دو ہزار انیس میں جب دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے احاطے میں سیکڑوں طلبا کئی دن تک "ہم لے کے رہیں گے آزادی" کا نعرہ لگا رہے تھے تو مودی سرکار نے یہ سوال اٹھایا کہ آخر کس سے آزادی مانگ رہے ہو؟ انگریز تو سینتالیس میں چلے گئے۔ اس پر طلبا یونین کے صدر کنہیا کمار نے کہا کہ ہم ریاست سے نہیں ریاست میں آزادی مانگ رہے ہیں۔
عمران خان نے بھی لاہور کے جلسے میں "سینتالیس سیریز" کے تحت تحریک آزادی پارٹ ٹو کا اعلان کرتے ہوئے تمام شہریوں اور سیاسی کارکنوں سے اس آنڈولن میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ پہلی تحریکِ آزادی کا مرکزی نعرہ بھی غیر ملکی تسلط سے آزادی تھا اور آزادی کی تحریکِ دوم کا نعرہ بھی غیرملکی غلامی اور مقامی ٹوڈیوں سے آزادی ہے۔
پہلی تحریکِ آزادی بھی منٹو پارک سے شروع ہوئی اور دوسری تحریکِ آزادی بھی منٹو پارک سے شروع کرنے کا اعلان ہوا ہے۔ پہلی تحریک کے نتیجے میں ملک آزاد ہوا۔ دوسری تحریک خارجہ پالیسی کو آزاد کرانے کے لیے ہے۔
اس بابت خان صاحب کا ماڈل بھارتی خارجہ پالیسی ہے۔ وہ ہر خطاب میں یاد دلاتے ہیں کہ بھارت نے گذری سات دہائیوں میں کس طرح اپنا آزادانہ تشخص برقرار رکھا اور باقی دنیا سے اپنی شرائط پر اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہوئے فوائد بھی اٹھائے اور بین الاقوامی وقار بھی برقرار رکھا اور اس عرصے میں دنیا کی سب سے بڑی اور مسلسل جمہوریت ہونے کا تاثر بھی ہلنے نہیں دیا۔
اس بھارتئیے چمتکار کا تازہ ترین ثبوت خان صاحب یہ پیش کرتے ہیں کہ ہم نے روس کا دورہ کیا تو مابدولت نے ایک سازش کے ذریعے میرا تختہ الٹوا دیا۔ لیکن بھارت علاقے میں امریکا کا قریبی ساجھے دار ہونے کے باوجود روس سے تیل لے رہا ہے۔
حالانکہ جو بائیّڈن نے بھارت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ فی الحال مغربی دنیا کی یوکرینی حساسیت کا احترام کرتے ہوئے روس سے تجارتی مراسم کم کر دے۔ مگر بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر نے امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا کہ بھارت آج بھی اتنا ہی روسی تیل خرید رہا ہے جتنا مغربی یورپ کے ممالک آدھے گھنٹے میں خرچ کر دیتے ہیں۔ پہلے آپ یورپی اتحادیوں کو سمجھائیے پھر ہم سے بات کیجیے۔
تس پر امریکی سوائے کسمسانے کے کچھ نہ کر پائے۔ انھوں نے بھارت کو مزید سمجھانے کے لیے برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن کو دلی بھیجا۔ انھوں نے وہاں اترتے ہی کہا کہ ہم بھارت کو خارجہ پالیسی پر لیکچر دینے نہیں آئے مگر امید کرتے ہیں کہ بھارت حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے یوکرین کے معاملے میں "آزاد دنیا " کی تشویش میں شمولیت پر غور کرے گا۔
بھارت کی طرح جب پاکستان نے بھی اس بحران میں غیر جانبدار رہنے کی کوشش کی اور اقوامِ متحدہ میں یوکرین کے معاملے پر روسی مذمت سے گریز کرتے ہوئے غیر حاضری کا راستہ اختیار کیا تو بقول خان صاحب امریکا سے یہ گستاخی برداشت نہ ہو سکی اور اس نے " امپورٹڈ حکومت " مسلط کر دی۔
ایک لمحے کے لیے خان صاحب کے زاویے سے اتفاق کر بھی لیا جائے تو پھر ان عوامل کو دیکھنا پڑے گا جن کے نتیجے میں بھارت کو تو کشمیر سمیت سات خون معاف ہو جاتے ہیں اور پاکستان سے مستعد وفاداری کے باوجود معمولی ملازم جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
