ایک طرف کورونا بے قابو ہورہا ہے اور دوسری طرف قوم میں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے۔ روزانہ اموات کا نیا ریکارڈ دو سو سے زیادہ ہے۔ قوم کے ڈسپلن اور سول انتظامیہ کی ناکامی کی یہ حالت ہے کہ کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے فوج کو طلب کرنا پڑا ہے۔ کورونا جیسے مشترکہ دشمن سے مقابلہ کرنے میں بھی قوم اکٹھی نہیں ہے۔ بڑے بڑے سیاسی رہنما ماسک کے بغیر نظر آتے اور بعض زعما تو افطار پارٹیوں میں بھی دکھائی دیئے۔
کے پی کے ایک وزیر کے خلاف تو افطار پارٹی دینے اور کورونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑانے کا مقدمہ بھی درج ہوگیا ہے۔ مقدمہ ظاہر ہے اپنی رفتار سے چلے گا اور آخر میں خارج ہو جائے گا کیونکہ پاکستان میں کسی بڑے عہدیدار کو سزا دینے کا قطعاً رواج نہیں ہے۔
سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے انٹرویو نے بھی خوب ہلچل مچائی ہے۔ تقریباً دو سال کی خاموشی کے بعد بشیر میمن صاحب نے بڑے بڑے راز کھولنے کا دعویٰ کیا ہے۔ شاید وہ منتظر تھے کہ قاضی فائز عیسیٰ کا کیس کسی کروٹ بیٹھے تو وہ اس کے مطابق اپنے بیانئے کو تشکیل دیں۔ ایک طرف وزیر قانون فروغ نسیم اور مشیر داخلہ شہزاد اکبر سیخ پا ہیں کہ ان پر جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں اور انہوں نے بشیر میمن صاحب کو ہر جانے کے نوٹس جاری کردیئے ہیں اور دوسری طرف مسلم لیگ ن بغلیں بجا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ثابت ہو گیا ہے۔
وزیراعظم ہائوس سازشوں کا گڑھ ہے۔ مریم نواز کا مطالبہ ہے کہ فائز عیسیٰ کے معاملے پر عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ انہوں نے فرمایا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے کے انکشافات سے ان کے دیرینہ موقف کی تصدیق ہو گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر یہ بھی کہا کہ اب لوگوں کو سمجھ آ گئی ہے کہ سسلین مافیا کیا ہوتے ہیں۔ مافیا کے گینگز نے بھی کبھی ایسی حرکتیں نہیں کی کہ اداروں کے سربراہوں کو بلا کر حکم دیا جائے کہ نوازشریف، مریم نواز اور رانا ثناء اللہ پر مقدمات درج کریں۔ کیا کسی مہذب ملک میں ایسا ہوا ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور ممتاز قانون دان اعتزاز احسن نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ن لیگ کے دور ہی میں وزیراعظم ہائوس سے سپریم کورٹ پر حملے کا منصوبہ بنا تھا۔ اسی حملے کی بدولت چیف جسٹس اور ساتھی ججوں کو پچھلے دروازے سے بھاگنا پڑا تھا۔ وزیراعظم ہائوس سے ہی جسٹس قیوم کو ٹیلیفون کئے گئے۔ آصف زرداری کی زبان کاٹنے کا حکم بھی وزیراعظم ہائوس سے دیا گیا۔ شاید مریم نواز کے پاس جج مرحوم ارشد ملک جیسی کوئی ویڈیو بشیر میمن کی بھی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اپنے پچاس سالہ کیریئر میں انہوں نے کسی گواہ کو اس طرح بولتے نہیں دیکھا۔
مولانا فضل الرحمن نے ہرزہ سرائی فرمائی ہے کہ ہم چوبیس گھنٹے بھی جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہیں۔ وزیر اطلاعات نے اس بیان کی شدت سے مذمت کی ہے اور اسے شہدا کی توہین کے مترادف قرار دیا ہے۔ جب سے مولانا نے پیلی وردی والے جتھوں سے سلامی لی ہے وہ اپنے آپ کو جنگی امور کا ماہر سمجھنے لگے ہیں۔
