سمجھدار لوگوں کی ایک محفل تھی، ہر موضوع پہ گفتگو ہوئی، کسی بھی موضوع پر سب کی رائے ایک نہیں تھی۔ صرف ایک بات پر مکمل اتفاق رائے تھا کہ پچھلے تیس چالیس سال میں کسی بھی حکومت نے کسان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ زراعت کے اہم ترین شعبے کو ہمیشہ back burnerپر رکھا گیا۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، اسی وجہ سے جب بھی پاکستان پر برا وقت آیا یا کوئی عالمی پابندیاں لگیں، پاکستان کے کسان نے ہمارے عوام کو بھوکا مرنے نہیں دیا۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھی خوراک کا کوئی بحران سامنے نہیں آیا۔ 28مئی کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پابندیاں لگنے کے باوجود پوری قوم کو بھوک کا احساس نہیں ہوا۔ یہ صرف اس لئے ممکن ہوا کہ ہمارے پاس ہر امیر اور غریب کو کھانا کھلانے والے ہاتھ موجود تھا۔ کیا ہم اس کھانا کھلانے والے ہاتھ کو ہی کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ بھارت میں پچھلے چند ماہ سے جو سلوک کسانوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے، وہ ساری دنیا کے لئے باعث تشویش ہے۔ کیا ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا کسان بھی سر پر کفن باندھ کر سڑکوں پر آ جائے۔ بدقسمتی سے ہماری حکومت کا یہ ریکارڈ ہے کہ وہ شرافت سے کسی کا موقف سننے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ حال ہی میں جب مہنگائی سے تنگ آئے، سرکاری ملازمین نے اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھنے کی کوشش کی تو انہیں شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ نہایت سیاسی دماغ سمجھے جانے والے وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی ایسے بیان داغے جیسا کہ وہ منتخب وزیر داخلہ نہیں، بلکہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہوں، مزے کی بات، چند دن بعد ہی حکومت کو گھٹنے ٹیک کر سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں پچیس فیصد اضافہ کرنا پڑا۔ اگر یہ حکومت گزشتہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ بھی کر دیتی، تو یہ نوبت نہ آتی۔ درحقیقت پی ٹی آئی کی حکومت صرف fire fightingکی پالیسی پر یقین رکھتی ہے، اپنی ناک سے آگے دیکھنا سخت منع ہے۔
پاکستانی زراعت کے اصل مسائل اور ان کا حل جاننے کے لئے میں نے آل پاکستان کسان فائونڈیشن کے چیئرمین سید محمود الحق بخاری سے رابطہ کیا۔ بخاری صاحب نے کمال شفقت کا مظاہرہ کیا اور میرے ہاں تشریف لائے۔ زراعت کی زبوں حالی کے بارے میں ان سے سیر حاصل گفتگو ہوئی، بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ بخاری صاحب نہایت پڑھے لکھے، درد دل رکھنے والے حق گو انسان ہیں۔ انہوں نے بڑے رنج سے بتایا کہ پاکستان کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 25فیصد تھا، جو کم ہوتے ہوتے اب 14فیصد رہ گیا ہے اور مسلسل روبہ زوال ہے۔ وہ موجودہ حکومت سے ہی نہیں بلکہ پچھلی دو تین حکومتوں کی کارکردگی سے بھی غیر مطمئن تھے۔ کپاس کی فصل کی تاریخ بتاتے ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ 1845ء میں برطانوی حکومت نے ایک سروے کروایا اور سرگودھا، ساہیوال، وہاڑی، پاکپتن، ملتان، رحیم یار خان، خانیوال اور سندھ کے چند اضلاع کو کپاس کے لئے موزوں ترین علاقے قرار دیا گیا۔ اس کے بعد ملکہ برطانیہ نے 1907ء میں سرولیم رابرٹ، ڈائریکٹر زراعت کو ان علاقوں میں بھیجا گیا اور کپاس کی فصل بڑے پیمانے پر لگائی گئی۔ رابرٹ فارمز انہی کے نام سے موسوم ہیں۔ چند عشرے پہلے تک یہ علاقے دنیا کی نفیس ترین کپاس پیدا کرتے تھے اور پاکستان کپاس برآمد کرتا تھا۔ کپاس پاکستان کی بڑی کیش کراپ تھی۔ 1915ء میں پاکستان نے ایک کروڑ پچاس لاکھ کپاس کی گانٹھیں پیدا کیں اور پچھلے سال پاکستان کی پیداوار صرف 55لاکھ گانٹھ تھی۔ ٹیکسٹائل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لئے 45لاکھ گانٹھیں درآمد کرنی پڑی۔ حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے ریسرچ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اضافی اخراجات، غیر معیاری بیج اور جعلی زرعی ادویات کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار دن بدن کم ہو رہی ہے۔
