آٹھ ارب کی دنیا میں روزانہ اسی کروڑ انسان بھوکے سوتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ خدا انھیں آزما رہا ہے یا قدرت نے کرہِ ارض پر انسان سمیت ہر ذی روح کے لیے خوراک کا حصہ مختص نہیں کیا۔ مگر پیٹ بھروں کی لاپرواہی، ناشکری اور ہوس ان اسی کروڑ لوگوں کا پیٹ خالی رکھنے کا بنیادی سبب ہے۔
اس دنیا میں کھیت سے باورچی خانے تک یا جانوروں کے باڑے سے ریستوران کے کچن تک جتنی بھی خوراک پہنچتی ہے اس کا تیرہ فیصد کھیت سے مارکیٹ تک پہنچتے پہنچتے ضایع ہو جاتا ہے اور باقی سترہ فیصد صارف کے ہاتھوں ضایع ہو جاتا ہے۔ گویا سو کلو خوراک میں سے تیس کلو کسی کے استعمال میں نہیں آتی۔
کوئی نہیں سوچتا کہ یہ ضایع ہو جانے والی خوراک بھی زمین سے پیدا ہوتی ہے۔ اس پر بھی کھاد، پانی، ادویات اور وقت صرف ہوتا ہے۔ سنچائی کے لیے توانائی کا استعمال ہوتا ہے۔ مگر سب رائیگاں چلا جاتا ہے۔
ڈیڑھ ارب ٹن خوراک پیدا تو ہوتی ہے مگر پیٹ تک نہیں پہنچتی۔ سب سے زیادہ پھل، سبزیاں اور پھر غلہ اور دالیں ضایع ہوتے ہیں۔ جو ملک جتنا خوشحال ہے وہاں اتنی ہی خوراک کچرے میں چلی جاتی ہے۔ مثلاً یورپی یونین میں سالانہ پونے دو سو ملین ٹن خوراک کسی کے کام نہیں آتی۔ یورپ کا ہر شخص اوسطاً فی کس تین سو کلو گرام خوراک خریدنے کے باوجود ضایع کر دیتا ہے۔
آسٹریلیا میں انسانی استعمال کے قابل سالانہ بیس ارب ڈالر کی خوراک کوڑے کے ڈبے میں چلی جاتی ہے۔ کینیڈا میں ایک سال میں پچیس ارب ڈالر کی خوراک ضایع ہوتی ہے۔ یہ اتنی مقدار ہے کہ اس سے پانچ ماہ تک کینیڈا کی پوری آبادی کا پیٹ مفت میں بھرا جاسکتا ہے۔ ہر کینیڈین گھرانہ سالانہ کم ازکم اٹھارہ سو ڈالر کی اشیاِ خور و نوش استعمال کیے بغیر پھینک دیتا ہے۔
آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین میں روزمرہ کی پچیس فیصد خوراک اور بیس فیصد گوشت ضایع ہو جاتا ہے۔ امریکا میں جتنی بھی خوراک خریدی جاتی ہے اس میں سے پینتیس تا چالیس فیصد بنا استعمال کے ضایع ہو جاتی ہے۔ اس کی مالیت دو سو ارب ڈالر سے اوپر ہے۔ اس میں سے پچاس ارب ڈالر مالیت کی پندرہ فیصد خوراک کو بنا چھوئے ہی کچرا دان میں ڈال دیا جاتا ہے۔
چھبیس فیصد مچھلی، بیف اور مرغی کا گوشت فوڈ اسٹورز میں خراب ہو جاتا ہے یا گھریلو صارفین خریدنے کے باوجود استعمال نہیں کر پاتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پھر بھی گوشت کی سالانہ پیداوار میں دس فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں جانور کاٹے جاتے ہیں مگر ان کا گوشت بنا استعمال بڑے بڑے گڑھوں میں دفن ہو جاتا ہے اور ماحولیات کی مزید ایسی تیسی ہو جاتی ہے۔ یہ جانور جو خوراک استعمال کرتے ہیں اور گیس خارج کرتے ہیں اس کے سبب زمین پر پڑنے والا ماحولیاتی دباؤ بھی کسی گنتی شمار میں نہیں۔
چونکہ خوراک تیار کرنے والی کمپنیوں کو اپنا مال زیادہ سے زیادہ بیچنے کی ہوس ہے لہٰذا وہ تو اپنے صارفین کی خوراک کے زیاں سے متعلق آگہی مہم بننے کا حصہ رہیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ نے دو ہزار تیس تک کے جو ملینیم اہداف ماحولیات کی بہتری کے لیے مقرر کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خوراک کے زیاں میں کم ازکم تیس فیصد تک کمی لائی جائے۔
