رفتہ رفتہ تباہ کاری کی کتاب ورق در ورق کھلتی جا رہی ہے۔ آخری پنے تک پہنچتے پہنچتے جانے املاکی و جانی و مواصلاتی تباہی کی کیا تصویر بنے۔ آثار یہی بتا رہے ہیں کہ دو ہزار دس کے بعد آنے والا یہ سب سے ظالم مون سون ہے۔ تب خیبر پختون خوا، پنجاب اور سندھ بری طرح زد میں آئے تھے۔ اب پہلے سے ادھ موئے بلوچستان پر موسمیاتی کوڑے برس رہے ہیں۔
اگر قدرتی آفات سے نپٹنے کے دعویدار ادارے نیشنل ڈزآسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (جسے کچھ لوگ پیار سے مس مینجمنٹ اتھارٹی بھی کہتے ہیں) کے اعداد و شمار پر یقین کر لیا جائے تو یکم جون سے اب تک ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب کے سبب تین سو سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ان میں سے ایک سو چھتیس ہلاکتیں تادمِ تحریر بلوچستان میں بتائی جاتی ہیں۔
سب سے زیادہ تباہ کاری اب تک لسبیلہ، ژوب اور آواران کے اضلاع میں کہی جا رہی ہے۔ راستے کٹے ہوئے ہیں۔ موسم کی خرابی کے سبب امدادی سرگرمیاں بھی بے یقینی سے دوچار ہیں۔ لسبیلہ کو کراچی سے جوڑنے والے تین پل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ لہٰذا رسد پہنچانے میں بھی شدید دشواریاں بتائی جاتی ہیں۔
جہاں تک میڈیا کا معاملہ ہے تو خدا کا شکر کہ اسلام آباد اور لاہور کی سیاسی لپاڈکی سے شل کچھ کیمرے اور ڈی ایس این جیز فارغ ہوئے اور اب ان کا رخ سیلابی آفتوں کے ماروں کی جانب موڑا جا رہا ہے۔ حالانکہ شدید بارشوں اور ان کے سبب غراتے پہاڑی نالوں میں برق رفتار طغیانی نے بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں کوہ سلیمان کی پٹی پر جون کے پہلے ہفتے میں ہی دستک دینا شروع کر دی تھی مگر میڈیا کو اس کی بھرپور خبر ابھی پچھلے ہفتے ہی ملی۔
جیسے ہی سیاسی کوریج کی ریٹنگ نیچے گرنی شروع ہوئی میڈیا نے تباہ کاریوں کی کہانی گود لے لی اور اب ہر چینل برملا دعوے کر رہا ہے کہ اس کی کوریج سب سے زیادہ ہے۔ پورے پورے خبری بریگیڈز کو سیاسی پانی پت سے سیلابی پانی پت تک کوچ کے احکامات جاری ہو چکے ہیں۔ اگلے ایک ماہ تک یہی مصیبت بکے گی۔
اس سے یاد آیا کہ جب اکتوبر انیس سو ستر میں مشرقی پاکستان میں سمندری طوفان کے سبب ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں کی خبر بین الاقوامی شہ سرخی بننے لگی تب انتخابات کو سات دسمبر تک بادلِ نخواستہ ملتوی کر دیا گیا۔ سیکریٹری اطلاعات روئیداد خان نے مغربی پاکستان کے اخباری رپورٹروں کو ڈھاکا پہنچانے اور امدادی کاموں کی کوریج کے لیے سرکاری تعاون کی پیش کش کی۔ صدر یحییٰ خان نے کھلنا سے چٹاگانگ اور پھر لاشوں کا انبار بننے والے جزیرے بھولا کا زمین پر اترے بغیر اپنے فالکن طیارے سے ایک بار فضائی جائزہ لیا، امدادی کاموں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔
ایئرپورٹ پر اپنے ہی ساتھ آئے رپورٹروں سے بات چیت کرتے ہوئے یقین دلایا کہ پاکستانی ایک خوددار قوم ہیں اور ایسے مصائب سے نپٹنے کی پوری صلاحیت اور وسائل رکھتے ہیں۔ حکومت عام آدمی کو مایوس نہیں کرے گی۔ اس کے بعد وہ مہمان رپورٹروں سمیت راولپنڈی پرواز کر گئے مگر تب تک مشرقی پاکستان کی تنہائی مکمل ہو چکی تھی۔ اسے عوامی لیگ نے سات دسمبر کے انتخابات میں سود مرکب سمیت کیش کرا لیا۔
یہ کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قدرتی آفات سیاست و ریاست سے آخری برگ انجیر (فگ لیف) بھی چھین سکتی ہیں، لہٰذا کسی بھی قدرتی آفت کو غیر سیاسی سمجھنے والے بہتر ہوگا کہ اپنا پیشہ ابھی سے بدل لیں۔