آج پاکستان میں اوسط پیداوار 650من فی ایکڑ ہے اور بھارت میں یہ پیداوار 1500من فی ایکڑ ہے۔ پنجاب سیڈ کارپوریشن کے بارے میں بتایا کہ اس ادارے کو حکومت نے سات ہزار ایکڑ زمین دی ہوئی ہے کہ وہ کسانوں کو معیاری بیج فراہم کرے لیکن یہ حکومتی کارپوریشن صرف پانچ فیصد ضروریات ہی پورا کرتی ہے اور بیج کا بیشتر حصہ بلیک میں فروخت ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت کسانوں کے نمائندوں اور سیڈ کارپوریشن کے حکام کو آمنے سامنے بٹھائے اور سیڈ کارپوریشن کے حکام کسانوں کے اعتراضات کا جواب دیں۔ حکومت کے خزانے پہ پلنے والے ادارے اگر کارکردگی نہیں دکھا سکتے، تو انہیں گھر کی راہ دکھائی جائے۔ اگر حکومت اپنے تنخواہ داروں سے بھی اپنی رٹ نہیں منوا سکتی تو پھر تو نالائقی کا تغمہ انہیں قبول کرنا ہی پڑے گا۔ بخاری صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ فوڈ سکیورٹی کے وزیر سید فخر امام دو مرتبہ کپاس کی سپورٹس پرائس کی سمری وزیر اعظم کے پاس لے کر گئے لیکن منظور نہ کروا سکے کیونکہ وہ ایک شریف آدمی ہیں۔ زراعت کے بارے میں بھی انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی رائے کو فوقیت دی جاتی جن کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر زراعت پیچھے رہ جائے گی تو انڈسٹری کیا خاک چلے گی اگر کسان کپاس، گنا اور گندم پیدا نہیں کرے گا تو ٹیکسٹائل، چینی اور آٹے کی ملز کیسے چلیں گی اور برآمدات کیسے بڑھیں گی۔ فوڈ سکیورٹی کے بغیر سرحدوں کی سکیورٹی بھی ممکن نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے خود تسلیم کیا ہے کہ پاکستانی زراعت انحطاط کا شکار ہے اور پیداوار استعداد سے بہت کم ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم نے ایک پلان بھی ترتیب دیا ہے، جس کا نام Agriculture Trans for motion planہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پلان میں کسانوں کے حقیقی نمائندوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے تاکہ زبانی جمع خرچ کی بجائے حقیقی مسائل کا ادراک ہو سکے اور وزیر اعظم کو اس اصل صورت حال کا علم ہو سکے۔
کپاس کی سپورٹ پرائس نہ ہونے کی وجہ سے کپاس کا زیر کاشت دن بدن کم ہو رہا ہے۔ گندم کی سپورٹ پرائس سندھ میں دو ہزار روپے ہے اور پنجاب میں 1800روپے ہیں۔ اگر کسان اپنے اخراجات پورے نہ کر پائے گا، تو وہ یہ فصل کیوں کاشت کرے گا۔ بخاری صاحب کے مطابق گندم اور آٹے کا ایک اور بحران جنم لینے والا ہے۔ کسانوں سے 1600روپے من گندم خرید کر بڑا احسان کیا گیا اور اب وہی گندم مارکیٹ میں 2300روپے من فروخت ہو رہی ہے۔ کیا یہ رقم کسان کو نہیں دی جا سکتی تھی۔ ہم اپنے کسان کو 2000روپے من دینے کو تیار نہیں لیکن روس اور یوکرائن سے 2500روپے من کے حساب سے درآمد کرنے پر ہم تیار ہیں اور کر رہے ہیں۔ ہماری درآمد اور برآمد افسر شاہی کا کمیشن محل نظر ہے۔ کیا ہم چند ایماندار لوگ بھی مہیا نہیں کر سکتے، جو کمیشن کے بغیر یہ سودے طے کر سکیں۔
کل وزیر اعظم کسانوں کے ساتھ ایک چارپائی پر بیٹھے نظر آئے اور وہ کوشش کر رہے تھے کہ براہ راست ان کے مسائل سمجھ سکیں۔ وزیر اعظم نے جعلی ادویات کے بارے میں سن کر یہ فرمایا کہ لگتا ہے کہ جعلی زرعی ادویات کے خلاف کریک ڈائون کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم سے سوال یہ ہے کہ انہیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں ڈھائی سال کیوں لگ گئے۔ اگر باقی ڈھائی سال بھی سوچنے سمجھنے میں لگ گئے تو کسان کا خدا ہی حافظ ہے۔ اگر قبضہ مافیا کو لگام ڈالی جا سکتی ہے تو جعلی ادویات، جعلی بیج، نام نہاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور غیر فعال سیڈ کارپوریشن کو کیوں استثنیٰ حاصل ہے۔