جیسے ہی خان صاحب نے کہا کہ شروع کے ڈیڑھ برس توکاروبارِ حکومت سمجھنے میں ہی لگ گئے۔ اب کارکردگی دکھانے کا وقت آ گیا ہے۔
ہر ہما شما ان کے پیچھے لگ گیا کہ دیکھو ہم نہ کہتے تھے اس بندے کو کچھ نہیں پتہ اور ملک اس کے حوالے کر دیا گیا۔ تب ہی کوئی پالیسی سیدھی نہیں ہے اور ملک یوں چل رہا ہے جیسے بنا لنگر کا جہاز سمندر میں ڈول رہا ہو۔ ملک چلانا نہیں آتا تو اقتدار میں آنے کا اتنا شوق کیوں تھا۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اب معاملات خان صاحب کی سمجھ میں آ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
کسی نے خان صاحب کو داد نہیں دی کہ بندے نے کم ازکم ایمانداری سے اعتراف تو کر لیا اور ہر خدا ترس حکمران کو اتنی بنیادی ایمانداری تو دکھانی ہی چاہیے کہ جو شے سمجھ میں نہیں آئی یا سمجھنے میں دیر لگی اسے صاف صاف قبول کرتے ہوئے آگے بڑھے۔
کوئی بھی اچھے خان ہو، پیدا ہوتے ہی تو سب نہیں جان سکتا۔ زندگی کی اونچ نیچ اور غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے۔ مگر اس کا اعتراف کرنے کے لیے چوڑا سینہ بھی تو چاہیے۔ جو حکمران بغیر اعتراف کے غلطی پر غلطی کرتے جاتے ہیں اور خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور پھر ملک کو لاوارث چھوڑ کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے دوسروں پر اپنی نااہلی کا بوجھ ڈال کر چلے جاتے ہیں وہ بہتر ہوتے ہیں یا اپنی کمی بیشی کو ماننے والا حکمران بہتر ہوتا ہے؟
ویسے بھی خان صاحب نے خود اعتراف کیا ہے۔ کسی نے کنپٹی پر پستول رکھ کے تو نہیں قبولوایا۔ شکر ہے کہ ڈھائی برس میں ہی بتا دیا کہ شروع کا ڈیڑھ برس کیسا گذرا۔ اگر پانچ برس بعد یہی اعتراف ہوتا یا نہ بھی ہوتا تو کوئی کیا بگاڑ لیتا۔ یہ خان صاحب کی بڑائی اور ظرف ہے۔ اور جو اسے ان کی کمزوری کے طور پر لے رہے ہیں یہ ان کا ظرف ہے۔
حکمران توآتے جاتے رہتے ہیں۔ ریاست کا کاروبار ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے۔ اب یہ حکمران کی ذاتی صلاحیت ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے منہ زور گھوڑے کو اپنی مرضی کی سمت میں دوڑانے کی طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے یا پھر خود اسٹیبلشمنٹ کی سواری بن جاتاہے۔ یہ وہ کلیہ ہے جس سے امریکا سے لے کر گنی بساؤ تک کسی ریاست کو مفر نہیں۔
امریکا میں جب بھی کوئی نیا صدر آتا ہے تو اسے بھی حکومتی فیصلہ سازی کی سائنس پر گرفت کرنے اور الف بے سمجھنے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ محکمہ خارجہ و دفاع سمیت ہر اہم و غیر اہم محکمے کے کھانپڑ اس کو بار بار تفصیلی بریفنگ دیتے ہیں۔ اقتصادی تھنک ٹینک آسان انگریزی میں ٹکنیکل چیزیں سمجھاتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا عملہ اسے صدارتی ادب آداب سے واقف کرواتا ہے۔ ریاستی پالیسی کے دائرے میں تقاریر لکھتا اور رٹواتا ہے۔ ہر فیصلہ لینے سے پہلے صدر نہ صرف اپنے قریبی مشیروں بلکہ سبجیکٹ کمیٹیوں اور چنندہ ارکانِ کانگریس سے مشورہ کرتا ہے۔
اسی طرح دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کے صدر کی بھی تربیت و تعلیم ہوتی ہے اور پھر اس کے نام سے فیصلے اور احکامات جاری ہوتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ سپرپاور کا حکمران داخلہ و خارجہ امور سے کس قدر باخبر ہے اور کرہِ ارض کی نبض پر اس کا کتنا مضبوط ہاتھ ہے۔
