خوش قسمتی کہہ لیں یا بدقسمتی۔ اس وقت صحیح معنوں میں اگر کوئی اصلی نیوٹرل ہے تو وہ ہے معیشت۔ نیوٹرل گیئر میں چلنے والی معیشت کے دل میں کوئی کھوٹ نہیں۔ جو اندر ہے وہی باہر بھی نظر آ رہا ہے۔
معیشت پر ہر سیاسی نے ڈورے ڈالنے کی کوشش کی مگر یہ حرافہ سب کو چکمہ دے کے نکل گئی اور اب ان سب چکمے بازوں سے تاتا تھئیا کروا رہی ہے۔ مورال مزید نہ گرے اس لیے میں یہ کہنے سے باز رہوں گا کہ پاکستان اس وقت معاشی اعتبار سے ایک زیرِ تعمیر سری لنکا ہے، مگر میرے نہ کہنے سے کیا ہوگا؟
معیشت اس چلتی ٹرین کی طرح ہے جس کے ڈرائیور نے چھلانگ لگا دی ہے کیونکہ لال سگنل سامنے ہے اور انجن کی بریکیں ڈھیلی ہیں۔ ایک دم بریک لگائی تو ٹریک بھی اکھڑ سکتا ہے اور بائیس کروڑ مسافروں سے کچھا کھچ بھرے ڈبے بھی الٹ سکتے ہیں۔ نہ بریک لگائی تو لگ بھگ پانچ کلو میٹر آگے شہباز موڑ کے فوراً بعد ایک شکستہ پل ہے۔
تادمِ تحریر ڈالر ریگولر مارکیٹ میں ایک سو ترانوے، اوپن مارکیٹ میں ایک سو پچانوے روپے اور اسمگلرز مارکیٹ میں دو سو روپے میں دستیاب ہے۔ جب تک یہ تحریر آپ کی نگاہوں سے گزرے گی نہ جانے روپے پر کیا گزر چکی ہو گی۔
اگست دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان کو حکومت دلائی گئی تو تھوڑے عرصے بعد ہی ان کا اعتراف سامنے آیا کہ باہر کچھ اور نظر آ رہا تھا۔ اندر آئے ہیں تو لگ پتہ گیا۔
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
جنھیں انتخابات میں شکست ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے زیادہ شیان پتی دکھاتے ہوئے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار کے سیاسی ناتجربہ کار لونڈوں کو بدکے گھوڑے کی باگ تھما دی۔ اب دیکھنا کیا ہوتا ہے۔
چنانچہ نئی حکومت اگلے دو تین مہینے تذبذب میں ہی رہی کہ کیا کریں۔ آئی ایم ایف کے جال میں پھنسیں کہ دوست امیر ممالک سے مدد طلب کر کے بینک اسٹیٹمنٹ کو اچھا دکھائیں۔ جب کسی نے مروت نہ دکھائی تو ناچار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا اور پھر اگلے ساڑھے تین برس تک وہ تمام کڑوی گولیاں عوام کو نگلوائی گئیں جو دراصل آئی ایم ایف نے حکمران اشرافیہ کے وزن میں کمی کے لیے تجویز کی تھیں۔
القصہ مختصر انصافی حکومت معاشی تکالیف کا ذمے دار بین الاقوامی حالات، کوویڈ اور کنٹرول سے باہر اسباب پر ڈالتی رہی اور حزبِ اختلاف (ن اور پی) نے اس بیانیے کی دم پکڑ لی کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ ناتجربہ کار لڑکے معیشت کو تو خیر کیا مستحکم کریں گے انھوں نے تو گزشتہ کامیابیوں پر بھی پانی پھیر کے ملک کو کم ازکم دس برس پیچھے دھکیل دیا۔ ہور چوپو، ہور سیانے بنو، ہن آرام اے وغیرہ وغیرہ۔
پھر پی ڈی ایم بنی جس کا مقصد نااہل سلیکٹڈ حکومت سے نجات دلا کر عوام کو کمر توڑ مہنگائی اور ملک کو معاشی دلدل سے نکالنا تھا تاکہ جو رہی سہی سکت باقی ہے کہیں وہ بھی نہ چس جائے۔ اوپر والوں کو بھی باور کرایا گیا کہ آپ کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔ آپ غلطی سے مسٹیک کر بیٹھے ہیں۔ کام سیدھا کرنا ہے تو آنا تو پھر ہمارے پاس ہی پڑے گا۔ پچاس کھائیں گے تو پچاس لگائیں گے بھی اور اکیلے اکیلے تھوڑی کھائیں گے۔
