نوے کی دہائی بہت ہی پرشور تبدیلیوں کا نقطہِ آغاز تھی۔ سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا۔ پرانا عالمی نظام بکھر رہا تھا اور نئے نظام کا کچھ پتہ نہیں تھا۔
کویت پر صدام حسین کے قبضے کے سبب پورا خطہ بے یقینی کے دھاگے سے لٹک گیا تھا اور جنگ کے بادل گہرے ہوتے جا رہے تھے۔
خود انیس سو اسی کی دہائی میں بھارت نے بے تحاشا غیر ملکی قرضے لیے مگر قومی پیداوار کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتی رہی اور اس رفتار پر بین الاقوامی مالیاتی حلقے "ہندو ریٹ آف گروتھ " کی پھبتی کسنے لگے۔
بھارت انیس سو چوراسی میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد سے مسلسل معاشی گرداب میں تھا۔ راجیو گاندھی کی حکومت بوفورز توپوں کے اسکینڈل میں بدنام ہو چکی تھی۔
انیس سو نواسی میں اس اسکینڈل زدہ حکومت کو شکست ہوئی اور کانگریس کے سابق باغی وزیرِ خزانہ وی پی سنگھ نے حکومت بنائی، مگر وہ حکومت پونے دو برس ہی چل پائی اور پھر جنتا دل کی اقلیتی حکومت کانگریس کی حمایت سے وجود میں آئی اور چندر شیکھر نومبر انیس سو نوے میں وزیرِ اعظم بنے، مگر وہ کانگریس کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے رہے۔
اقتصادی تصویر یہ بن رہی تھی کہ بھارت سیاسی و علاقائی بے یقینی کے ماحول میں بیرونی تجارت کے توازنِ ادائیگی، بجٹ خسارے، روپے کی گراؤٹ اور سوویت یونین سے مقامی کرنسی میں تجارت کے سوتے خشک ہونے کے سبب ایک گہری اقتصادی دلدل میں پھنس چکا تھا۔ حالت اتنی پتلی ہوگئی تھی کہ چندر شیکھر حکومت فروری انیس سو اکیانوے میں لوک سبھا سے قومی بجٹ تک منظور نہ کروا پائی۔
انیس سو اسی کی دہائی میں ترقیاتی ڈھانچے اور صنعت کاری کی جدت کے نام پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے جو بھاری مشروط قرضے لیے گئے اب ان کی واپسی کا مرحلہ درپیش تھا۔ سود چڑھتا جا رہا تھا اور قسطیں دینا مشکل تر۔
جنوری انیس سو اکیانوے میں ریزرو بینک آف انڈیا کے خزانے میں صرف ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر باقی تھے جو بمشکل ڈھائی سے تین ہفتے کی درآمدات کور کر سکتے تھے۔ مارکیٹ کو یقین ہو چلا کہ بھارت تاریخ میں پہلی بار دیوالیے پن کا اعلان کرنے والا ہے۔
چنانچہ انتہائی اقدام کے طور پر سڑسٹھ ٹن سونا بینک آف انگلینڈ اور زیورخ کے یونین بینک کے پاس گروی رکھوایا گیا۔
اس کے عوض مئی کے مہینے میں آئی ایم ایف نے رعایتی شرح سود پر دو اعشاریہ دو بلین ڈالر کا ہنگامی قرضہ دینا منظور کیا تاکہ بھارت فوری ڈیفالٹ سے بچ جائے۔
اس دوران سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی عام انتخابات کی مہم کے دوران تامل ناڈو میں ایک جلسے میں ایک سری لنکن ٹائیگر کے خودکش حملے کا شکار ہو گئے۔ کانگریس نے چندر شیکھر کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا اور ان کی جگہ جون میں کانگریس نے پی وی نرسیمہا راؤ کی قیادت میں مرکزی حکومت تشکیل دی۔
من موہن سنگھ کو وزیرِ خزانہ اور مونٹیک سنگھ اہلووالیہ کو ریزور بینک آف انڈیا کا گورنر مقرر کیا گیا۔ یوں بھارت ایک بند گلی سے کھلی اور اصلاحی معیشت کے دور میں داخل ہوگیا۔ روپے کی قدر میں بیس فیصد کمی کا اعلان ہوا اور اسے مارکیٹ کے مدو جزر پر چھوڑ دیا گیا تاکہ ڈبکیاں لگا کے خود ہی سرکار کی انگلی پکڑے بغیر تیرنا سیکھ لے۔
