اٹھارہ جنوری کو بی بی سی کی دستاویزی فلم "انڈیا: دی مودی کوئسچن " کا پہلا حصہ کیا ریلیز ہوا کہ بھارت میں بھونچال آ گیا۔ وزارتِ خارجہ نے اسے نوآبادیاتی متعصبانہ گوری سوچ کا شاہ کار قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا۔
وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ہنگامی اختیارات سے کام لیتے ہوئے یو ٹیوب اور ٹویٹر سمیت سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز کو بھارت کی جغرافیائی حدود میں یہ دستاویزی فلم دکھانے سے روک دیا اور خلاف ورزی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
چنانچہ یو ٹیوب نے تابعداری دکھاتے ہوئے اس فلم کے تمام لنکس ڈاؤن کر دیے۔ ایلون مسک نے ٹویٹر پر اس فلم سے متعلق تبصروں کو بھی سنسر کرنا شروع کر دیا۔ اندرونِ ملک جتنے بھی نیشنل ٹی وی چینلز تھے انھوں نے فلم دیکھے بغیر ہی اس کے مواد پر بھرپور جارحانہ تنقید شروع کر دی۔
بی جے پی مخالف گروہوں اور یونیورسٹی لونڈوں کے ہاتھ ایک اور مزاحمتی شغل آ گیا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی بائیں بازو کی طلبا یونین نے اعلان کیا کہ ہم تو یہ دستاویزی فلم سرِ عام دکھائیں گے۔
اس اعلان سے یونیورسٹی انتظامیہ میں سراسیمگی پھیل گئی اور اس نے کیمپس کی حدود میں" نقصِ امن اور گروہی منافرت پھیلنے کے خدشے " کو جواز بناتے ہوئے فلم کی نمائش پر پابندی عائد کر دی۔
مگر لمڈے کہاں باز آتے ہیں انھوں نے اس فلم کے لنکس شئیر کرنے شروع کر دیے اور جے این یو کے میدانوں اور کاریڈورز میں طلبا و طالبات نے اپنے اپنے موبائل فونز اور لیپ ٹاپس پر یہ فلم ٹولیوں کی شکل میں جم کے دیکھی، کیونکہ کیمپس انتظامیہ نے بجلی بند کر دی تھی۔
یہی مناظر ریاست کیرالہ کی مختلف یونیورسٹیوں اور حیدرآباد کی نیشنل یونیورسٹی میں بھی دیکھے گئے، جب کہ سوشل میڈیا پر لنکس لگانے والوں اور لنکس اتارنے والوں کا مقابلہ چھڑ گیا۔
آخر بی بی سی کی دستاویزی فلم میں ایسا کیا تھا جس کی نمائش مودی حکومت برداشت نہیں کر سکی یا ایسی کون سی نئی بات تھی جو پچھلے بیس برس میں نہیں کہی سنی گئی۔
اگرچہ بھارتی سپریم کورٹ نے دو ہزار بارہ میں نریندر مودی کو گجرات کے قتلِ عام میں براہ راست ملوث ہونے سے مبرا قرار دے دیا تھا، مگر بی بی سی کی فلم میں فروری سن دو ہزار دو میں ریاست گجرات کے ریلوے اسٹیشن گودھرا پر یاتریوں سے بھری ٹرین میں آتشزدگی کے سبب انسٹھ یاتریوں کی ہلاکت کی ذمے داری مسلمانوں پر ڈال کے ان کی نسلی صفائی کے منظم کام میں ریاستی حکومت اور وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کے براہ راست کردار کے بارے میں برطانوی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ کو اپنی فلم کا مرکزہ بنایا گیا۔
اس وقت ٹونی بلئیر وزیرِ اعظم اور جیک اسٹرا وزیرِ خارجہ تھے۔ فلم میں جیک اسٹرا نے اعتراف کیا کہ ہمیں معلوم تھا کہ مودی اس قتلِ عام کی منصوبہ بندی میں یا تو براہ راست ملوث تھا یا پھر اس بارے میں علم رکھتا تھا۔ مگر ہم اس بابت واجپائی حکومت پر براہِ راست دباؤ ڈالنے کی سفارتی پوزیشن میں نہیں تھے۔
ہم نے یہ رپورٹ مرتب تو کر لی مگر دوطرفہ تعلقات کی نزاکتوں نے ہمیں اسے شایع کرنے سے روکے رکھا۔
دستاویزی فلم میں کہا گیا کہ اس قتلِ عام کا مقصد ہندو اکثریتی علاقوں سے مسلمانوں کو من حیث ال طبقہ مضافاتی مقامات اور کیمپوں میں منتقل کر کے ان کی معیشت تباہ کر کے بالکل کونے میں دھکیلنا تھا۔