ٹو کٹ دی اسٹوری شارٹ۔ حکومت کسی بالائے قانون اقدام کے بغیر آئینی راستے سے بدلی گئی۔ اور پھر سب اپنی اپنی رکابی آگے رکھ کے اکڑوں بیٹھ گئے کہ دیکھیں یہ گرگان باران دیدہ، گرم و سرد چشیدہ و بار بار کے آزمودہ اس بار اپنے ہیٹ سے کون سا خرگوش نکال کے سیاسی و معاشی عدم استحکام کا تدارک کرتے ہیں۔ ان کے پاس کون سی نئی گیدڑ سنگھی ہے جو لونڈیہار حکومت کے ہاتھ نہ لگ سکی۔
کسی بھی حکومت کو اس کے پہلے مہینے کی کارکردگی پر پرکھنا اور فتوے دینا زیادتی ہے۔ پوت کے پاؤں اچھے سے دیکھنے کے لیے کم ازکم تین مہینے درکار ہوتے ہیں۔ عمران حکومت کو بھی اپنا سر تال ٹھیک کرنے کے لیے سو دن دیے گئے تھے۔ مگر عمران حکومت کی جگہ جس منڈلی نے لی ہے وہ تو لاہور، نواب شاہ اور ڈیرہ گھرانے کے مہان خاندانی گائیکوں پر مشتمل ہے۔ انھیں کیسے سو دن کی رعایت دی جائے، یہ تو ان کے فن اور " خانصابی" اور پوروجوں کی توہین ہے۔
پر وہ جو کہتے ہیں کہ آپ بھلے کتنے ہی بڑے غلام علی خان رہے ہوں۔ اگر ریاض چھوٹ جائے تو مانو تان سین بھی خام ٹین میں تبدیل ہو جاتا ہے (یہاں ریاض سے مراد کوئی شہر نہیں بلکہ موسیقی کا ریاض ہے)۔
چنانچہ کمینے کن رسیوں کو پہلے پانچ منٹ میں ہی اندازہ ہو گیا کہ نوسکھیوں سے منڈب چھین کر الاپ شروع کرنے والے گھرانہ گائیکوں کا گلا بیٹھا ہوا ہے۔ ساز بھی آپس میں نہیں مل رہے۔ طبلہ کسنے والی ہتھوڑی بھی کانپ رہی ہے، ٹالکم پوڈر کے ڈبے سے بھی ہوا نکل رہی ہے اور دور ایک بے تالا لوہار کندھے پے ہتھوڑا رکھے لال بھبھوکا ہو رہا ہے۔
اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور جو بھی ہونے جا رہا ہے۔ سب اپنا کیا دھرا ہے۔ اللہ کی یہ مرضی ہرگز ہرگز نہیں تھی۔ لہٰذا مرض اور مرضی کو خلط ملط نہ کیا جاوے۔
شاید آپ کو یاد نہ ہو مگر ٹھیک ایک برس پہلے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی نے اپنی ایک رپورٹ میں بنیادی بیماری کی تشخیص کر دی تھی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پچاس فیصد قومی آمدنی بیس فیصد بالائی طبقے کے تصرف میں ہے اور نچلے بیس فیصد تک صرف سات فیصد آمدنی پہنچ رہی ہے۔ حالانکہ یہی نچلا بیس فیصد پاکستان کی زرعی و نیم صنعتی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
مخضوص مراعات، ٹیکس چھوٹ، قرضوں، زمین، بھاری بھاری نوکریوں، صنعتی و کاروباری ترغیبات کی شکل میں کل قومی آمدنی کا چھ فیصد (اٹھارہ ارب ڈالر) کارپوریٹ سیکٹر، رئیل اسٹیٹ، بڑی زمینداری، سیاسی معیشت، عسکری مراعات اور آوٹ آف ٹرن سرپرستی پر لنڈھایا جاتا ہے۔ اور اس سرپرستی کو مزید طاقت کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ان ہی طبقات یا ان سے منسلک کاسہ لیس بچولیے انتخابات میں مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے ہیں، اور کسی بھی پارلیمنٹ میں ان کی تعداد اسی فیصد سے کم نہیں ہے۔ اب ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ رضاکارانہ طور پر ملک کی اسی فیصد آبادی کو بھی بہت ہی بنیادی باعزت زندگی گذارنے کے لیے کوئی حقیقی قانون سازی کریں گے یا مالِ غنیمت میں سے تھوڑا بہت حصہ دیں گے تھوک سے پن چکی چلانے کی آرزو جیسا ہے۔
نادرا کے ریکارڈ میں ایسے دس لاکھ پاکستانیوں کا ڈیٹا تیار پڑا ہے جو اکیسویں صدی کی ہر سہولت سے فیضیاب ہیں مگر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ اس ڈیٹا کو بے مروتی سے استعمال کر لیا جائے تو آئی ایم ایف کو بھی قرضہ دیا جا سکتا ہے۔
مورل آف دی اسٹوری) کنوئیں سے چالیس ڈول پانی نکالنے سے کنواں پاک نہیں ہو سکتا جب تک اس میں سے غرض کے کتے کی لاش نہیں کھینچی جاتی۔