بھارت نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے کیے وعدوں کے مطابق معیشت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا۔ سرخ فیتے کی بابو گیری کو ڈھیلا کر کے سرمایہ کاروں کو سہولت و مراعات دینے اور دیگر بین الاقوامی منڈیوں سے سرمایہ دار کو کھینچنے کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کیا گیا۔
جب اصلاحات کا آغاز ہوا تو بھارت کے پاس ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کا زرِمبادلہ تھا۔ آج بھارت کے زرِ مبادلہ کے زخائر چھ سو پچیس بلین ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ انیس سو اکیانوے میں بھارتی معیشت کا پیداواری حجم دو سو چھیاسٹھ ارب ڈالر تھا۔ آج وہ چین اور جاپان کے بعد ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے جس کا معاشی حجم ساڑھے تین کھرب ڈالر سے اوپر ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ بھارت میں انیس سو اکیانوے کے بعد جو جو بھی حکومتیں آئیں اور جس جس پارٹی کی بھی آئیں انھوں نے سیاسی و نظریاتی فرق کے باوجود بنیادی اصلاحی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے اپنی سائنس نہیں لڑائی اور نہ ہی اسے انا کا مسئلہ بنایا۔ بلکہ ہر حکومت اس اصلاحاتی عمل کا تسلسل برقرار رکھنے کی نئیت سے آگے ہی لے کر گئی۔
اگرچہ ان اصلاحات کے سبب بھارتی مڈل کلاس کا حجم گزشتہ تین دہائیوں میں تین گنا بڑھ چکا ہے، مگر طبقاتی عدم مساوات بھی بڑھی ہے۔
مثلاً انیس سو اکیانوے میں چوٹی کی دس فیصد آبادی میں دولت کا ارتکاز پینتیس فیصد تھا جو آج بڑھ کے پچپن فیصد تک پہنچ گیا ہے جب کہ انیس سو اکیانوے میں نچلے پچاس فیصد کمزور معاشی طبقے کی آمدنی بیس فیصد سے گھٹ کے آج تیرہ فیصد تک آ گئی ہے۔
لیکن یہ عدم مساوات طبقاتی ڈھانچے میں ارتقائی تبدیلی اور تعلیم و ہنرمندی کے فروغ اور بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب رفتہ رفتہ کم ہو سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارت بطور ریاست اب دیوالیہ پن کے خطرے سے نکل کے ایک مضبوط معاشی قوت بننے کی راہ پر چل نکلا ہے۔
تاوقتیکہ سماج کو طرح طرح کے حیلوں سے تقسیم کرنے والی پالیسیاں آگے چل کے معیشت پر خود کش حملہ نہ کر دیں۔
پاکستان کو بھی ایک من موہن سنگھ اور مونٹیک سنگھ کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں کہ قومی درد رکھنے والے معاشی ماہرین اس ملک سے ناپید ہو چکے ہیں یا بیرون ملک خدمات انجام نہیں دے رہے یا وہ اس ملک کی حالت سدھارنے کے لیے واپس نہیں آنا چاہتے۔ مگر بھارت میں ایسے لوگوں کو پالیسی سازی اور اس پر عمل درآمد کے لیے کھلا ہاتھ دے دیا گیا۔
ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ ان ماہرین سے اتنا ہی استفادہ کرنے کی عادت میں مبتلا ہے جہاں ان مالیاتی و اصلاحی پالیسیوں سے خود حکمران اشرافیہ کے بنیادی انفرادی و اجتماعی مفادات متاثر نہ ہوں۔
جب تک یہ عادت نہیں چھوٹتی تب تک ہمیں کسی محمد شعیب، ایم ایم احمد، وی اے جعفری، اسد عمر، حفیظ شیخ، شوکت عزیز، شوکت ترین اور اسحاق ڈار پر ہی گذارہ کرنا پڑے گا۔ کوئی من موہن سنگھ سامنے نہیں آئے گا۔