کسی بھی ریاست کی طرح پاکستان بھی ٹیکسوں، محصولات اور اندرونی و بیرونی قرضوں سے جمع ہونے والی رقم سے اپنا سرکاری و معاشی نظام چلاتا ہے۔
اگر ریاست قرض کی مد میں لی گئی رقم نہ لوٹائے تو اسے دیوالیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن بلاواسطہ یا بالواسطہ ٹیکس اور محصولات عائد کر کے جو رقم مختلف عوامی طبقات سے جمع کی جائے اور بدلے میں اگر ان سے کیے گئے ترقیاتی وعدے پورے نہ ہوں تو اس وعدہ خلافی سے نمٹنے کا بظاہر کوئی موثر قانونی طریقہ نہیں؟
الٹا اگر کوئی شہری یہ مطالبہ کر دے کہ جمع شدہ ٹیکس کی رقم کا ایک مخصوص حصہ حسبِ وعدہ عمومی ترقی پر نہیں لگایا گیا تو وہ رقم ٹیکس دینے والوں کو لوٹائی جائے۔ پہلے تو اس مطالبے کو ہی ہنسی میں اڑا دیا جائے گا۔ اگر کوئی شہری پھر بھی اڑا رہا تو اسے کوئی ٹھوس جواز دینے کے بجائے زیادہ امکان ہے کہ ریاست کے خلاف بغاوت یا لوگوں کو اکسانے یا امنِ عامہ کا مسئلہ پیدا کرنے کی فردِ جرم لگا کے نذرِ کوتوالی کر دیا جائے۔
حکومتیں عوام سے کسی بھی شکل اور مد میں جو ٹیکس یا محصولات وصول کرتی ہیں۔ اس کے عوض ٹیکس دھندگان کو نہ صرف جان و مال کے تحفظ کی آئینی ضمانت دی جاتی ہے بلکہ بنیادی صحت، تعلیم، مناسب رہائشی و کاروباری سہولتوں اور روزگاری مواقعے اور انصافی سہولتوں کی فراہمی کا وعدہ بھی کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ریاست ہر شہری سے توقع رکھتی ہے کہ وہ مکمل ایمان داری سے اپنے پر واجب قومی ذمے داری پوری کرے تاکہ حکومتِ وقت اجتماعی فلاحی ذمے داری کا وعدہ نبھا سکے۔
ہر سال ہر حکومت سینہ ٹھونک کر بتاتی ہے کہ اس برس ٹیکسوں اور محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی گزشتہ برس سے زیادہ حاصل ہو گی۔ کبھی کسی نے سنا کہ حکومت نے یہ بھی بتایا ہو کہ اس برس عوام کو جو طبی، تعلیمی، کاروباری، روزگاری اور تحفظاتی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں وہ گزشتہ برس کی نسبت اتنے فیصد زیادہ ہیں۔
جس طرح کوئی بھی حکومت عام آدمی سے واجبات کی ادائیگی میں ایمانداری کی توقع رکھتی ہے۔ کیا حکومت بھی وعدہ کردہ سہولتوں کی فراہمی میں اتنی ہی ایمان داری برتتی ہے۔ یہ جانچنے کے لیے چند بنیادی شعبوں کو دیکھ لیتے ہیں۔ شاید کوئی تسلی بخش جواب مل پائے۔
آئین کے تحت حکومت ہر پاکستانی بچے کو بنیادی تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے کی پابند ہے۔ مگر ہر سال اسکول جانے کے قابل پچاس لاکھ بچے اسکول سے باہر کیوں رہ جاتے ہیں؟ حکومت نے اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے اس کا حل نجی شعبے کو سونپ دیا ہے۔
یعنی جس کی جتنی فیس دینے کی اوقات ہے اسی معیار کی تعلیم بھی حاصل کر لے۔ نہیں اوقات تو پھر کسی پر ہجوم سرکاری اسکول میں داخلہ لے لے یا کسی ایسے مدرسے میں داخل ہو جائے جہاں روٹی اور رہائش کا بھی انتظام ہو۔ نجی شعبے کا تعلیم کو یوں قبضہ لینا اور سرکار کا یہ سوچ کر اطمینان کا سانس لینا کہ شکر ہے جو ہمارے کرنے کا کام تھا وہ اب دوسرے کر رہے ہیں۔ کیا آپ اسے المیہ کہیں گے یا طربیہ؟
جنھیں ہم ترقی یافتہ ممالک کہتے ہیں وہاں آج بھی نجی تعلیمی ادارے سرکاری اداروں کے مقابلے میں ایک مخصوص صاحبِ حیثیت طبقے تک محدود ہیں۔ کیونکہ سرکاری تعلیمی اداروں کا کم ازکم معیار آج بھی برقرار ہے اور عام آدمی کو اس معیار پر اعتبار بھی ہے۔
