Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mushawarat Ka Fuqdan

Mushawarat Ka Fuqdan

خدا کا شکر ہے، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں حالات بہتر ہوئے ہیں اور ٹی ایل پی کے ہاتھوں مفلوج سنٹرل پنجاب میں آمدو رفت کا سلسلہ بحال ہوا ہے۔ بعض لوگ معترض ہیں کہ حکومت نے ضرورت سے زیادہ لچک دکھائی ہے اور حکومت ایسے مسلح گروپ کے سامنے سرنگوں ہوئی ہے، جس نے نہ صرف قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا بلکہ پولیس کے اہل کاروں کے قتل اور تشدد میں بھی ملوث تھا۔ فی الحال حکومت کا دعویٰ یہ ہے کہ پولیس کے قاتلوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ جن لوگوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں، انہیں اپنے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

تاہم حکومت کی بنائی ہوئی کمیٹی کی سفارشات کے پیش نظر ہزاروں کی تعداد میں بلوہ کرنے والے افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ جس معاہدے کے تحت ان قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے اس کا مکمل متن تاحال منظر عام پر نہیں آیا۔ واقفان حال کے کہنے کے مطابق اس معاہدہ میں حکومت اور ٹی ایل پی دونوں نے کھویا بہت کم ہے اور پایا بہت کچھ ہے۔ اس میں قابل ذکر شق یہ ہے کہ ٹی ایل پی فرانسیسی سفارت خانے اور سفیر کے حوالے سے اپنے مطالبے سے دستبردار ہو گئی ہے اور ٹی ایل پی آئندہ کسی بھی پرتشدد احتجاج کا حصہ نہیں بنے گی۔

یہ بات حکومت کے لئے یقینا باعث اطمینان ہے۔ غالباً یہ شق بھی شامل ہے کہ ٹی ایل پی کو ضروری اقدامات کے بعد ایک سیاسی جماعت کے طور پر بحال کر دیا جائے گا اور وہ آئندہ انتخاب میں حصہ لے سکے گی۔ یہ شق ان وزراء اور عہدے داروں کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے جو ٹی ایل پی کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے رہے تھے اور قوم کو یقین دلانے میں مصروف تھے کہ اس گروہ کو باقی دہشت گرد تنظیموں کی طرح راہ راست پر لایا جائے گا اور فاٹا کے دہشت گردوں کی طرح ان کا صفایا کر دیا جائے گا۔ حکومت کا ہر وزیر شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا ثبوت دے رہا تھا اور بغیر کسی مشاورت کے اپنی اپنی ڈفلی بجانے میں مصروف تھا۔ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کے سرکاری ترجمان بھی حکومت سے زیادہ اپنی ذاتی رائے کی ترجمانی کر رہے تھے۔

یہ بات بھی چند وزراء اور مشیروں کے لئے باعث فخر نہیں ہو سکتی کہ آخر کار انہیں مذاکرات کے عمل سے علیحدہ ہونا پڑا اور مسئلے کو حل کرنے کے لئے ان کی غیر حاضری کو ضروری سمجھا گیا یعنی ثابت ہوا کہ وہ حل کا نہیں بلکہ مسئلے کا حصہ تھے۔ پورے ملک کے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ حکومت نے آخر کار اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کر لیا اور غیر ضروری ضد اور ہٹ دھرمی سے گریز کیا۔ چند روز کے اس ہنگامے نے نہ صرف اربوں روپے کا نقصان پہنچایا بلکہ دونوں طرف سے پاکستانیوں کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ اس مسئلے کو اگر شروع سے ہی مناسب مشاورت سے صبر و تحمل سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو اس جانی اور مالی نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔

اب وزیر اعظم نے اپنی اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں اپنے وزراء اور مشیروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کریں کیونکہ اس سے اندرونی اور بیرونی دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وزیر اعظم کو خود بھی اپنی اس ہدایت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ اپوزیشن کے خلاف تند و تیز بیانات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، جس طرح وزیر اعظم نے برملا ہدایت کی ہے کہ حکومتی وزراء فواد چودھری اور اعظم سواتی کے ہمراہ الیکشن کمیشن جائیں اور ان کا پورا پورا ساتھ دیں تو یہ اسی رویے کی غمازی کرتا ہے، جس طرح کے بیانات اعظم سواتی نے الیکشن کمیشن کے خلاف دیے۔ خود وزیر اعظم کو ان کی سرزنش کرنی چاہیے تھی۔

