دہاڑی مزدور ہرسنگھ کولہی سنیچر کو اس بھیڑ کا حصہ تھا جو پانچ کلو آٹے کا تھیلا پینسٹھ روپے کلو کی سرکاری قیمت پر خریدنے کے لیے میرپور خاص کے ایک ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پر بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی۔ کولہی بھی دوسروں کی طرح اپنے چھ بچوں کے منہ میں لقمہ ڈالنے کی سوچ میں تھا۔
محکمہ خوراک کا لدا پھندا ٹرک آیا اور سیکڑوں ضرورت مند اس پر پل پڑے۔ کھینچا تانی، دھینگا مشتی، آپا دھاپی بھگدڑ بن گئی اور ہرسنگھ کولہی اپنے ہی جیسے محروموں کے پیروں تلے کچلا گیا، کئی دیگر لوگ زخمی بھی ہوئے۔
ایک زرعی ملک جو گندم کی پیداوار میں لگ بھگ نوے فیصد خود کفیل ہے۔ وہاں اگر مقرر کردہ سرکاری ریٹ سے بھی سو فیصد اوپر کے نرخ پر کھلی منڈی میں آٹے کی قیمت ایک سو چالیس سے ایک سو ساٹھ کلو تک پہنچ جائے کہ جسے خریدنے کی سکت بھی عام آدمی میں نہ باقی بچے تو پھر سوچ لیجیے کہ آنے والے دنوں میں کیا کیا ہونے والا ہے۔ سستا آٹا خریدنے کی کوشش میں جان کی بازی ہارنے والا ہر سنگھ کولہی آخری نہیں پہلا شہیدِ رزق ہے۔
اس وقت غذائی طائف الملوکی اس نہج پر ہے کہ وفاقی محکمہ شماریات کے تازہ جائزے کے مطابق اگر ایک جانب بیس کلو آٹے کی بوری اسلام آباد، لاہور اور گوجرانوالہ میں تیرہ سو روپے میں دستیاب ہے تو وہی بیس کلو آٹا کوئٹہ اور پشاور میں ستائیس سو روپے اور کراچی اور اندرونِ سندھ اٹھائیس سو سے تین ہزار روپے فی بیس کلو دستیاب ہے۔
یعنی پنجاب کے مقابلے میں سو فیصد زائد قیمت پر۔ حالانکہ حکومتِ سندھ نے بھی فلور ملز کو سرکاری نرخ پر آٹے کی فراہمی کا پابند کرنے کے لیے گندم فراہم کی ہے مگر اس گندم سے تیار ہونے والا آٹا ریاستی سبسڈی کے باوجود بازار میں دگنے ریٹ پر بک رہا ہے۔
گویا طالبان سے نمٹنے کا عزم ظاہر کرنے والی ریاست اور اس کے صوبے فی الحال آٹا فروشوں سے نمٹنے میں بھی ناکام ہیں۔ دال گوشت سبزی دسترس سے باہر ہو جائیں تب بھی انسان ایک آدھ پیاز یا دو چار ہری یا لال مرچوں کے ساتھ روٹی حلق سے اتار کے پانی پی سکتا ہے۔
لیکن جب روٹی ہی بیس روپے سے چھلانگ مار کے پچیس اور تیس روپے کی ٹہنی پر جا بیٹھے اور سرکاری ریٹ پر ایک کلو آٹے کی قیمت انسانی جان کے برابر ہو جائے تو پھر دل میں یہ خیال ضرور آنا چاہیے کہ جس نجی سیکیورٹی گارڈ یا مزدور کو اس وقت کم از کم مقرر کردہ سرکاری تنخواہ (بیس تا پچیس ہزار روپے ماہانہ) مل رہی ہو اور وہ بال بچے دار بھی ہو تو سوچئے اس کی اپنی معیشت کا کیا حال ہوگا۔
اگر وہ سیکیورٹی گارڈ یا مزدور اب تک کسی ڈکیتی کے لیے بندوق سیدھی نہیں کر رہا اور حلال کی کمائی پر آج کے دن تک اس کا ایمان متزلزل نہیں ہو پا رہا تو میرے حساب سے وہ دورِ حاضر کا ولی ہے۔
انڈہ بچوں کی پسندیدہ غذا ہے۔ سال بھر پہلے سو ایک سو دس روپے درجن میں کم ازکم بڑھوتری والی عمر کے بچوں کو انڈہ برابر پروٹین مل جاتی تھی۔ اب یہی انڈے پونے تین سو سے تین سو روپے درجن دستیاب ہیں۔
