تازہ ترین امریکا میں لمحہ با لمحہ بدلتے حالات پر لمحہ با لمحہ لکھا کہا سنا جا رہا ہے۔ یہ غوغا جن بنیادی سوالات کے گرد گھوم رہا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امریکا تو ایسا نہ تھا۔ یہ یکایک کیا ہو گیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کے ساتھ ہی ٹرمپیانہ سیاست اور سوچ کا کریا کرم ہو جائے گا یا یہ امریکا میں نئے سیاسی رجحان کی ابتدا ہے؟
امریکا تو ایسا نہ تھا! یہ استفہامیہ ان کا ہے جنھیں امریکی تاریخ سے واجبی واقفیت ہے۔ جی ہاں امریکا ایسا ہی تھا۔ اولین یورپی آبادکاروں نے اصل امریکیوں یعنی " نام نہاد ریڈ انڈینز" سے نہ صرف اس سرزمین کو چھینا بلکہ ان کی نسل کشی کے ذریعے یہ دعویٰ ہی مٹا دیا کہ امریکا دراصل اس کے اصل باشندوں کا ہے یا آبادکاروں کا۔
یورپی آبادکاروں نے نئے امریکا کی تعمیر اپنے ہاتھوں سے نہیں کی بلکہ ابتدا میں یورپ کے کمزور معاشی طبقات سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن کی محنت کا بقدرِ طاقت استحصال کیا اور جب یہ تارکین ِ وطن اپنے حقوق کے بارے میں سیانے ہونے لگے اور ان میں بھی سفید رنگت کی بنا پر برابری کی اکڑ آنے لگی تو پھر افریقہ سے " نیم انسان " سیاہ فام افریقی غلاموں کو درآمد کیا گیا۔ ان سے زمینیں جتوائی گئیں، قصبات تعمیر کروائے گئے، حویلیاں اٹھوائی گئیں۔
ان غلاموں کو افراط کی نئی سرزمین میں اتنی ہی خوراک دی گئی جتنی زندہ رکھنے کے لیے کافی ہو، اتنی ہی چھت دی گئی جس کے تلے ان کا بدن نہ بھیگے اور وہ بیمار نہ پڑ جائیں، اتنے ہی کپڑے دیے گئے جنھیں دھو کر وہ دوبارہ پہن سکیں تاکہ ان کے پسینے کی بو سے مالک کے گلابی نتھنے محفوظ رہیں۔ اور اتنے ہی بنیادی حقوق دیے گئے جتنے گھر کے برتنوں، فرنیچر اور کھیت میں جوتے گئے گھوڑوں کو دیے جاتے ہیں۔ رائے اور ووٹ کے حق کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
اور یہ جو اٹھارہ سو ساٹھ کے چار برس امریکا کی غلام پسند جنوبی ریاستوں اور آزادی پسند شمالی ریاستوں کے درمیان خانہ جنگی ہوئی اور اس کے نتیجے میں غلامی کے خاتمے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ یہ بھی فریبِ نظر تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ گرم جنوبی ریاستوں کی معیشت زرعی تھی لہٰذا ان کے کھیتوں کے لیے غیر ہنرمند یا نیم ہنرمند سیاہ فام غلام کافی تھے۔ سرد شمالی ریاستیں زراعت کے مقابلے میں صنعت کاری کے لیے زیادہ سازگار تھیں۔ چنانچہ انھیں ہنرمند افرادی قوت درکار تھی جو سادہ سے ہل کے بجائے مشین چلا سکے۔ جس میں تکنیکی فرائض کی بجاآوری کا بنیادی شعور اور اہلیت بھی ہو۔
اس ماحول میں جدت کاری و صنعت کاری کو آگے بڑھانے اور سرمائے سے سرمایہ پیدا کرنے کے لیے روشن خیالی و تخلیقی اظہار کی آزادی کی ضرورت محسوس ہوئی اور حقوق کے شعور نے ٹریڈ یونین ازم کی صورت اختیار کی۔
