پچھلے چند روز کے اخبارات فلسطین کے بارے میں روح فرسا خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری دس دن سے جاری ہے۔ شہید ہونے والوں کی تعداد تقریباً دو سو سے زیادہ ہے، جس میں پچاس سے زیادہ بچے شامل ہیں۔ 36 خواتین بھی شہدا میں شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد پندرہ سو سے زائد ہے اور ان میں ایک سو کی حالت تشویشناک ہے۔ سینکڑوں عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں۔ جن میں الجزیرہ، بی بی سی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے دفاتر بھی شامل ہیں۔
بیشتر ہسپتال بھی ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کی چار منزل عمارت بھی زمین بوس ہو چکی ہے، جہاں فلسطین کے چار چار پانچ پانچ سال کے بچے اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہادری اور جرأت کی نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں، وہاں ملبے کے ڈھیر پر شہید بچے کی سالگرہ منانے اور اسرائیلی فوج کی بچوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کی تصویریں خون کے آنسو رلاتی ہیں۔ مسلم امہ تاریخ کے چوراہے پر پڑی سو رہی ہے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں بیان دینے کے بعد اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکی ہے اور بعض مسلمان حکمران اس بیان کی مجبوری کے بارے میں امریکہ سے درپردہ معذرت میں مصروف ہیں۔ دنیا کی امیر ترین ریاستیں یہودیوں کے دروازے پر سجدہ ریز ہیں۔ مسلم ممالک کی تنظیم اور یورپی یونین کے بیانات میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں تنظیمیں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہیں حالانکہ یہ جنگ نہیں بلکہ کھلی یکطرفہ دہشت گردی ہے۔ فلسطین کے پاس کون سی بری، بحری اور فضائی افواج ہیں کہ وہ جنگ بندی کرے۔ جنگ بندی کی نہیں اسرائیلی دہشت گردی کو روکنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ اور یورپی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین اسرائیلی حملوں کی مذمت کر رہے ہیں اور فلسطین کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں تو کوئی بڑا مظاہرہ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ترکی، پاکستان، ایران، ملائشیا اور بنگلہ دیش کے علاوہ کسی ملک میں کوئی جوش و خروش نظر نہیں آیا۔ ان ممالک کا جوش و خروش بھی زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔ پاکستان میں وفاقی کابینہ نے اسرائیلی حملے کے آٹھویں دن فلسطین کے لیے امداد بھجوانے کی منظوری دی ہے۔ قومی اسمبلی نے بھی فلسطین کے حق میں قرارداد منظور کی ہے۔ حکومت کو جہانگیر ترین گروپ کا سامنا ہے اور وہ رات دن اس مسئلے کو حل کرنے میں مصروف ہے۔
اپوزیشن کے رہنمائوں کو راولپنڈی رنگ روڈ کا غم کھائے جا رہا ہے۔ ن لیگ کے رہنمائوں کو ایک اضافی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے کہ وہ جوق در جوق شیخوپورہ کے دورے کریں اور بغاوت کے مقدمے میں گرفتار جاوید لطیف کے حق میں فضا ہموار کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ مقدمہ شیخوپورہ کے سارے عوام کے خلاف ہے۔ اگر جاوید لطیف غدار ہے، تو سارا پاکستان غدار ہے۔ ان جلسوں جلوسوں میں کہیں کہیں کشمیر کو بیچنے اور فلسطین پر اسرائیلی حملوں کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میڈیا میں بھی فلسطین کے بارے میں خبریں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے بھی نظر آ رہے ہیں کہ پاکستان کشمیر کا فکر کرے نہ کہ فلسطین کا۔
سوچنے کی بات ہے کہ دنیا کے 160 ارب مسلمان کہاں کھڑے ہیں۔ عرب ممالک کی بے شمار دولت، لاکھوں کی تعداد میں وردی پوش سپاہ، دنیا کا مہنگا ترین اسلحہ خریدنے والے ممالک، پاکستان کی ایٹمی طاقت لیکن دنیا میں کہیں بھی ہماری شنوائی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ ہماری بات سننے کو تیار نہیں اور نہ ہی 41 اسلامی ممالک کی اسلامی فوج حرکت میں آئی ہے۔ تمام اسلامی ممالک اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ نماز ہاتھ باندھ کے پڑھی جائے یا ہاتھ چھوڑ کر اور دشمن ہمارے ہاتھ ہی کاٹنے کے درپے ہے۔ فروعی مسائل میں گھری ہوئی، مسلم امہ تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی نظر نہیں آ رہا کہ عراق، مصر، شام، لیبیا، یمن اور افغانستان کو کس طرح تباہ و برباد کیا گیا اور کس نے کیا۔ ہمیں یہ بھی احساس نہیں ہورہا کہ آج اگر فلسطین کی باری ہے تو کل ہماری باری ہوگی۔ آج قبلہ اول حملوں کی زد میں ہے، تو کل دشمن ہمارے دیگر مقدس مقامات پر بھی حملہ کرسکتا ہے۔ سعودی عرب میں دنیا کا جدید ترین شہر نیوم بنانے کی تیاری ہے، جو چھبیس ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہوگا اور جس میں یہودی کا مکمل عمل دخل ہوگا۔ یہ شہر مکمل طور پر سیکولر ہوگا اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ وہاں بسائے جائیں گے۔
اگر مسلم امہ اسی طرح نفاق کا شکار رہی اور فرقہ بندی اور ذاتوں کے حصار میں قید رہی تو دشمن کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ ہم اپنی بربادی کے لیے خود کفیل ہیں۔ اس وقت مسلمان ممالک کو سنجیدگی کے ساتھ اپنے مسائل کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ پاکستان اور ترکی کو اس سلسلے میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ او آئی سی کی افادیت کے بارے میں نئے سرے سے سوچنا ہوگا۔ کیا ہم اس تنظیم کے سہارے اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دے رہے۔ 41 ممالک کی مشترکہ فوج کا مقصد کیا ہے اور اسے کیسے استعمال کیا جائے گا اور کب استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان کی فوج کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والے مذہبی رہنما آج اسرائیلی فوج کے بارے میں کیوں خاموش ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کم از کم یہ تو کرسکتی ہے کہ یہودیوں کی مصنوعات کو اسلامی ممالک میں درآمد کرنا ممنوع قرار دے دے۔ کسی اسلامی ملک نے بھی ابھی تک اس سمت میں قدم نہیں اٹھایا۔ کل پاکستان میں یوم یکجہتی فلسطین منایا گیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ رات سے جنگ بندی کا نفاذ ہو چکا ہے اور اہل فلسطین اسے اپنی مزاحمت کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ ڈھائی سو سے زائد شہادتیں ہوئیں، ہزاروں لوگ زخمی ہوئے اور پچھتر ہزار لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا۔
بہادر قوم نے گزشتہ رات اپنی فتح کا جشن منایا۔ اس سارے قصے میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہر مسلمان ملک کو اپنی مدد آپ کے تحت اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی۔ قرآن کے احکام کے مطابق اپنے گھوڑے اور اپنی جنگی طاقت تیار رکھنی ہوگی۔ نہ تو اقوام متحدہ آپ کی مدد کو آئے گی، نہ اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج اور نہ او آئی سی۔ شکست یتیم ہوئی ہے اور فتح کے سینکڑوں باپ ہیں۔ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ اور آخر میں اپنی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے لیے بھی ایک درخواست۔ اپنی فوج کی پشتبانی کرو اس سے پہلے کہ کوئی اور فوج تمہارے سروں پرمسلط ہو جائے۔