لوگ ڈھائی سو سے تین سو روپے کلو کی مسور خریدتے ہوئے بھی تین بار سوچتے ہیں۔ کیونکہ سو روپے کے نوٹ کی قیمتِ خرید پچاس سے ساٹھ روپے کی رہ گئی ہے۔ اب تو یہ محاورہ بھی ساقط ہو چلا ہے کہ بس جی دال روٹی چل رہی ہے۔ کجا یہ محاورہ کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔
میرے پڑوس کا فٹ پاتھیا ہوٹل (اگر اسے ہوٹل کہنے کا تکلف کیا جائے) ایک برس پہلے ایک پلیٹ دال اور دو چپاتی سو روپے میں خریدنے والے مزدور کا پیٹ بھر دیتا تھا۔ آج اسی دال اور دو چپاتی کی قیمت ایک سو ستر روپے تک پہنچ گئی ہے۔
اب دو مزدور مل کے دال کی ایک پلیٹ اور تین چپاتی منگاتے ہیں۔ اس ہوٹل کا مالک الگ سے نوحہ کناں ہے کہ اگر ان بے چارے مزدووں کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ کام کب کا بند کر چکا ہوتا۔
سستائی کے دنوں میں اوسط درجے کے نام نہاد انگلش میڈیم اسکول میں داخل ہونے والے بچوں کے متوسط و نیم متوسط تنخواہ دار سفید پوش والدین کا حال اب یہ ہے کہ کئی ماں باپ اپنے بچوں کو فیسوں میں اضافے کے خوف سے محلہ اسکول یا مدارس میں داخل کروا رہے ہیں۔
ان پر جو بیت رہی ہے سو بیت رہی ہے مگر بچوں کو اچانک جب ان اساتذہ اور دیگر کلاس فیلوز سے جدا ہونا پڑ رہا ہے جن کی موجودی کے وہ سال دو سال میں عادی ہو چکے ہوتے ہیں اور انھیں بالکل ایک اجنبی اسکول اساتذہ اور ہم جماعتوں سے سابقہ پڑتا ہے تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ آناً فاناً کیا ہوگیا۔
چنانچہ اکثر بچے اس اچانک تبدیلی کی تاب نہ لا کر پڑھنے لکھنے سے ہی دل اچاٹ کر بیٹھتے ہیں۔ گویا بے فکری کی عمر میں ہی نامعلوم عدم تحفظ نے ان معصوم ذہنوں کا گھیراؤ کر لیا ہے۔
المیہ یہ نہیں کہ معاش اور مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ارب پتی افراد اور صنعتی و تجارتی خاندانوں کا یہ حال ہے کہ زرعی آلات بنانے والے سب سے بڑے نجی ادارے ملت ٹریکٹرز نے مزید پیداوار بند کر دی ہے کیونکہ ٹریکٹرز کا خریدار نہیں بچا۔ ٹیکسٹائل جسے پاکستانی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔
اس کے مہرے بھی ہل رہے ہیں۔ سب سے بڑے ٹیکٹسائیل گروپس کریسنٹ، نشاط، سرتاج نے اپنی پیداوار جزوی طور پر معطل کر دی ہے۔
چھوٹے صنعتی گروپوں کے حالات کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یعنی بے روزگاروں کی فوج ظفرِ موج میں اگلے چند ماہ کے دوران مزید کئی لاکھ افراد کا اضافہ ہونے والا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کی شرح بھی کئی گنا بڑھنے کا پہلے سے زیادہ خدشہ ہے۔
اوپر سے طالبان اس آگ میں ہاتھ تاپنے کے لیے پہلے سے زیادہ تیار ہو کے آ رہے ہیں۔ کروڑوں سیلاب زدگان کو تو خیر بھول جائیے جن کے پاس اگلی فصل بونے کے لیے اس وقت نم زمین اور بیجوں کی نایابی ہے۔ البتہ ہر سطح پر کرپشن کی صحت پہلے سے کہیں بہتر ہے۔
اوپر سے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار ہیں جو حسبِ عادت ڈالر پر کمند ڈالنے والے خانہ ساز رسے سے لٹکے ہوئے ہوا میں معلق ہیں اور اسٹیٹ بینک انھیں حیرت سے تک رہا ہے۔
قفس کو لے کے اڑنا پڑ رہا ہے
یہ سودا مجھ کو مہنگا پڑ رہا ہے
(شبنم شکیل)