اس نئے ماحول میں پوشیدہ اور قوانین کے جال میں لپٹی غلامی تو موجود تھی مگر ننگی فرسودہ غلامی قبول نہیں تھی۔ جنوب نے اس سوچ کو اپنے زرعی معاشی مفادات پر کاری حملہ سمجھا اور شمال نے جنوب کی کہنہ سوچ کو نئے صنعتی امریکا کی پیدائش کی راہ میں رکاوٹ سمجھا اور آپس میں بھڑ گئے۔
آپ یہ دیکھیے کہ شمال کی جیت اور غلامی کو غیرقانونی قرار دینے کے کاغذی اعلان کے باوجود خانہ جنگی کے بعد اگلے پچپن برس تک خواتین کو امریکی جمہوریت میں ووٹ کا حق نہیں ملا۔ اور سیاہ فاموں کو اگلے ایک سو برس تک ووٹ کا حق نہیں ملا۔
جنوبی ریاستوں کی شکست کے باوجود ان کے خانہ جنگی برپا کرنے والے نسل پرست جرنیلوں اور سیاستدانوں کے مجسمے آج بھی جنوبی ریاستوں میں دکھائی دیں گے۔ گزشتہ ہفتے کیپیٹل ہل کی غلام گردشوں میں ہلڑ کی بے شمار تصویروں میں ایک تصویر وہ بھی ہے جس میں ایک سفید فام نے جنوبی ریاستوں کی باغی کنفیڈریشن کا ڈیڑھ سو برس پرانا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے۔ یعنی زندہ ہے نظریہ زندہ ہے۔ ڈیڑھ سو برس پہلے کی شکست کے باوجود زندہ ہے۔
خانہ جنگی میں ہار جیت کے فیصلے کے باوجود نسل پرستی امریکی ریاستی نظام کی نسوں سے نہ نکل پائی۔ خانہ جنگی میں حصہ لینے والے بزرگوں کی اگلی پیڑھی نے کوکلس کلان (کے کے کے) کی شکل میں نسل پرستانہ نظریے کا پرچم تھام لیا۔ بھرے مجمع میں سیاہ فاموں کو درختوں سے لٹکا کر پھانسی دینے یا جلانے کی روایت برقرار رہی۔ ابھی پینسٹھ برس پہلے تک متعدد جنوبی ریاستوں میں کالوں اور گوروں کے بار اور پبلک ٹرانسپورٹ میں نشستیں الگ الگ تھیں۔
ووٹ کا مساوی حق ملنے کے باوجود ہر ریاست چونکہ اپنے انتخابی قوانین بنانے میں آزاد ہے لہٰذا کالوں کو پولنگ سے دور رکھنے کے لیے ہر حربہ قانون کے پردے میں استعمال کیا گیا اور آج بھی کیا جا رہا ہے۔ کوکلس کلان پر بظاہر پابندی عائد ہے۔ مگر اس کے نظریے سے جڑے لوگوں نے نئی تنظیمیں اور زیرِ زمین گروہ بنا لیے۔ ان گروہوں میں اکثریت سابق فوجیوں اور ریٹائرڈ پولیس والوں کی ملے گی۔
چونکہ کوئی بھی امریکی شہری اسلحہ خرید سکتا ہے۔ لہٰذا وقت پڑنے پر ان نسل پرستوں کو مسلح ملیشیا بننے میں کتنی دیر لگ سکتی ہے۔ انیس سو پچانوے کی اوکلاہوما بومبنگ اور اسکولوں پر نسل پرستوں کے مسلح حملوں میں سالانہ سیکڑوں ہلاکتوں کے باوجود امریکی ریاست ہر شہری کو اسلحہ رکھنے کے آئینی حق سے محروم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ نسل پرستی اقتصادی بحران کے زمانے یا بے روزگاری کی شرح میں اضافے کے دوران اور زیادہ شدت سے ابھر آتی ہے۔ جب دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کے علاوہ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا سے بھی تارکینِ وطن بہتر مستقبل کی تلاش میں نسبتاً زیادہ تعداد میں امریکا آنے لگے تو نسل پرستوں نے سفید فاموں کو یہ بتا کر خوف زدہ کرنا شروع کیا کہ چند ہی برسوں میں وہ اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے اور امریکا کی سفید فام تہذیب غلیظ اور وحشی ممالک سے آنے والوں کے کالے اور گندمی رنگ میں رنگ جائے گی۔
