دو ہزار گیارہ میں گاہکوں کی خصوصی ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پیگاسس کے کمرشل ورژن متعارف کرانے کے بعد سے این ایس او نے منافع کمانا شروع کیا۔ پہلے برس پندرہ ملین ڈالر، اگلے برس تیس، اس سے اگلے برس ساٹھ ملین ڈالر۔ یہ منظر دیکھ کر سرمایہ کار بھی این ایس او کی جانب راغب ہونے لگے۔
دو ہزار چودہ میں ایک امریکی سرمایہ کار کمپنی فرانسسکو پارٹنرز نے ایک سو تیس ملین ڈالر کے عوض این ایس او کے ستر فیصد شئیرز خرید لیے۔ اس کے بعد اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس کے ایک ریٹائرڈ اہل کار کی قائم کردہ سائبر ہتھیاروں کی کمپنی سرکلز کا بھی این ایس او سے اشتراک ہوگیا۔ سرکلز اپنے کلائنٹسں کو ایک اور سسٹم فراہم کرتی تھی جس کی مدد سے دنیا کے کسی بھی کونے میں پڑے موبائیل فون کی لوکیشن کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے اسرائیلی انٹیلی جینس نے یہ صلاحیت دس برس پہلے ہی حاصل کر لی تھی۔
جب اتنی باصلاحیت کمپنیاں این ایس او میں مدغم ہو گئیں تو اس کی مصنوعات کی ورائٹی اور کلائنٹس کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی کم ازکم پچیس ریاستوں کی ایجنسیاں این ایس او کے آلات عسکری و غیر عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
نومبر دو ہزار سولہ میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے گھر پر پولینڈ کے وزیرِ اعظم بیاتا زدلو اور وزیرِ خارجہ ویڑوکوسکی رات کے کھانے پر مدعو تھے۔ اس دورے میں این ایس او نے پولینڈ کے انسدادِ رشوت ستانی کے ادارے کو پیگاسس سسٹم کی فراہمی پر آمادگی ظاہر کی۔ سٹیزن لیب کا کہنا ہے کہ پولش حزبِ اختلاف کے کم ازکم تین ارکان کے فونز کو پیگاسس سے نشانہ بنایا گیا۔
پولینڈ کے نئے وزیرِ اعظم میتیوز مورویکی نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں نیتن یاہو کی موجودگی میں کہا کہ دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کو جن مصائب سے گزرنا پڑا ان کی ذمے داری اپنی کمیونٹی کو اکسانے والے کچھ یہودی رہنماؤں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ گمان تھا کہ اس تبصرے کو یہود دشمنی قرار دیتے ہوئے اسرائیلی آسمان سر پے اٹھا لیں گے۔ مگر حیرت انگیز طور پر نیتن یاہو نے نہ تو کوئی ردِعمل دکھایا اور نہ ہی پیگاسس کی سہولت معطل کرنے جیسا کوئی اقدام کیا۔
جولائی دو ہزار سترہ میں پہلی بار کسی بھارتی وزیرِ اعظم (نریندر مودی) نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا۔ نیتن یاہو اور مودی نے تل ابیب کے ساحل پر ننگے پاؤں چہل قدمی کی۔ اس کے بعد سے بھارت نے نہ صرف فلسطینیوں کی غیر مشروط حمایت کی عشروں پرانی پالیسی سے ہاتھ اٹھا لیا بلکہ اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں سے میزائیل سسٹم اور این ایس او سے پیگاسس کی خریداری کے لیے مجموعی طور پر دو ارب ڈالر کے تجارتی سمجھوتے بھی ہوئے۔
چند ماہ بعد نیتن یاہو نے دلی کا جوابی دورہ کیا۔ جون دو ہزار انیس میں بھارت نے پہلی بار اقوامِ متحدہ کی اقتصادی و سماجی کونسل میں انسانی حقوق کی فلسطینی تنطیم کو مبصر کا درجہ دینے کی مخالفت کی۔ بھارت میں پیگاسس سسٹم حزبِ اختلاف، صحافیوں اور چند کابینہ وزیروں کی جاسوسی کے لیے استعمال ہونے کے الزامات چند ماہ قبل سامنے آنے شروع ہوئے۔
ہنگری میں وزیرِ اعظم وکٹر اربون کے آمرانہ طرزِ حکومت کے باوجود انھیں پیگاسس سسٹم فروخت کیا گیا۔ حکومت نے اس سسٹم کو اپنے سیاسی مخالفین، صحافیوں اور کاروباری خاندانوں کے خلاف جی کھول کے استعمال کیا۔ اس کے بعد سے غیر جانبدار ہنگری یورپی یونین میں اسرائیل کا پرزور وکیل بن گیا۔