اب رہی یہ بات کہ آیا محض ایک حکمران کی ایمانداری پیچیدہ ریاستی نظام کو سمجھ کر چلا سکتی ہے یا پھر یہ سارا کھیل ایک ہی طرح کے جذبے سے سرشار مگر باصلاحیت افراد کے ٹیم ورک کا مرہونِ منت ہے۔ یہ وہ شرط ہے جس کے پورا ہوئے بغیر ایک جمہوری کیا فاشسٹ حکومت بھی نہیں چل سکتی۔ اس کے لیے مردم شناسی اولین شرط ہے۔
ضروری نہیں کہ آنکھ بند وفاداروں کی ٹیم باصلاحیت بھی ہو۔ لیڈر کا امتحان یہ ہے کہ وہ کس طرح باصلاحیت لوگوں کو ایک وفادار ٹیم میں بدل سکتا ہے۔ ایسی ٹیم ایک ایک موتی چن کے لڑی میں پرونے جیسا ہے۔ یہ کام خود کرنا پڑتا ہے۔ جتنی لیڈر میں صلاحیت ہو گی اتنی ہی ٹیم بھی اچھی یا بری بنے گی۔ ادھار میں ملنے والے ماہرین سے روزمرہ تو چل سکتا ہے مگر ادھاریوں یا اجرتیوں کے بل پر ریاست کو اپنے خوابوں کی تعبیر میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔
ہمارے ہاں اب تک جتنے بھی باوردی یا بلا وردی حکمران آئے ان کا احساسِ عدم تحفظ بھی ان کے ساتھ صدارتی محل یا ایوانِ وزیرِ اعظم میں در آتا ہے اور سائے کی طرح چپکا رہتا ہے۔ چنانچہ صلاحیت کو وفاداری کے مقابلے میں ہمیشہ پچھلی رو میں جگہ ملتی ہے۔
آدھا وقت تو آگا پیچھا بچانے میں صرف ہو جاتا ہے۔ کب کیا ہو جائے، کون کس کے ساتھ مل کے کیا گل کھلا جائے؟ بس یہی سوچ ہر فیصلے کی پشت پر ہوتی ہے۔ ایسے میں افلاطون بھی کرسی پر بیٹھا ہو تو اپنی بقا کے علاوہ کسی بھی قومی مسئلے پر کتنا اعلیٰ یا دوررس سوچ لے گا؟
جو ڈنڈے کے زور پر آتا ہے اسے یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ ڈنڈہ ٹوٹ نہ جائے یا چھن نہ جائے۔ جو ووٹ کے زور پر آتا ہے اسے بھی آڑھتیوں (پاور بروکرز) کو اختیاراتی بھتہ دیے بغیر محل میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔ محل کے صدر دروازے پر پچھلی حکومتیں ڈکارنے والے پیشہ ور استقبالی خوشامدی جادوگر فرشی سلام کرتے ہوئے نووارد پنچھی کو گھیر لیتے ہیں اور اپنی لچھے داریوں سے بڑے بڑے انقلابی دماغ کو جکڑ کر دولے شاہ کی کھوپڑی سے بدل دیتے ہیں۔
اور پھر فیصلے کوئی اور کرتا ہے مگر نام بدنام ہز ہائی نیس کا ہوتا ہے۔ اور ہز ہائی نیس بھی اس عالیشان ذلت کو یہ سوچ سوچ کر سہتے رہتے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو پروٹوکول تو مل ہی رہا ہے، ہٹو بچو تو ہو ہی رہی ہے، آگے پیچھے سائرن تو بج ہی رہے ہیں، سلام پر سلام تو پڑ ہی رہے ہیں۔ پہلے بھی خجل تھے، آیندہ بھی خجل خواری ہی کا زیادہ امکان ہے لہٰذا چار دن کی چاندنی کے مزے ہی لے لو۔
رہی فیصلہ سازی اور خود کو سب سے منوانے کی دھن اور اقتداری خود مختاری۔ جنھوں نے پہلے اس طرح کی مہم جوئی کا خطرہ مول لیا انھوں نے کسی کا کیا اکھاڑ لیا۔ الٹا اپنے جان و مال و خاندان کا نقصان کیا۔ چنانچہ جس حد تک بھی ممکن ہو ایمانداری و وضع داری کے ساتھ اپنا وقت کاٹو اور وہ گائے مت بنو جس کا خیال ہے کہ دنیا اسی کے سینگوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ اس کوشش میں دنیا کا توکچھ نہیں بگڑتا اکثر اپنے ہی سینگ ٹوٹ جاتے ہیں۔
مگر ایمان داری کا بھی کیا کریں۔ وہ بھی پر ہیزگار حکمران کا تب تک ساتھ دیتی ہے جب تک بے ایمانی کے اژدھے کی دم پر پاؤں نہ پڑے۔ چھوٹے موٹے جانور کچلنے میں البتہ کوئی حرج نہیں۔ اور کچلنے بھی چاہئیں تاکہ کچھ دیر تلک تھوڑا بہت دبدبہ تو قائم رہے۔