کیا واقعی بھارت کی خارجہ پالیسی اتنی ہی آزاد ہے جتنی خان صاحب بتاتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آزادی کے بعد بھارت نے پہلے امریکا پھر سوویت یونین اور پھر امریکا کا دامن پکڑا۔ مگر اس سلیقے سے کہ آزاد خارجہ پالیسی کی پوشاک پر چھینٹا بھی نہیں پڑنے دیا۔ تو کیا مسئلہ آزادی کا ہے یا سلیقہ مند غلامی کا؟
اس دنیا میں ہر چھٹا شخص بھارتی ہے اور یہ کہ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس رہتی ہے اور یہ کہ بھارت مغربی مصنوعات کی ایک اہم منڈی ہے۔ اور یہ کہ بھارت کے پاس وہ ضروری انفرااسٹرکچر اور اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت موجود ہے جس کے بل پر مغربی کمپنیاں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز اپنے آبائی ملک کے مقابلے میں کم لاگت میں زیادہ سرمایہ کاری کر کے زیادہ منافع کما سکتی ہیں۔
اور یہ کہ چین اور امریکا کے روز بروز کشیدہ تعلقات کے سبب گویا بھارت میں غیرملکی سرمایہ کار کو ایک متبادل کشش دکھائی دیتی ہے اور سرکاری پالیسیاں بھی اس کی معاونت و حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اور اس بہانے بھارتی کمپنیاں غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر جدید ٹیکنالوجی کو " میک ان انڈیا " کے فروغ کے لیے ریاستی حمایت سے خوب حاصل کر کے مغربی صارفین میں اپنی برانڈنگ کرتے ہوئے مغرب کی آؤٹ سورسنگ کی ضرورت سے بھی بجا طور پر فیض یاب ہو رہی ہیں۔
اس وقت امریکی نائب صدر ایک بھارتی نژاد خاتون ہیں۔ چار بھارتی نژاد امریکی شہری ایوانِ نمایندگان کے رکن ہیں اور چاروں ڈیموکریٹ ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے اسپیچ رائٹر ونے ریڈی، اقوامِ متحدہ سے متعلق وائٹ ہاؤس کے پالیسی ایڈوائزر سوہن چٹر جی، انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے جمہوریت و انسانی حقوق عذرا ضیا سے لے کر ناسا کے ڈائریکٹر آپریشنز سورتی موہن تک پچاس سے زائد انتظامی عہدوں پر بھارتی نژاد امریکی موجود ہیں۔ ان میں سے نصف وائٹ ہاؤس اسٹاف میں شامل ہیں۔
جب کہ بائیڈن انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر پاکستانی نژاد امریکیوں کی تعداد تین (سلمان احمد، ڈاکٹر شہزاد، علی زیدی) ہے۔ بھارتی نژاد امریکیوں کی تعداد پینتالیس لاکھ اور پاکستانی نژاد امریکیوں کی تعداد تقریباً چھ لاکھ ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنا بڑا بھارتی ووٹ بینک کوئی بھی سینیٹر یا ایوانِ نمایندگان کا امیدوار نظرانداز نہیں کر سکتا۔
ٹرمپ انتظامیہ میں بھارتی نژاد نکی ہیلی اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر تھیں۔ اوباما انتظامیہ میں اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ نیشا بسوال سے لے کر یو ایس ایڈ کے ایڈمنسٹریٹر راجیو شاہ سمیت پچاس سے زائد بھارتی نژاد امریکی شہری وائٹ ہاؤس، دفترِ خارجہ، صحت اور قانون کے محکموں میں کلیدی ذمے داریاں نبھا رہے تھے۔ جب کہ اوباما کے قریبی مشیروں میں پاکستانی نژاد امریکیوں کی تعداد چار سے اوپر نہیں تھی۔
برطانوی دارالعوام میں اگرچہ پندرہ بھارتی اور پندرہ پاکستانی ارکان ہیں۔ لندن کے میئر صادق خان بھی پاکستانی نژاد ہیں۔ بورس جانسن کابینہ میں صحت و سماجی بھلائی کے وزیر ساجد جاوید اس سے پہلے خزانہ اور داخلہ کے قلمدان بھی سنبھال چکے ہیں۔ لیکن موجودہ وزیرِ داخلہ اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کی انچارج پرتی پٹیل، ماحولیات کے انچارج وزیر الوک شرما اور وزیر خزانہ رشی سونک ہیں۔ رشی کو بورس جانسن کا جانشین کہا جا رہا ہے۔ وہ بھارت کی کلیدی سافٹ ویئر کمپنی انفوسس کے مالک نرائن مورتھی کے داماد بھی ہیں۔