اگرچہ امریکی ریاستوں میں ستر فیصد پولیس اور اسی فیصد قومی مسلح افواج سفید فاموں پر مشتمل ہے۔ ریاستی اسمبلیوں اور وفاقی قانون ساز اداروں میں اسی فیصد نمایندے سفید فام ہیں۔ اس کے باوجود معاشی ناآسودگی کی شکار نیم خواندہ سفید فام اکثریت نے چند برس میں اقلیت بن جانے کے خوف کو آمنا و صدقنا کہا۔ ٹرمپ نے بس اتنا کیا کہ اس خوف کو سیاسی قوت اور زبان دے دی۔
جیسا کہ ہٹلر نے جرمنوں کو قائل کر لیا تھا کہ یہودی اقلیت تمہیں کھا جائے گی لہٰذا تم انھیں کھا جاؤ۔ ہٹلر کے جانے کے باوجود نیو نازی تحریک زندہ رہی اور پھر سے یورپ میں تیزی سے پر پھیلا رہی ہے۔ جیسا کہ مودی نے ہندوؤں کو قائل کر لیا کہ مسلمان اگلے پچاس برس میں بھارت پر کثیر اولادی اور ہندو لڑکیوں کو ورغلانے کے نتیجے میں تم پر چھا جائیں گے۔
بقول کسے ٹرمپ نے امریکا کو نسل پرست نہیں بنایا۔ بلکہ نسل پرستوں کو امریکی سیاست کے مرکزی دائرے کا پھر سے ایک اہم کھلاڑی بنا دیا۔ جب اس نے کہا کہ " امریکا کو دوبارہ عظیم تر بنائیں گے " تو مراد یہی تھی کہ امریکا میں چند دہائیوں کے لیے بظاہر دبا دی گئی نسل پرستی کے تن میں پھر سے جان ڈالی جائے گی۔ نتیجہ ہم سب نے دیکھ لیا کہ انتخابات میں تقریباً پندرہ کروڑ ووٹ پڑے مگر ٹرمپ جو بائیڈن سے صرف پچپن لاکھ ووٹوں کے فرق سے ہارا۔
اس وقت سب سے مضحکہ خیز حالت ریپبلیکن پارٹی کی ہے۔ وہ بظاہر امریکی آئین و قوانین کی بالادستی کے مطالبے پر ہاں میں ہاں ملانے پر بھی مجبور ہیں مگر ٹرمپ کے مواخذے کی اپنے ووٹروں کے خوف سے کھل کے حمایت بھی نہیں کر پا رہی۔
امریکا اس وقت عین درمیان سے منقسم ہے۔ جیسے اٹھارہ سو ساٹھ میں ہوا تھا۔ موجودہ خانہ جنگی شاید بندوقوں سے تو نہ لڑی جائے مگر دو ہزار چوبیس کا صدارتی انتخاب گھمسان کا ہوگا۔ ٹرمپ رہے نہ رہے مگر اس کے نظریے نے آدھے امریکی ووٹ تو کھینچ لیے ہیں۔ اسی ووٹ پکڑ نسخے کو اگلا ریپبلیکن صدارتی امیدوار ذرا زیادہ نفاست کے ساتھ استعمال کرے گا۔ ٹرمپئیت کو نسل پرستانہ امریکی سیاست کی نئی لہر سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ صدر نہیں رہا تو کیا ہوا۔ رہبرِ تحریک تو رہے گا۔
تیزی سے بدلتی دنیا میں نئے امریکا کی نئی جگہ کیا بنے گی؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ البتہ امریکا اب کافی عرصے تک خود میں الجھا رہے گا۔ عوامی جہموریہ چین کے لیے یہ اکیسویں صدی کی سب سے اہم خبر ہے۔