بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں حالیہ تباہ کن برسات اور طغیانی کے سبب جو تینتیس ملین افراد متاثر ہوئے ہیں ان میں سولہ ملین پندرہ برس تک کی عمر کے بچے بھی ہیں اور ان میں سے بھی ساڑھے تین ملین بچے زندگی بچاؤ ہنگامی مدد کے متلاشی ہیں۔
پاکستان میں یونیسیف کے نمایندہ عبداللہ فاضل نے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے بعد تیزی سے بڑھنے والے مصائب کی یوں تصویر کشی کی ہے کہ ناکافی صحت و صفائی کے سبب بچے ناکافی غذائیت، اسہال، ملیریا، ڈنگی بخار اور متعدد جلدی امراض کا تیزی سے شکار ہو رہے ہیں۔
بارش و سیلاب سے اب تک جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں ان میں بچوں کی تعداد ایک تہائی ہے۔ اکثر مائیں جسمانی طور پر کمزور، بے گھری میں کھلے آسمان تلے شدید موسم کے سبب تھکن زدہ یا بیمار ہیں۔ لہٰذا نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلانے سے قاصر ہیں۔ ان سب کو محض کھانے یا سائے سے زیادہ دیگر ہنگامی مدد بھی درکار ہے۔ اندازہ ہے کہ نوے ہزار سے ایک لاکھ تک مائیں حمل کے مختلف مراحل میں ہیں۔
برق رفتار ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ایسی آفات سال بہ سال نیا معمول بن رہی ہیں۔ چنانچہ عارضی و نامکمل اقدامات کو اب قصہ پارینہ سمجھنا چاہیے۔
ایشیا و بحرالکاہل خطے کے لیے اقوامِ متحدہ کے اقتصادی و سماجی کمیشن (اسکیپ) کی تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ ماحولیاتی ابتری سے جنوبی اور جنوب مغربی ایشیائی خطے کو سالانہ ایک سو اکسٹھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے، اگر ماحولیاتی بحران اسی رفتار سے جاری رہا تو معاشی نقصان کا حجم بھی اگلے پانچ برس میں تین سو بائیس ارب ڈالر سالانہ تک بڑھ سکتا ہے۔
اگر اس نقصان کو علاقائی ممالک پر تقسیم کیا جائے تو بھارتی معیشت کو سالانہ سوا دو سو ارب، پاکستان کو چھبیس ارب اور ترکی کو چوبیس ارب ڈالر کا دھچکا لگ سکتا ہے، اگر اس تخمینے کو ملکی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو پاکستان سب سے گھاٹے میں ہے۔ یہ نقصان پاکستان کی کل قومی آمدنی کے نو فیصد، نیپال کی قومی آمدنی کے آٹھ اعشاریہ سات فیصد اور بھارت کی قومی آمدنی کے آٹھ اعشاریہ ایک فیصد کے مساوی ہوگا۔
گزشتہ نصف صدی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں اگر انسانی مصائب کا تخمینہ لگایا جائے تو اس عرصے میں تین ارب جنوبی اور جنوب مغربی ایشیائی باشندے کسی نہ کسی طور متاثر ہوئے ہیں اور دس لاکھ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یعنی ایشیا و بحرالکاہل کی نصف آبادی ماحولیاتی بدلاؤ کا مزہ چکھ رہی ہے۔
درجہِ حرارت اور موسمی کیلنڈر میں اتھل پتھل کے سبب حالات اور پگلاتے چلے جائیں گے۔ سال بہ سال ترکی سے بھارت تک کے خطے میں خشک سالی اور پھر غیر معمولی برساتوں کا دورانیہ بڑھتا جائے گا۔ سب سے زیادہ کم بختی بارانی علاقوں میں بسنے والوں کی آئے گی۔ انھیں بارش بھی مارے گی اور خشک سالی کے لمبے سائے بھی چین نہیں لینے دیں گے۔