اب وہ فیصلہ کریں گے کہ کون سی فوج کتنے گھنٹے جنگ لڑ سکتی ہے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا کی واحد فوج ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی جنگ لڑی ہے اور فتح یاب ہوئی ہے۔
ایٹمی صلاحیت کو استعمال کئے بغیر بھی پاکستان کی فوج دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے۔ ان سے مودبانہ گزارش ہے کہ بولنے سے پہلے سوچا کریں اور دشمن کی حوصلہ افزائی کرنے کو اپنا شعار نہ بنائیں۔ وقتاً فوقتاً اپنی ادائوں پہ بھی غور کیا کریں۔ بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھیں اور اپنی آزادی کے لیے خدا کا شکر ادا کیا کریں۔ ن لیگ کے ایک اور نام نہاد رہنما نے پاکستان نہ کھپے کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور آج کل قانون کی گرفت میں ہیں۔
حکومت نے ان کے زیر قبضہ کچھ زمین بھی واگزار کرائی تھی۔ کچھ زمین ہاتھ سے نکلنے کا غم تھا اور کچھ اپنے بڑے لیڈروں کی خوشنودی درکار تھی کہ انہوں نے پاکستان کے خلاف ہی ہرزہ سرائی شروع کردی۔ حکومت نے بھی آج تک کسی ایسے کیس میں مثالی سزا نہیں دلوائی تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں۔
اسی نام نہاد لیڈر نے ختم نبوت کی مخالفت کی پاداش میں ہجوم سے ڈنڈے کھائے تھے اور موٹرسائیکل پر بمشکل بھاگ کر جان بچائی تھی۔ پاکستان میں رہتے ہوئے کسی شخص کو یہ جرأت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ پاکستان کے خلاف یا بنیادی اسلامی شعائر کے خلاف بات کرنے کی حماقت کرے۔ جناب قاضی فائز عیسیٰ کے کیس کا فیصلہ چند دن پہلے ہو چکا ہے۔ تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے۔ تفصیلی فیصلے سے ہی پتہ چلے گا کہ کس قانون کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ بادی النظر میں تو ایسا لگتا ہے کہ جج صاحبان کے احتساب کے لیے موجود واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل کو بھی بے دست و پا کر دیا گیا ہے۔
یقینا اس کے لیے کوئی متبادل بندبوست کیا جائے گا کیونکہ احتساب کے بغیر تو کوئی ادارہ نہیں چل سکتا اور عدلیہ کی اپنی توقیر کے لیے بھی یہ اشد ضروری ہے، انہیں وہ اخلاقی برتری حاصل ہو کہ پاکستان کے تمام ادارے ان کے حکم پر من و عن عمل کریں۔
لاہور ہائیکورٹ میں ڈی ایچ اے لاہور کا ایک کیس زیر سماعت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی ادارے کو بھی قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کیس میں ڈی ایچ اے ہی غلط ہو۔ اگر ڈی ایچ اے کی غلطی ثابت ہو جائے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ اگر الزام جھوٹا ہے تو مدعی کی باز پرس ہونی چاہیے۔
ہم نے ہمیشہ یہی سنا ہے کہ جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ عدالت کو ہر صورت مبنی پر انصاف فیصلہ کرنا چاہیے لیکن بات چیت میں دوسرے اداروں کی تضحیک کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی خدمت کریں۔ پاکستان مشکل حالات کا شکار ہے۔
تمام قومی سیاسی جماعتوں اور اداروں کو چند بنیادی باتوں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مشترکہ دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ وہ دشمن بھارت ہو یا کورونا کی بیماری سب اکٹھے ہوں گے تو جیت ہماری ہوگی۔