں توسیع کے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرے گی۔ مگر نیتن یاہو کے لیے امریکی وزیرِ خارجہ کا انتباہ پیر کی جوتی کے برابر ہے کیونکہ امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس کی اکثریت ہمیشہ اسرائیل کی پالیسیوں کی ہم نوا رہی ہے اور یہ اکثریت اسرائیل کی مخالفت کو یہود مخالف ہونے کے برابر سمجھتی ہے۔
نیتن یاہو کی نئی حکومت کے عزائم کو بھانپتے ہوئے اسرائیلی حزبِ اختلاف کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے متعدد ارکان نے پارلیمنٹ کے باہر ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی۔ اس مظاہرے میں شریک ایک رکنِ پارلیمان اوفر کسیف کے بقول اسرائیل آج سے مکمل طور پر فسطائی ریاست بن گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری اس بابت کوئی قدم اٹھا سکتی ہے تو ابھی اٹھا لے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
خود اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ چند دن پہلے ایک تقریب میں مائک کھلا رہنے کے سبب یہ کہتے ہوئے پکڑے گئے کہ حکومت میں بین گویر جیسے لوگوں کی شمولیت سے پوری دنیا کو تشویش ہے۔
اردن کے شاہ عبداللہ نے ایک حالیہ انٹرویو میں امید ظاہر کی کہ نئی اسرائیلی حکومت سرخ لکیر عبور نہیں کرے گی۔ بصورتِ دیگر ہم بھی پوری طرح تیار ہیں۔