سن دو ہزار گیارہ میں بالاخر پیگاسس کا مکمل کمرشل ورژن تیار ہو گیا۔ این ایس او کا خیال تھا کہ جیسے ہی یہ خبر پھیلے گی دنیا بھر کی انٹیلی جینس ایجنسیوں بالخصوص دھشت گردی کے خلاف جنگ میں جتی ہوئی مغربی ایجنسیوں کی قطار لگ جائے گی۔ مگر حیرت انگیز طور پر عالمی سراغرساں کمیونٹی کی جانب سے کسی خاص جوش و خروش کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
چونکہ این ایس او ایسے ماہرین سے بھری پڑی تھی جن کا اپنا پیشہ ورانہ پس منظر بھی جاسوس سرگرمیوں سے جڑا تھا لہٰذا یورپی ادارے پیگاسس کے حصول میں دلچسپی ظاہر کرنے میں خاصے محتاط تھے۔ انھیں خدشہ تھا کہ پیگاسس کہیں کاٹھی کا وہ گھوڑا (ٹروجن ہارس) ثابت نہ ہو جسے ہم خرید کے گھر لے تو آئیں مگر جتنا فائدہ ہمیں ہو اس سے کہیں زیادہ اسرائیلی ہماری کلاسیفائیڈ معلومات اور برسوں کی محنت اڑا لے جائیں۔
چنانچہ اس خراب شہرت کے تدارک کے لیے این ایس او کے بانی ارکان سر جوڑ کے بیٹھے۔ سب سے پہلے تو انھوں نے کمپنی کی ایک باعزت ساکھ بنانے کے لیے میجر جنرل ریٹائرڈ ایوگیدار بینگال کو کمپنی کا چیئرمین مقرر کیا۔ جنرل بینگال نہ صرف نازی کیمپوں سے زندہ بچ نکل آنے والوں میں سے ایک تھے بلکہ اپنی پیشہ ورانہ عسکری زندگی میں اچھی شہرت کے حامل رہے۔
کمپنی نے ممکنہ صارفین کا اعتماد جیتنے کے لیے ایک چار نکاتی منشور جاری کیا۔ اول یہ کہ این ایس او فروخت کردہ سسٹم کو خود آپریٹ نہیں کرے گی بلکہ جہاں جہاں خریدار کو تکنیکی مدد درکار ہے خود کو وہیں تک محدود رکھے گی۔ دوم، یہ کہ سسٹم کسی فرد یا کمپنی کو نہیں بلکہ زمہ دار حکومتوں کو فروخت کیا جائے گا۔ سوم، یہ کہ ہر ہما شما ملک کو یہ سسٹم فراہم نہیں کیا جائے گا۔ چہارم، یہ کہ ہر سودا اسرائیلی وزارتِ دفاع کے برآمدی لائسنس سے مشروط ہو گا۔
جنرل بینگال کی بطور چیئرمین تقرری کا مطلب ہی یہ تھا کہ این ایس او ایک آزاد تجارتی تشخص برقرار رکھنے کے بجائے اسرائیل کی سرکاری پالیسیوں کو اپنی مارکیٹنگ حکمتِ عملی میں مدِنظر رکھے گی۔
پیگاسس کے لیے پہلا بڑا آرڈر میکسیکو سے موصول ہوا۔ جہاں حکومت ڈرگ مافیا سے ایک طویل جنگ لڑ رہی تھی اور یہ مافیا رابطہ کاری کے لیے بلیک بیری میسیجنگ سروس استعمال کرتی تھی۔ اس کے اندر گھسنا کسی بھی انٹیلی جینس ایجنسی کے لیے محال تھا۔ امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے اس بابت میکسیکو حکومت کو محدود مگر مشروط معاونت کی پیش کش کی۔
جب این ایس او کو بھنک پڑی تو ہولیو اور جنرل بینگال نے میکسیکو کے صدر فلیپے کالیدورون سے ملاقات کے لیے وقت مانگ لیا۔ انھوں نے اپنی پریزنٹیشن میں صدر کو یقین دلایا کہ محدود و مشروط امریکی معاونت کے برعکس پیگاسس وہ سب کر سکتا ہے جو حکومتِ میکسیکو چاہتی ہے اور اس کا مکمل کنٹرول بھی حکومت کے ہی ہاتھوں میں رہے گا۔ صدرِ ذی وقار کی باچھیں کھل گئیں۔ اسرائیلی وزارتِ دفاع نے بھی سسٹم کی برآمد کے لیے فوراً این او سی جاری کر دیا۔
میکسیکن حکام کے سامنے پیگاسس کا آزمائشی مظاہرہ کیا گیا اور بدنام ِ زمانہ کوکین کنگ گزمان سنولا کے ایک قریبی ساتھی کا ناقابلِ تسخیر بلیک بیری نمبر ہیک کر کے سارا کچا چھٹا میکسیکو کے عہدیداروں کے سامنے رکھ دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ مافیا کے زیرِاستعمال دیگر بلیک بیریز کی لوکیشنز بھی سامنے آ گئیں۔ یعنی سب سنا جا سکتا تھا، پڑھا جا سکتا تھا، دیکھا جا سکتا تھا۔ پہلی بار میکسیکنز کو لگا کہ شاید وہ یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔
اسرائیل کو اس کے عوض لاطینی امریکا کے ایک اہم ملک کی خیرسگالی ہاتھ آ گئی۔ میکسیکو ہمیشہ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت کرتا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ میکسیکو نے رائے شماری سے غیر حاضر رہنے کا وتیرہ اپنایا اور پھر حق میں ووٹ دینا شروع کر دیا۔ دو ہزار سولہ میں میکسیکو کے نئے صدر اینریک نیٹو نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کا سولہ برس بعد یہ پہلا دورہ تھا۔ اگلے برس پہلی بار کسی اسرائیلی وزیرِاعظم (نیتن یاہو) نے میکسیکو کا دورہ کیا۔
دو ہزار سترہ میں ایک اینٹی ہیکنگ سرکردہ کینیڈین تنظیم سٹیزن لیب نے انکشاف کیا کہ میکسیکو کی حکومت انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور حزبِ اختلاف کو بھی پیگاسس کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اگوالا کے علاقے میں دو ہزار چودہ میں تینتالیس طلبا کے قتلِ عام کی تحقیق میں ورثا کی معاونت کرنے والے وکلا کے خلاف بھی پیگاسس استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ اصل حقائق دبائے جا سکیں۔
پیگاسس کے ناجائز استعمال کا شبہ میکسیکو کے مرکزی تحقیقاتی ادارے کے سربراہ توماس زیریون دو لوسیو پر عائد کیا گیا۔ دو ہزار انیس میں جب حکومت بدلی تو لوسیو صاحب احتساب کے خوف سے براستہ کینیڈا سیاحت کے ویزے پر اسرائیل پہنچ گئے۔ حالانکہ حکومت میکسیکو نے لوسیو کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا مگر اسرائیل نے یہ درخواست اب تک نظرانداز کر رکھی ہے۔
وکی لیکس کے مطابق دو ہزار نو میں پاناما کے نومنتخب صدر ریکارڈو مارٹینیلی نے سیاسی کرپشن ختم کرنے کے نام پر امریکا سے نگرانی کے جدید آلات فراہم کرنے کی درخواست کی تاکہ " ملک دشمن سیاستدانوں "کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جا سکے۔ امریکیوں نے صاف انکار کر دیا۔
مارٹنیلی اس بات کو بظاہر پی گئے مگر اس کے بعد غزہ میں دو ہزار آٹھ کے اسرائیلی حملوں کو جنگی جرائم کی کیٹگری میں رکھنے نہ رکھنے سے متعلق جسٹس گولڈ اسٹون کمیشن کی رپورٹ کی تائید کے لیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک سو اڑتیس اسرائیل مخالف ووٹوں کے مقابلے میں اسرائیل کے حق میں جو چھ ووٹ پڑے ان میں سے ایک پاناما کا تھا۔
اسرائیل نے پاناما کے صدر کو دورے کی دعوت دی جو کہ فوراً قبول کر لی اور یروشلم کے تحفظ کے لیے صدر شمعون پیریز کو صدر مارٹینلی نے پاناما کی مکمل حمائیت کا یقین دلایا اور پھر وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے ملاقات میں اصل مدعا بیان کیا کہ انھیں مخالفین کی سرکوبی کے لیے جاسوسی آلات اور ملکی دفاع کے لیے جدید اسلحہ درکار ہیں۔
مارٹینلی نے کہا کہ کچھ ایسا دے دیجیے کہ میں بلیک بیری مسیجنگ سروس کا توڑ کر لوں۔ بلیک بیری پورے وسطی امریکا میں اس وقت اشرافیہ کے لیے اسٹیٹس سمبل جانا جاتا تھا۔ اسرائیل نے فوری طورپر کوئی واضح یقین دہانی نہیں کرائی۔ لیکن دو ہزار بارہ میں نیتن یاہو نے صدر مارٹینلی کو پیگاسس فراہم کرنے کی پیش کش کی۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں یہاں تو چار چار ایک ساتھ لگ گئیں۔ چنانچہ پیگاسس ملتے ہیں اندھا دھند نگرانی شروع ہو گئی۔ حزبِ اختلاف، عدلیہ، مزدور رہنما، کاروباری رقیب کوئی نہ بچا۔ حتی کہ مارٹینلی نے اپنی داشتا کے فون پر بھی پیگاسس لگا دیا۔ پاناما کے نائب صدر ہوان کارلوس ولیرا نے جب دو ہزار چودہ میں مارٹینلی کے ملک سے فرار کے بعد اقتدار سنبھالا تو انھوں نے بتایا کہ وہ بھی پیگاسس کے زخم خوردہ ہیں۔ چنانچہ نئے صدر نے پیگاسس سسٹم کو پورا ہی لپیٹ دیا۔
مگر پیگاسس کے کوئی ایک دو کلائنٹ تھوڑا ہی ہیں۔ انھیں آلہ چاہیے اور این ایس او کو منافع۔ کس نے کس کو لپیٹا۔ اس کا احوال اگلی اور آخری قسط میں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu۔ com پر کلک کیجیے)