پاکستان میں جب تک متوسط و بالائی طبقات کا سرکاری تعلیمی اداروں پر اعتماد بحال تھا تب تک نجی تعلیمی اداروں کی تعداد آٹے میں نمک تھی۔ عام طور پر جسے اچھے سرکاری اسکول یا کالج میں داخلہ نہیں ملتا تھا اسے نجی ادارے میں بھیجا جاتا تھا۔ البتہ مشن اسکول مستثنیات میں شمار ہوتے تھے کیونکہ ان کا معیارِ تعلیم بہت بہتر تھا اور وہ ہوسِ زر کی علت سے بھی پاک تھے۔
جب سے تعلیم کو فیس کی مناسبت سے سہولتوں کی فراہمی اور طبقاتی اسٹیٹس سے جوڑا گیا اور آسودہ طبقات نے اپنی دنیا الگ کر لی۔ تب سے قومی فیصلہ سازی پر غالب اشرافیہ نے بھی سرکاری تعلیمی سیکٹر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ تصویر آپ کے سامنے ہے۔
اب آ جائیے صحت کے شعبے کی جانب۔ ہر شہری کو صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی بھی آئینی ذمے داری ہے۔ آبادی تو بے تحاشا بڑھتی چلی گئی لیکن سرکاری صحت شعبہ اور اس کا بجٹ بھی تعلیمی بجٹ کی طرح وہیں کا وہیں رہا۔ ہر حکومت نے چند فرمائشی یا نمائشی طبی ادارے ضرور قائم کیے مگر علاج معالجے کی سستی عمومی سہولتوں تک ہر ایک کی رسائی کے کام پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس نااہلی کے ازالے کے لیے یہاں بھی نجی شعبے کو بے لگام انداز میں ہاتھ پاؤں پھیلانے کی اجازت دی گئی اور صحت جیسی بنیادی سہولت بھی تعلیمی شعبے کی طرح راتوں رات دولت کمانے کی سیڑھی بن گئی۔
کہتے ہیں ایدھی ایمبولینس تیسری دنیا میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی فلاحی سروس ہے۔ اس پر ہر حکومت شرمندہ ہونے کے بجائے فخر بھی کرتی ہے۔ نجی شعبے میں اتنی بڑی ایمبولینس سروس کا ہونا اس نااہل خلا کے سبب ہے جو یکے بعد دیگرے آنے والی تمام منتخب و غیر منتخب حکومتیں نہ صرف بھرنے سے قاصر رہیں بلکہ فلاحی تنظیموں کے سرگرم ہونے کے بعد حکومت نے اس شعبے سے بھی ہاتھ اٹھا لیا۔
یہی منظر حادثات و قدرتی آفات کے بعد کا بھی ہے۔ پاکستان ماحولیاتی قیامت میں اچانک داخل نہیں ہوا۔ برسوں سے اس بارے میں خبردار کیا جا رہا تھا۔ مگر حکومتوں نے اس سے نمٹنے کے بارے میں حکمتِ عملی چھوڑ اسے کوئی سنگین مسئلہ سمجھنے سے بھی انکار کر دیا۔ چنانچہ آج ہم سب بچشم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت بے بس اور نجی فلاحی تنظیموں پر بھروسہ مند ہے اور کشکول پکڑ کے ہر مخیر ملک اور عالمی ادارے کے درپر پہلے کی طرح دستک دی جا رہی ہے۔
خوش گمان لوگ کہتے ہیں کہ اس بار کے المیے سے ریاست ضرور کوئی نہ کوئی سبق سیکھے گی اور اگلی بار نظام اتنا چوپٹ نہیں ہوگا۔ مگر یہ سادہ لوح اپنے حق میں ماضی سے ایک بھی مثال پیش نہیں کر پاتے۔
یہی حال امن و امان کے شعبے کا بھی ہے۔ جان و مال کے بنیادی آئینی تحفظ کی صورت اب یہ ہے کہ جس کے پاس استطاعت ہو وہ ذاتی محافظ رکھ لے بصورتِ دیگر تھانے میں کچی رپورٹ لکھوا کے صبر کے پیالے کی چسکیاں لیتا ہوا گھر چلا جائے۔
اتنی بنیادی اور عظیم ناکامیوں کے باوجود اگلے برس آپ پھر کسی مفتاح اسماعیل یا شوکت ترین سے یہ خوش خبری سنیں گے کہ اس مالی سال میں گزشتہ مالی سال سے زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو جائے گا۔