عرب ریاستوں میں پیگاسس سسٹم سب سے پہلے متحدہ عرب امارات کو فراہم کیا گیا۔ دو ہزار دس میں جب موساد نے دبئی کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر حماس کے ایک رہنما کو زہر دے کر ہلاک کیا۔ اس کے بعد امارات کے صدر محمد بن زید نے جوابی کارروائی میں اسرائیل سے ہر طرح کا پوشیدہ تعاون ختم کر دیا۔ دو ہزار تیرہ میں اسرائیل نے کدورت مٹانے کے لیے پیگاسس سسٹم فراہم کرنے کی پیش کش کی۔ پھر سٹیزن لیب کے ذرایع نے خبر دی کہ اماراتی اسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے ناقد صحافی احمد منصور کے آئی فون کو ہیک کرنے کے لیے پیگاسس استعمال کیا گیا۔ اس واردات کے سبب آئی فون بنانے والی ایپل کمپنی کا یہ دعوی خاک میں مل گیا کہ اس کے فون ہیکنگ سے محفوظ ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ میں احمد منصور کو سوشل میڈیا پر متنازعہ مواد پوسٹ کرنے کے جرم میں دس برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ دو ہزار سترہ میں اسرائیلی حکومت نے سعودی سیکیورٹی ایجنسی کو پیگاسس کی فراہمی کی اجازت دے دی اور پچپن ملین ڈالر کے کنٹریکٹ پر دستخط ہو گئے۔
جب دو اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کو استنبول میں سرکردہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے اغوا اور قتل کے بعد دنیا بھر میں ہا ہا کار مچی تو ایک بار پھر این ایس او اور پیگاسس کا استعمال زیرِ بحث آیا۔ حسب ِ توقع این ایس او نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ قتل سے پہلے جمال کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ان کے فون کو پیگاسس کے ذریعے ہیک کیا گیا۔
مگر این ایس او کے سودوں پر نگاہ رکھنے والی سابق امریکی سفارت کاروں پر مشتمل "اخلاقیات کمیٹی " نے این ایس او سے مطالبہ کیا کہ سعودی سسٹم بند کر دیا جائے۔ پیگاسس نے سسٹم معطل کر دیا۔ لیکن چند ماہ بعد وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی مداخلت سے یہ سسٹم بحال ہو گیا۔ کیونکہ اسرائیل خلیجی ممالک کے ساتھ ایران کے خلاف اسٹرٹیجک تعاون کے ایک باضابطہ سمجھوتے کے لیے بھرپور کوششں کر رہا تھا۔
امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے داماد ڈیوڈ کشنر کی مدد سے یہ مقصد حاصل ہو گیا۔ بحرین اور امارات نے اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کر لیا اور پھر تینوں ممالک کے مابین وائٹ ہاؤس کی سرپرستی میں " ابراہیمی سمجھوتہ" سامنے آیا۔ سعودی عرب نے اس سمجھوتے کی خاموش حمایت کی۔ اور خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان روابط کی آسانی کے لیے اپنی فضائی حدود اسرائیلی طیاروں کی آمد و رفت کے لیے کھول دی۔
ابراہیمی سمجھوتے کے عوض امارات کی فضائیہ کو جدید ترین امریکی ایف تھرٹی فائیو طیارے خریدنے کا موقع ملا جب کہ اسرائیل نے امارات کے بعد بحرین کو بھی " تخریب کاروں اور دہشت گردوں " پر نظر رکھنے کے لیے پیگاسس فراہم کر دیا۔
ابراہیمی سمجھوتے کے کچھ عرصے بعد سعودی عرب کو فراہم کیے جانے والے سسٹم کے لائسنس کی مدت ختم ہوگئی اور اسرائیلی وزارتِ دفاع نے لائسنس کی تجدید سے انکار کر دیا۔ مگر ولی عہد محمد بن سلمان کی نیتن یاہو کو ایک مبینہ کال کے بعد نیتن یاہو نے وزارِت دفاع کو لائسنس کی ہنگامی تجدید کیاحکامات دیے اور این ایس او نے راتوں رات یہ سسٹم بحال کر دیا۔
گزشتہ نومبر میں امریکی وزارتِ تجارت کی بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے سبب این ایس او اور امریکی سائبر کمپنیوں کے مابین تعاون سکڑ گیا۔ چنانچہ فی الحال این ایس او کو اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ اور آرڈرز پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ فیس بک نے بھی ایک امریکی عدالت میں اپنے سیکڑوں کلائنٹس کے وٹس ایپ رازداری نظام کو توڑنے کی کوشش میں پیگاسس کے استعمال پر بھاری ہرجانے کا مقدمہ کر رکھا ہے۔
چنانچہ امریکی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ این ایس او کو کوئی امریکی سرمایہ کار خریدلے تاکہ ایف بی آئی اور سی آئی اے جیسے اداروں کی راہ میں پیگاسس سسٹم کے استعمال میں جو قانونی رکاوٹیں حائل ہیں وہ دور ہو جائیں۔ مگر ایسی کسی بھی کوشش کی کڑی مزاحمت اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے یقینی ہے۔
سائبر ہتھیار سازی اور جاسوسی آلات کی تیاری کے میدان میں این ایس او کو مختصر وقت کے لیے جو بالا دستی ملی۔ کئی امریکی کمپنیاں اس وقت پیگاسس سے بھی زیادہ ایڈوانس آلات تیار کرنے کے لیے مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی چینی یا روسی کمپنی اس میدان میں بھی بازی مار لے۔ (بشکریہ نیویارک ٹائمز)۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu۔ com پر کلک کیجیے)