پاکستان میں ستر فیصد بارانی زراعت کو موسم کی مار جھیلنا پڑے گی۔ اس کا مطلب ہے مزید غربت اور خوراک کا بحران۔ کمزور جسمانی پرداخت کے نتیجے میں پرانی و نئی وباؤں کو دعوت۔ اس دباؤ کے نتیجے میں صحت کے ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ اور اس ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں سماجی خلیج میں اور اضافہ اور مزید سماجی ٹوٹ پھوٹ و افراتفری۔
انیس سو نوے میں جنوبی و جنوب مغربی ایشیا میں ڈنگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے کم تھی۔ آج سالانہ پانچ لاکھ سے اوپر لوگ ڈنگی کا شکار ہوتے ہیں۔ ملیریا کے مریضوں کی تعداد اگرچہ سن دو ہزار میں پچیس لاکھ تھی جو دو ہزار سترہ میں گھٹ کے تیرہ لاکھ پر آ گئی۔ اب پھر ماحولیاتی شدت میں اضافے سے ملیریا متاثرین کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ فصلوں پر ٹڈی دل حملوں کی تعداد بھی سال بہ سال بڑھتی جا رہی ہے۔
چونکہ اب گنگا ہی الٹی بہنے لگی ہے۔ لہٰذا نئے ماحولیاتی حقائق کو سمجھ کے زندگی گذارنے کے لیے رہن سہن اور روزمرہ معمولات میں جن تبدیلیوں کی فوری ضرورت ہے انھیں اپنانا بھی آسان نہیں۔ سوچ اور عادات بدلنے پر بھی بھاری خرچہ آئے گا۔ یعنی اضافی مالی بوجھ۔
مثلاً بھارت کو قدرتی آفات کے نتیجے میں اضافی طبی مسائل سے نبرد آزمائی کے لیے پینتالیس ارب ڈالر، پاکستان کو پانچ ارب ڈالر اور بنگلہ دیش کو تین اعشاریہ تین ارب ڈالر سالانہ خرچ کرنا ہوں گے۔ فطرت کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔ ظاہر ہے ہماری جیبوں سے ہی جائے گا۔
اس تناظر میں اگلی لڑائی کرہ ارض آلودہ کرنے والے لگ بھگ بیس صنعتی ممالک اور ایک سو ستر دیگر ممالک کے درمیان ہو گی کہ جن کا عالمی آلودگی بڑھانے میں حصہ انتہائی کم مگر معاشی و سماجی نقصان سب سے زیادہ ہے۔ اس لڑائی کا آغاز نومبر میں مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس سے ہوگا جب پاکستان، بنگلہ دیش اور درجن بھر افریقی و لاطینی ممالک عالمی آلودگی میں ایک فیصد سے بھی کم کے حصہ دار ہونے کے باوجود اس کے نوے فیصد سے زائد سنگین نتائج بھگتنے والوں کی حیثیت سے ازالے کی رقم کا مطالبہ کریں گے اور نام نہاد ترقی یافتہ صنعتی دنیا کندھے اچکا کر اپنی لازمی ذمے داریوں سے پہلو بچانے کی کوشش کرے گی۔
ایسی کانفرنسوں سے فوری طور پر کسی کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوگا مگر آنے والے برسوں میں اگر قصور واروں نے بے قصوروں کے ساتھ ٹھوس تعاون نہیں کیا اور صرف زبانی ہمدردی جتائی تو پہلی بار دنیا عسکری و اقتصادی بلاکوں میں بٹنے کے بجائے مشترکہ خطرے سے دوچار ماحولیاتی بلاک میں جبر کے ہاتھوں تبدیل ہونے پر مجبور ہوتی جائے گی۔
روایتی اقتصادی و عسکری بلاک اس لیے کامیاب ہیں کیونکہ ان کے اثرات محدود ہیں البتہ ماحولیاتی بلاک میں مجبوراً بندھنے والی ترقی یافتہ دنیا بہت دیر تک متاثرہ ممالک کی آواز نہیں دبا پائے گی کیونکہ بارش یا خشک سالی کا اب کسی ایک خطے تک محدود رہنا ناممکن ہے۔
اس کا ثبوت موجودہ برس میں ہی ہاتھ آ گیا جب بیک وقت جنوبی ایشیا کو قاتل مون سون کوڑے مار رہا ہے اور خشک سالی یورپ اور شمالی امریکا کے مزاج پوچھ رہی ہے۔
یہ وہ جنگ ہے جو محض خام طاقت کے بل پر جیتنا ناممکن ہے۔ کشتی میں ایک جانب سوراخ کر کے دوسری جانب بیٹھے رہنے والے بھی نہیں بچ پائیں گے۔
اپنی آغوش میں مخلوقِ کفن پوش لیے
یہ زمیں ہے یا خلا میں کوئی تابوت رواں
(احمد نوید)