ذوالفقار علی بھٹو قدرے زیرک آدمی تھے۔ جب انیس سو تہتر اور پھر چھہتر میں شدید مون سون کے سبب پنجاب اور سندھ متاثر ہوئے تو دونوں صوبے چونکہ اس زمانے میں پیپلز پارٹی کا گڑھ تھے لہٰذا بھٹو صاحب نے کھوکھلی غیرت کا ٹین بجانے کے بجائے عملیت پسندی سے کام لیتے ہوئے تباہی کا حجم ناپا اور بین الاقوامی مدد کی اپیل کر دی۔
تب کی دنیا اب کی دنیا کے مقابلے میں اتنی سنگدل نہ تھی۔ چنانچہ یورپ، چین، ایران اور خلیجی ممالک کی جانب سے اچھی خاصی امدادی اشیا آئیں۔ حتیٰ کہ امریکا نے درجن بھر بڑے ہیلی کاپٹر عملے سمیت بھیج دیے جنھیں چاروں طرف سے پانی میں گھرے افراد کے لیے خوراک گرانے اور بیماروں اور زخمیوں کو شہری اسپتالوں تک ڈھونے کے لیے استعمال کیا گیا۔
خود بھٹو صاحب نے اپنا سیکریٹریٹ سفید سرکاری ہیلی کاپٹر میں منتقل کر لیا۔ یہ ہیلی کاپٹر جہاں خشک جگہ نظر آتی اتر جاتا۔ ملک کے حکمران کو دور دراز علاقوں کے مصیبت زدگان اپنے درمیان دیکھتے تو وقتی طور پر تکالیف بھول جاتے۔ جہاں جہاں بھٹو اترا وہاں وہاں بنا کچھ کہے اگلے پندرہ بیس برس کے لیے ووٹ بینک بنتا چلا گیا۔ بعد میں اس کے سیاسی وارثوں نے اس ووٹ بینک کو گھٹانے کی سرتوڑ کوششیں کیں جو اب تک جاری ہیں۔
مگر بھٹو کی سیلابی پھرتیاں آج تک سیلاب کے موسمی خطرے سے دوچار بوڑھی نسل کو یاد ہیں۔ دو ہزار دس کے اگست میں جب میں پانی سے گھرے راجن پور کے قصبے روجھان مزاری پہنچا تو ہائی وے کے دائیں بائیں سب علاقہ ڈوبا پڑا تھا۔ ایک چھپر ہوٹل پر پڑے ہماچوں (بڑے سائز کی چارپائی) پر کچھ بے گھر مقامی بیٹھے آسمان تک رہے تھے یا پھر ان میں سے کچھ چائے سڑک رہے تھے۔ ایک بزرگ سے دعا سلام ہوئی۔
باتوں باتوں میں اس نے واقعہ سنایا کہ انیس سو چھہتر والے سیلاب میں بھٹو اپنے ہیلی کاپٹر سے اترا اور گھٹنے گھٹنے پانی میں ہمارے گھروں کی طرف آیا۔ پہلا سوال یہ کیا کہ" تم کو روٹی مل رہی ہے؟" ہم نے کہا کہ "جھوٹ کیوں بولیں ہاں ہیلی کاپٹر اور ٹرک آتے رہتے ہیں مگر جو روٹی وہ دیتے ہیں تھوڑی دیر میں سوکھ جاتی ہے۔ "بھٹو نے کہا "اب ایسا نہیں ہوگا۔ "
بھٹو کے جانے کے اگلے دن ایک ہیلی کاپٹر آیا اور اس نے پیکٹوں میں بند روٹیاں گرائیں جن کے ایک طرف گھی لگا ہوا تھا۔ صاحب یہ بات بھٹو بھی جانتا تھا کہ گھی لگانے سے روٹی کی عمر بڑھ جاتی ہے۔ آخر خود زمیندار تھا نا۔ بھٹو کے جانے کے بعد اب سیلاب میں وہ مزہ نہیں۔ یہ کہہ کر بزرگ نے اپنے گھر کی طرف ٹکٹکی باندھ لی جو اب بھی پانی میں آدھا ڈوبا ہوا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ عام آدمی کو اپنی زندگی میں کوئی لمبی چوڑی تقریر یا تبدیلی نہیں چاہیے۔ بوقتِ ضرورت بس ایک کندھا چاہیے جس پر وہ ذرا دیر کو سر رکھ سکے۔ ایک بااختیار شخص چاہیے جو بات سنتے وقت ایسے ظاہر کرے کہ پوری توجہ سے سن رہا ہے۔
شہباز شریف نے بطور وزیرِ اعظم بلوچستان کا ایک ہفتے میں دوسری بار دورہ کیا اچھی بات ہے مگر بلوچستان بہت بڑا، اس کے مسائل اس سے بھی بڑے اور اس کی تنہائی ان مسائل سے بھی بڑی ہے۔ ایک وزیرِ اعظم کتنی بار جا سکتا ہے۔ دوسرے ملک گیر رہنماؤں کو بھی کچھ خیال کرنا چاہیے۔
مجھے یاد ہے کہ جب دو ہزار پانچ کا زلزلہ اور دو ہزار دس کا سیلاب آیا تو حکومت، سرکردہ غیر سرکاری تنظیموں اور ووٹ پکڑ سیاستدانوں کی جانب سے امدادی اپیل پر بڑے شہروں کے صاحبِ حیثیت لوگ اور نوجوان متحرک ہو گئے تھے۔
یہ ٹھیک ہے کہ معیشت نے بے غرضی کے جذبے پر کاری ضرب لگائی ہے، لیکن اتنے رضاکار تو آج بھی وہ سب بھیج سکتے ہیں جن کی ملک گیر مقبولیت ثابت کرنے کا زور صرف اس مقابلے بازی تک محدود ہو چکا ہے کہ کون پچھلے جلسے سے بڑا جلسہ کر سکتا ہے۔
یہ وقت الیکشن، کرپشن، انصاف، دھاندلی، امپورٹڈ، سلیکٹڈ کرنے کا نہیں آستینیں چڑھا کے آگے بڑھنے کا ہے۔ ورنہ قدرتی آفت کو سیاسی آفت بنتے دیر تھوڑی لگتی ہے۔