اگرچہ روس نے یوکرین کی سرحد پر گزشتہ ایک ماہ سے ایک لاکھ فوج جمع کر رکھی ہے اور دونوں ملکوں اور پھر روس اور ناٹو کے مابین اعصابی جنگ بھی جاری ہے۔ مگر جس طرح امریکا اور برطانیہ ممکنہ روسی جارحیت اور اس کے نتائج کے بارے میں مسلسل خوفناک پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ اس سے خود یوکرینی بھی بیزار ہو رہے ہیں۔ بقول یوکرینی وزیرِ خارجہ دیمیترو کولیبا اتنے خوفزدہ تو ہم بھی نہیں جتنے ہمارے دوست ڈرا رہے ہیں۔
کسی ممکنہ روسی جارحیت کے دوران یوکرین کے دوست آڑے وقت میں کس قدر مدد کر سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ یوکرین کو پچھلے ہفتے ہی ہوگیا جب جرمنی نے واضح کر دیا کہ وہ اسلحہ تو نہیں بھیج سکتا البتہ پانچ ہزار فوجی ہیلمٹ ضرور بھیج سکتا ہے۔ یوکرین خاطر جمع رکھے کہ اس نازک وقت میں اس کے دوست اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اس پر یوکرین کے دارالحکومت کیف کے مئیر وٹالی کلشکو نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں مارے حیرت گنگ ہوں۔ ہمیں ایک تیار مسلح دشمن کا سامنا ہے۔ تو کیا جرمنی اگلی کھیپ تکیوں کی بھیجے گا؟
سب دنیا جانتی ہے کہ روسیوں کو شطرنج سے کتنا عشق ہے۔ میخائیل بوٹوونک، اناطولی کارپوف، گیری کیسپروف۔ نام تو سنا ہوگااور اب درپیش ہیں ولادی میر پوتن جو " کھبا دکھا کر سجا " مارنے کے لیے پچھلی کم ازکم ڈھائی دہائیوں سے جانے جاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کی شطرنجی بساط سے لے کر کریمیا پر قبضے اور اندرونی مخالفین سے نپٹنے کی "دامن پے کوئی چھینٹ نہ خنجر پے کوئی داغ" تکنیک دیکھ لیں۔ پوتن کے بارے میں سرسری اندازہ تو ہو ہی جائے گا کہ وہ کس طرح کا گیمر ہے۔
اگر یوکرین کے معاملے میں امریکا اور برطانیہ یوکرینیوں سے بھی زیادہ واویلا مچا رہے ہیں اور ناٹو کے یورپی یونین اتحادی محض علامتی غوغائی خانہ پری کر رہے ہیں تو کوئی تو وجہ ہو گی؟ وجہ صاف صاف ہے۔
روس گیس کا سب سے بڑا عالمی برآمد کنندہ ہے۔ برطانیہ اور امریکا کا انحصار روسی قدرتی گیس پر نہیں۔ جب کہ یورپ اپنی ضروریات کی پینتیس فیصد گیس کے لیے روس کا محتاج ہے۔ اس گیس کے سب سے بڑے خریدار جرمنی، اٹلی اور نیدرلینڈز ہیں۔ آسٹریا اگرچہ اپنی ضرورت کی بیس فیصد گیس روس سے خریدتا ہے، مگر دیگر یورپی ممالک کے برعکس اس بابت اس کا سو فیصد انحصار روس پر ہے۔ یہی حال سلوواکیہ اور ہنگری کا بھی ہے۔
اس سے بھی زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ روسی گیس کی سپلائی جس پائپ لائن سے ہوتی ہے وہ یوکرین سے گذرتی ہوئی بیلا روس اور پولینڈ کے راستے یورپ پہنچتی ہے۔