یورپی یونین نے وعدہ تو کیا ہے کہ وہ یہ ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ مگر سوائے ڈنمارک کوئی اور یورپی ملک فی الوقت سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ جب کہ ایشیا میں جاپان اور سنگا پور نے اس بابت آگہی اور صارفین کو زیادہ سے زیادہ خوراک خریدنے کی ترغیب دینے والی کمپنیوں کو جرمانہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ رقم آگہی مہم کی فنڈنگ میں ڈالی جاتی ہے۔
اس مہم کا مقصد یہ پیغام پھیلانا ہے کہ بس اتنا اشیا خریدیں جتنی ضرورت ہو۔ بالخصوص وہ اشیا جن کی تازگی اور استعمال کی مدت مختصر ہے۔ جن اشیا کے بارے میں آپ کو یقین ہو کہ یہ استعمال کے بغیر ضایع ہو سکتی ہیں انھیں اگر کسی طرح مستحقین تک پہنچا دیں تو یہ بھی قابلِ ستائش ہوگا۔ کھانے پینے کی تازہ اشیا فریج میں رکھتے وقت پہلے سے خریدی اشیا کو آگے اور نئے سودے کو پیچھے رکھیں۔ تاکہ پرانی اشیا پہلے استعمال ہو سکیں۔
ریسٹورنٹ میں جھوٹی شان دکھانے کے چکر میں دگنا کھانے کا آرڈر ہرگز مت دیں۔ اس سے آپ کو مالی بچت بھی ہوگی اور کسی ضرورت مند کا بھلا بھی ہو سکے گا۔ ریسٹورنٹس ایسی فلاحی تنظیموں سے تعاون کریں جو بچی کھچی خوراک جمع کرکے مستحقین تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔
کئی ریستورانوں نے اپنے تئیں بھی مہم چلائی ہے کہ اگر آپ نے زائد از ضرورت کھانا آرڈر کیا اور پلیٹ میں چھوڑ دیا تو آپ کو پچاس فیصد اضافی بل دینا پڑے گا۔ اگر آپ نے پلیٹ میں چھوڑنے کے بجائے سب استعمال کر لیا تو آپ کو بل میں رعایت بھی ملے گی۔
مگر خوراک کی مقدار کے ضایع ہونے کا جو حجم ہے۔ اس میں یہ کوششیں حوصلہ افزا ہونے کے باوجود آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
یوکرین اور روس دنیا کی ایک چوتھائی گندم پیدا کرتے ہیں۔ ان کی آپس کی لڑائی کے سبب دنیا نہ صرف غذائی بحران سے دوچار ہے بلکہ خوراک کی قیمتیں بھی دو سال پہلے کے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ ہوگئی ہیں۔ جب کہ ہر سال جو تیس فیصد خوراک گھر تک پہنچنے کے باوجود کسی کے کام نہیں آتی اس پر بہت کم لوگوں کا دھیان ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یوکرین اور روس بھلے اگلے دس برس لڑتے رہتے مگر غذائی بحران پیدا نہ ہوتا۔
لیکن وہ انسان اور ریاست ہی کیا جو رازق کے عطا کردہ شعور کا پورا استعمال کرکے کم ازکم آدھے سے زائد خود ساختہ مسائل سے نمٹ سکے۔ اسی لیے خدا کی گواہی ہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔
آیندہ کوئی بھی اپنی ہر غفلت کی طرح یہ ذمے داری بھی آسمان والے پر ڈالنے سے باز رہے کہ اس دنیا میں اسی کروڑ انسان ہر رات بھوکے کیوں سوتے ہیں؟
(گزشتہ جمعہ کو (انتیس ستمبر) رزق کا زیاں روکنے کی آگہی کا عالمی دن حسبِ معمول خاموشی سے گذر گیا)