ابھی وزراء کو غیر ضروری بیانات دینے سے گریز کرنے کی ہدایت کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی کہ پی ٹی آئی پنجاب کے صدر سینیٹر اعجاز چودھری نے بیان داغا کہ ان کی خواہش ہے کہ کالعدم ٹی ایل پی سے آئندہ انتخاب میں سیاسی مفاہمت کی جائے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ناموس رسالت پر ہمارا اور ٹی ایل پی کا موقف ایک ہے ارو وہ سعد رضوی کی رہائی پر گلدستہ لے کر ان کا استقبال کریں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ اگر حکومت اور ٹی ایل پی کا موقف ایک ہے تو اس قدر خون ریزی کیوں کی گئی۔

سعد رضوی کو گلدستہ پیش کرنا کیا پولیس کے شہدا کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں ہو گا۔ ان بیانات کا کیا ہو گا، جن میں پی ٹی آئی کے زعماء یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ٹی ایل پی کی تحریک کے ڈانڈے بھارت اور دوسرے دشمن ممالک سے ملتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے کار پردازوں میں مشاورت کا سخت فقدان پایا جاتا ہے اور ہر کسی کا اپنا اپنا موقف ہے۔ عمران خان کی حکومت اپنی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کو بھی غیر ضروری سمجھتی ہے اور اکثر پالیسی معاملات میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب بھی حکومت کسی مشکل میں مبتلا ہوتی ہے ایم کیو ایم اور ق لیگ مخالف سمت میں کھڑے نظر آتے ہیں حکومت کو مشکل میں دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور حکومت میں اور زیدہ حصہ حاصل کرنے کا تقاضا کرتے نظر آتے ہیں۔

نیب کا ترمیم آرڈی ننس بھی حکومت کے قابو میں نہیں آ رہا۔ ایک ماہ کے عرصے میں تیسری ترمیم کی جا چکی ہے۔ آخری ترمیم میں چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل سے لے کر صدر مملکت کو تفویض کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے اس کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے کیا سپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات میں اس کمی کے حق میں فیصلہ دے گی۔ اس کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔ نیب آرڈیننس میں ترمیمات کے اس سلسلے پر طرح طرح کی پھبتیاں کسی جا رہی ہے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ حکومت اب تکلف کرلے اور اعلان کر دے کہ نیب کا وجود صرف ن لیگ کے لئے ہے۔

معروف قانون دان اور پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے ان ترمیمات کے بعد وزارت قانون اور وزیر قانون کے لئے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ حلقہ 133کے ضمنی انتخابات بھی پی ٹی آئی حکومت کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں اور حکومت کے بغیر سوچے سمجھے فیصلے کرنے کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ حکومت کے مشیر برائے فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کو بمعہ اہل و عیال اس حلقے کے لئے حکومتی امیدوار نامزد کیا گیا اور حکومتی عدم توجہ کا یہ حال ہے کہ تجویز کنندہ اور تائید کنندہ دونوں کا تعلق حلقہ 133سے نہیں ہے۔ نتیجتاً دونوں میاں بیوی کے کاغذات الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیے ہیں اور میدان میں ن لیگ کے لئے خالی ہے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ الیکشن کمیشن نے جمشید اقبال چیمہ کو ایک بڑی شکست سے بچا لیا ہے۔

2018ء کے الیکشن میں جمشید اقبال چیمہ کو علی پرویز ملک نے ایک بڑے مارجن سے شکست دی تھی۔ حکومت کو بھی اپنا امیدوار نامزد کرتے ہوئے اس تاریخ کو یاد رکھنا چاہیے تھا۔ ان کے کاغذات مسترد ہونے کے بعد حکومت پنجاب نے بھی درخواست دی تھی کہ الیکشن ملتوی کر دیے جائیں چونکہ سکیورٹی کی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کے بارے میں کتنی پرامید ہے۔ پی ٹی آئی کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈالنے والی کہاوت تو خاصی پرانی ہے۔ کم از کم کورننگ امیدوار ہی میرٹ پر لے لیا جاتا تاکہ حکومت کو اتنی پریشانی نہ ہوتی۔ پی ٹی آئی تو میرٹ کے نعرے پر ہی اقتدار میں آئی تھی لیکن فیصلے میرٹ پر ہوتے ہوئے شاذو نادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