یہ مثالیں دینے کا مقصد ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ جو بھارتی یا پاکستانی نژاد امریکی شہری اعلیٰ حساس انتظامی عہدوں پر فائز ہیں ان کی وفاداریاں امریکی یا برطانوی مفادات کے ساتھ نہیں ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے امریکی اور برطانوی ہیں۔ مگر دل میں آبائی دھرتی کے لیے نرم گوشہ ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ جیسے امریکی یہودی ہر اعتبار سے امریکی ہیں مگر ان کی اسرائیل نوازی بھی فطری ہے جو لامحالہ ریاست کی داخلہ و خارجہ پالیسیوں پر شعوری نہ سہی تو لاشعوری طور پر اثرانداز ہوتی ہے۔
جیسے عمران خان کے سابق برادرِ نسبتی اور وزیرِ مملکت زیک گولڈ اسمتھ نے ان کے حق میں ایک آدھ حالیہ ٹویٹ بھلے ذاتی حیثیت میں کیا ہو لیکن چونکہ وہ حکمران کنزرویٹو کابینہ میں شامل ہیں لہٰذا ان پر انھی کی پارٹی کی جانب سے تنقید بھی ہوئی۔ اسی طرح جب لندن کے میئر کے انتخاب میں عمران خان نے پاکستانی نژاد صادق خان کے مقابلے میں زیک کی امیدواری پر مثبت ردِعمل دیا تو بھلے اس پر کچھ لوگ چیں بہ جبیں ہوئے ہوں مگر یہ ایک فطری بات تھی۔
البتہ آزاد خارجہ پالیسی محض جذباتی وابستگی پر استوار نہیں ہوتی۔ جیسے سعودی عرب سمیت برادر خلیجی ممالک کے بھارت سے تعلقات برابری کی سطح پر ہیں۔ معاملہ اقتصادی مفادات کا ہے لہٰذا ان تعلقات پر " اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے " کا اصول لاگو ہوتا ہے۔
مگر پاکستان سے انھی ریاستوں کے تعلقات "اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ سے بھی دے " کے اصول پر ہیں۔ اگرچہ وہ ہمارے بڑے بھائی ہیں لیکن ہم ان کے غریب عزیز ہیں۔ ایسا عزیزم امیر خلیجی ممالک اور ایک مضبوط بھارتی منڈی کے روز افزوں تعلقات پر کسمسا تو سکتا ہے مگر بڑے بھائی کو اپنی فرسٹریشن نہیں سمجھا سکتا۔
ایک بار خان صاحب نے مہاتیر محمد اور اردگان کے ساتھ مل کر ہمت تو جٹائی تھی ایک متوازی مسلم بلاک بنانے کے لیے۔ مگر پھر ایک ضروری فون آ گیا کہیں سے۔ جب کہ ترکی کا خلیجی ممالک کے ساتھ رویہ ہمیشہ ترکی بہ ترکی کا رہا۔ کیونکہ ترکی کی محتاجی بھی برابری کی محتاجی ہے۔
چین اور پاکستان کے تعلقات مثالی ہیں۔ مگر کیا وہ برابری کی سطح پر ہیں؟ بھارت اور چین کے سیاسی تعلقات انتہائی خراب ہیں مگر کیا چین یہ بات نظرانداز کر سکتا ہے کہ اس کی دو طرفہ تجارت کا حجم آج بھی ستر ارب ڈالر سے اوپر ہے۔ چین پاکستان میں پیسے لگا رہا ہے اور بھارت سے اسے آمدنی ہو رہی ہے۔ دشمنی اپنی جگہ معاشی سمبندھ اپنی جگہ۔
اور یہ ہمیشہ غریب ممالک میں ہی سازش سے آخر حکومت کیوں تبدیل ہوتی ہے۔ معاشی و اسٹرٹیجک لحاظ سے اہم متوسط و امیر ممالک میں رجیم چینج باہر سے کیوں نہیں ہوتی؟
خان صاحب آزاد خارجہ پالیسی کے مثالیے کے طور پر بھارت کا نام تو لیتے ہیں مگر ایرانی خارجہ پالیسی کو وہ کس خانے میں فٹ کریں گے؟ امریکا مخالف ایران چالیس برس سے ایک ہی فقرے پر چل رہا ہے " تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر "۔ مگر اس کے لیے پنگا پسند قیادت میں بھی تپڑ چاہیے۔
ہم ایسے کیوں ہیں ہم ویسے کیوں نہیں؟ اس کا جواب باہر ڈھونڈنے کے بجائے اندر ڈھونڈ کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضایع کرنے سے بچانا بھی تو اتنا ہی اہم ہے جتنا آزادی کا خواب دیکھنا۔ پہلے اپنے آپ سے آزاد ہو جائیں تو بیرونی آزادی بھی بونس میں مل جائے گی۔