جب کہ دوسری پائپ لائن نورڈ اسٹریم ون بحیرہ بالٹک کے راستے دو ہزار گیارہ سے مغربی سائبیریا سے یورپ کو گیس پہنچا رہی ہے۔ جرمنی چاہتا ہے کہ کسی بھی عسکری بحران کی صورت میں گیس سپلائی متاثر نہ ہو لہٰذا وہ بحیرہ بالٹک میں ایک اضافی پائپ لائن نارڈ اسٹریم ٹو کے ذریعے گیس کی محفوظ ترسیل کا شدت سے خواہش مند ہے۔ اگرچہ پچپن بلین کیوبک میٹر سالانہ گنجائش والی مذکورہ پائپ لائن کا گیارہ بلین ڈالر لاگت کا منصوبہ گزشتہ برس ستمبر میں مکمل ہو چکا ہے۔ مگر ابھی اس کی آزمائش ہی ہو رہی تھی کہ یوکرین کا بحران سر پے آ گیا۔
ایک دقت یہ ہے کہ جب تک یورپی کمیشن اپنے طے کردہ ماحولیاتی معیارات کی کسوٹی کے مطابق اس پائپ لائن سے گیس کی ترسیل کی اجازت نہیں دیتا تب تک یورپ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ امریکا کو خدشہ ہے کہ اگر یورپ کا دار و مدار روسی گیس پر بڑھتا چلا جاتا ہے تو پھر روس اسے ایک اسٹرٹیجک ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ امریکا نے اس کا حل یورپ کو اپنے ذخائر اور قطر سے مایع گیس کی ترسیل کی تجویز کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مگر روسی پائپ گیس کے مقابلے میں اس کی لاگت اتنی زیادہ ہے کہ افراطِ زر سے جوجتے جرمنی کی حکومت ووٹروں کے ہاتھوں ڈگمگا سکتی ہے۔
دوسری اڑچن یہ ہے کہ اگر روسی گیس کی ترسیل زمینی راستے کے بجائے پوری کی پوری بحری پائپ لائن کے ذریعے ہونے لگے تو پھر یوکرین دو ارب ڈالر اور بیلا روس اور پولینڈ ڈیڑھ ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ ٹرانزٹ فیس سے محروم ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ان ممالک کو بھی نئی پائپ لائن نہیں بھا رہی۔
اگر امریکی خدشات کو درست مان کے یہ فرض کر لیا جائے کہ روس آج یا کل میں یوکرین کو روند کر وہاں ایک طفیلی حکومت کے قیام کی مہم جوئی کرنے والا ہے تو گیس سپلائی درہم برہم ہونے اور مغربی اقتصادی پابندیوں کے سبب یورپ کے لیے گیس سپلائی کا سنگین بحران یقیناً پیدا ہو سکتا ہے مگر روس بھی اقتصادی گرداب میں پھنس سکتا ہے۔
سیدھا سیدھا حساب ہے کہ اگر خریدار کو دکان دار چاہیے تو دکان دار کو بھی خریدار کی ضرورت ہے۔ روس ستر کی دہائی سے یورپ کو گیس دے رہا ہے۔ سرد جنگ کی کشیدگی بھی اس تجارت کو متاثر نہیں کر سکی۔ اگر تنگ آمد بجنگ آمد مغرب اپنی گیس کی پینتیس فیصد ضروریات کے متبادل کی تلاش شروع کر دیتا ہے تو پھر روس فوری طور پر اپنی گیس کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ کہاں فروخت کرے گا؟
اگرچہ چین وسطی ایشیائی اور روسی گیس کا بہت بڑا خریدار ہے اور سائبیریا کے تیل اور گیس کے ذخائر میں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ مگر چین بھی پوری گیس تو نہیں اٹھائے گا۔
اس تناظر میں یوکرین کے تنازعے کو نئی سرد جنگ کی شطرنجی بساط کی ایک چال سمجھنا چاہیے۔ جس کا مقصد ایک دوسرے کے پر تول کے اگلی چال چلنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ مگر پاگل پن پے کسی کا اجارہ بھی تو نہیں۔