یہ ایک تجربہ تھا جسے گجرات کی ہندوتوا لیبارٹری میں کیا گیا اور پھر اس تجربے کو بعد ازاں قومی سطح پر زیادہ بہتر طریقے سے مرحلہ وار دہرانے کا اہتمام کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزیرِ اعلیٰ (مودی) نے گودھرا ٹرین آتشزدگی کے بعد سینئیر پولیس افسروں سے کہا کہ وہ ردِعمل کو روکنے میں عجلت سے کام نہ لیں اور کچھ دن اپنے کام سے کام رکھیں۔
مرکز میں وزیرِ اعظم واجپائی اس قتلِ عام میں ریاستی حکومت کی ساز باز سے واقف تھے۔ چنانچہ ان فسادات کے بعد گوا میں بے جی پی کے کنونشن میں انھوں نے نریندر مودی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ انھیں اپنا " راج دھرم " (سرکاری ذمے داریاں ) نہیں بھولنا چاہیے تھا۔ اس جملے پر مودی کا منہ لٹک گیا اور پھر چہرہ غصے سے تمتما گیا۔
جب مرکزی حکومت نے گجرات کے قتلِ عام کی خبروں سے جنم لینے والی بین الاقوامی بدنامی کم کرنے کے لیے فوج کو ریاستی حکومت کی مدد کرنے کا حکم دیا تو لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کو اس مشن کا انچارج بنا کے بھیجا۔ جنرل ضمیر اس سے قبل فوج کی شمالی کمان کے سربراہ رہ چکے تھے۔
انھوں نے بعد ازاں ایک انٹرویو میں کہا کہ جب فوجی دستے احمد آباد پہنچے تو ریاستی انتظامیہ اگلے چوبیس گھنٹے تک ہمیں متاثرہ علاقوں تک رسائی سے متعلق معلومات اور ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے بارے میں لیت و لال دکھاتی رہی، اور جب فوج حساس علاقوں میں پہنچی تب تک فسادی ٹولے اپنا کام دکھا چکے تھے۔
ریاستی حکومت گودھرا کی ریل آتش زدگی کا الزام مسلمانوں پر دھرتی رہی۔ کہیں دو ہزار چھ میں جب یہ سرکاری رپورٹ آئی کہ ٹرین کی آتش زدگی کوئی تخریبی واردات نہیں بلکہ حادثاتی تھی۔ تب کہیں جا کے مسلمانوں پر لگنے والے الزامات دھیمے پڑنے شروع ہوئے۔ تب تک ریاست کی دس فیصد مسلمان اقلیت کو خوف اور پسماندگی کے غار میں دھکیلا جا چکا تھا۔
صرف برطانوی خفیہ ادارے ہی نہیں امریکی سی آئی اے بھی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ گجرات کا قتلِ عام کوئی اچانک جذباتی ابال نہیں تھا بلکہ منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ اسی سبب وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کو امریکا نے ویزا دینے سے انکار کر دیا۔
اگرچہ گجرات قتلِ عام کے کرداروں کے خفیہ وڈیو اعترافات یوٹیوب پر موجود ہیں۔ موجودہ وزیرِ داخلہ امیت شابھی حالیہ ریاستی انتخابات کے دوران بھرے مجمع کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ دو ہزار دو میں سماج دشمنوں (مسلمانوں ) کو جو سبق سکھایا گیا وہ انھیں کئی برسوں یاد رہے گا۔ مگر عدالتوں میں قتلِ عام کی ذمے دار اعلیٰ قیادت کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں لائے جا سکے۔
جن لوگوں کو سزا ملی وہ بھی رفتہ رفتہ پچھلے آٹھ برس میں رہا ہوتے چلے گئے۔ ان میں وہ مجرم بھی شامل ہیں جن کے خلاف اجتماعی ریپ اور قتل کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔
انھیں رہائی کے وقت ہار پہنائے گئے۔ مٹھائی کھلائی گئی اور ان کے اعزاز میں استقبالیوں کا اہتمام کیا گیا۔
مودی نے آج تک گجرات کے قتلِ عام پر معافی مانگنا تو دور کی بات اپنی نااہلی یا ناکامی کا اعتراف تک نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا کہ "مجھے تو کتے کا بچہ بھی گاڑی تلے آنے کا دکھ ہوتا ہے۔ "
بی بی سی کی دستاویزی فلم پر جس طرح کا ریاستی و سرکاری ردِعمل سامنے آیا۔ اس سے کم ازکم یہ تو ثابت ہوا کہ کسی جرم کے ثبوت سامنے نہ آنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ اس جرم میں ملوث نہیں تھے، ورنہ اتنا شدید ردِعمل کسی بے گناہ کی جانب سے نہیں ہو سکتا۔
کوئی قاتل نہیں گذرا ایسا
جس کو تاریخ بچا کر لے جائے
(عبیداللہ علیم)